دراصل یہ بالادستی کی جنگ ہے ۔ پنجاب یونیورسٹی میں بلوچ پشتون طلبہ اور جمعیت کے درمیان حالیہ تصادم کے بعد بھانت بھانت کی آراء سننے اور پڑھنے کو مل رہی ہیں ۔ کچھ مشاہدات ہمارے ذاتی بھی ہیں۔جہاں تک یہ کہنا کہ یہ سرخوں اور سبزوں کی لڑائی ہے ، میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ اب وہ ستر اور اسی والی نظریاتی کشمکش ہے اور نہ لوگ نظریے کی بنیاد پر اس طرح منظم ہوتے ہیں ۔
جو میں نے دیکھا وہ یہ ہے کہ جب سے بلوچستان کے طلبہ کو دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ کوٹہ دیا گیا اور یونیورسٹی کی طرف سے ماہانہ جیب خرچ بھی شروع کیا گیا توان کی بڑی تعداد پنجاب یونیورسٹی میں پہنچی ۔ ان کے لیے کسی بھی شعبے میں داخلہ مشکل نہیں تھا ۔ بلوچستان سے پڑھنے آنے والے اکثر طلبہ نسبتاً آسودہ حال محسوس ہوئے، یا زیادہ سے زیادہ متوسط گھرانوں سے،میں نے کئی بار یہ محسوس کیا کہ یہ طلبہ اپنے گروہ میں سہولت محسوس کرتے ہیں اور دوسرے طلبہ کے ساتھ ایک حد سے زیادہ گھلتے ملتے ہیں ۔ میں نے ان طلبہ میں احساس محرومی بالکل نہیں دیکھا بلکہ کئی بار تو گفتگو کہ دوران ان کے احساس برتری کا اندازہ ہوا ۔
یہ جب ایک گروپ بن گئے تو پہلے سے یونیورسٹی پر راج کرتی آ رہی جمعیت کو خطرہ محسوس ہوا۔ جمعیت نے انہیں ’’سبق‘‘ سکھانے کے لیے اپنے روایتی طریقے بروئے کار لائے ۔ جمعیت کے ان طریقوں سے سبھی واقف ہیں ، لیکن بلوچستان کے طلبہ کے بارے میں جمعیت کی یہ پالیسی کارگر نہ ہوسکی ۔ کئی بار کسی ایک بلوچ یا پشتون طالب علم کی پٹائی کے بعد جمعیت کے پورے جھتے کو مار کھانا پڑی ۔ یہ برسوں سے طاقت میں رہنے کی عادی جمعیت کے لیے بڑا صدمہ تھا۔ چنانچہ انہیں اپنی بالا دستی خطرے میں محسوس ہونے لگی اور تصادم کا سلسلہ وفقوں وقفوں سے شروع ہوگیا۔
دوسری جانب بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی سابق وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران نے علانیہ اور خفیہ ہر دوطرح بھرپور مدد کی اور انہیں جمعیت کے خلاف بطور ایک پریشر گروپ کے استعمال کیا۔اطلاعات یہ بھی ہیں کہ ڈاکٹر مجاہد کامران کی جانب سے دی گئی مالی امداد کے حوالے سے بلوچستان کے طلبہ میں اختلاف بھی ہواتھا ۔مجاہد کامران اپنے زمانہ طالب علمی میں جمعیت کے ساتھ وابستہ رہ چکے ہیں لیکن اپنی وائس چانسلر شپ کے دوران انہوں نے ضروری سمجھا کہ جمعیت کو کہیں ’’مصروف‘‘ رکھا جائے ۔ سو انہیں ایک مقابل گروہ میسر آ گیا۔ اور وہ ان کے خوب کام آیا ۔ اب مجاہد کامران نہیں ہیں لیکن اس فساد کی بنیاد رکھنے میں ان کا کردار نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
جمعیت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کسی صورت اپنی بالادستی ختم ہوتے نہیں دیکھ سکتی ۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ ایک منظم قوت بن چکے ہیں ۔ وہ اب یونیورسٹی میں مختلف طرح کے ایونٹس کرتے ہیں ۔ جمعیت ان کے کلچرل ایونٹس کو پسند نہیں کرتی ۔ نتیجے میں تصادم ہوجاتا ہے ۔ اب یونیورسٹی کے ہاسٹلوں میں ایک واضح تقسیم دکھائی دیتی ہیں ۔ ایک ہاسٹل میں کلی طور پر اور ایک پر جزوی طور پر بلوچستان کے طلبہ کا ’’ہولڈ‘‘ ہے اور کچھ ہاسٹلوں میں حسب سابق جمعیت کا راج ہے ۔مجھے لگتا ہے کہ بلوچستان کے طلبہ اب ’’قومی دھارے‘‘ میں شامل ہورہے ہیں اور جس اندازمیں ہورہے ہیں ، یہ واقعات اس کے عکاس ہیں۔
قطع نظر اس بات کے کہ تصادم میں کس کا پلّہ بھاری رہا ، ہمیں درس گاہوں کے احترام کے بارے میں فکر کرنی چاہیے ۔ طلبہ یونیورسٹی میں علم حاصل کرنے آتے ہیں ۔نظریاتی یا علاقائی بالادستی کے لیے کام کرنے والے گروہ ان کی صلاحیتوں کو منفی رخ دے رہے ہیں ۔ یونیورسٹی میں مختلف نظریاتی، معاشرتی و ثقافتی پس منظر کے لوگوں کو ملنے اور ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے ۔اوریہ تنوع مستقبل کے نسبتاً بہتر سماج کی نقشہ گری کرتا ہے۔ اس موقع کو صرف اس صورت میں مفیدبنایا جا سکتا ہے جب یونیورسٹی سے بالا دستی اور ’’ہولڈ‘‘ جمانے کی جنگ کا خاتمہ ہو ۔ اس میں یونیورسٹی انتظامیہ اور حکومت کو اپنا کام کرنا ہوگا۔