علامہ سید جواد نقوی کی انقلابیت

ہری پور ہزارہ خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے علامہ سید جواد نقوی ایک بڑے شیعہ عالم، مدرس اور خطیب ہیں۔ انہوں نے جامعہ اہل بیت اسلام آباد سے ابتدائی دینی تعلیم حاصل کی. اس کے بعد اعلیٰ دینی تعلیم کے لیے اہل تشیع کے سب سے بڑے علمی مرکز حوزہ علمیہ قم ایران چلے گئے جہاں‌ انہوں نے تیس سال تک درس و تدریس اور تعلیم و تحقیق کے دوران مختلف علوم میں تخصص کیا. سید جواد نقوی صاحب کا شمار معروف کثیر التصانیف شیعہ فقیہ، مفسر اور فلسفی آیۃ اللہ جوادی آملی کے خاص شاگردوں میں سے ہوتا ہے، وہ پاکستان کے مختلف شہروں‌ میں‌ محرم کی مجالس اور قومی جامعات کے سیمیناروں‌ اور کانفرنسوں‌میں‌ خطاب کے باعث بہت قلیل عرصے میں‌ پاکستان کی نئی نسل میں‌بہت مقبول ہوئے. وہ بیک وقت قرآن، نہج البلاغہ فلسفہ، اقبالیات اورسماجی امور اور عالمی و قومی حالات حاضرہ پر نظر رکھتے ہیں اور ان پر فوری رد عمل بھی دیتے ہیں. خطابت میں‌ تمثیل گوئی میں ان سے بڑھ کر شاید ہی کوئی اور خطیب ہو۔ کمال کے خطیب ہیں جو اپنے وسیع مطالعے اور متین انداز خطابت کے باعث شرکاء کو اپنی خطابت کے پرستار بنا دیتے ہیں۔ اپنے آپ کو انقلاب اسلامی ایران کے بانی امام خمینی اور رہبر اعلی سید علی خامنہ ای کے حقیقی پیروکار کہتے ہیں۔ نظریہ ولایت فقیہ کے مبلغ اور وحدت امت کے علم بردار ہیں۔ مختلف موضوعات پر ان کے علمی کام یقینا قابل تقلید و قابل تحسین ہے۔ میں موصوف کی علمی جلالت کا معترف ہوں،
http://islamimarkaz.com کے نام سے موجود ویب سائٹ پر ان کے خطابات دیکھے یا سنے جا سکتے ہیں۔(ان کی فکر و کردار کا تنقیدی جائزہ تفصیل کا متقاضی ہے)

ان کی ذاتی زندگی سے ہمیں کوئی غرض نہیں ہے۔البتہ جس سیاسی و سماجی سوچ کو وہ پروان چڑھا رہے ہیں وہ نعرہ بازی، جذباتیت پر مشتمل ہے۔ ان کی طرف سے ملنے والی سوچ اور تربیت اپنے آپ کو انقلابی کہلانے والے سینکڑوں شیعہ جوانوں کو جذباتیت میں‌ مبتلا کر رہی ہے۔ اپنے آپ کو مبلغ انقلاب کہلا کر باقی سب کے خلاف تقاریر کرتے اور تحاریر لکھتے ہیں جن کے بعد جذباتی جوانوں میں متشدد ذہنیت پروان چڑھنا ایک لازمی نتیجہ ہے۔ ان کے نام لیوا جوانوں سے سوشل میڈیا کے صارفین بھی اکثر الامان الحفیظ کہتے پائے جاتے ہیں۔ شاید درجنوں ایسے جوان ہیں جنہوں نے آغا سید جواد نقوی صاحب کی تقریروں اور ان کے پرستاروں سے متاثر ہو کر "ڈگریوں” والی تعلیم چھوڑی، سرکاری ملازمتیں چھوڑیں، اپنے والدین، رشتہ داروں اور دوستوں سے ملازمتیں چھڑوا دیں، دیگر سماجی مصروفیات سے کنارہ کش ہو کر انقلابی بنے آج ایسے جوانوں کی بڑی تعداد ہے جو اب سید جواد نقوی صاحب سے بری طرح متنفر ہو چکی ہے۔

ڈگری پر مبنی موجودہ عصری نظام تعلیم کے بجائے تخصص پر مبنی تعلیم کو ترجیح دیتے ہیں، سرکاری ملازمت کو وہ طاغوت کی خدمت سمجھتے ہیں اور جمہوریت کو طاغوتی نظام اور موجودہ جمہوری نظام میں‌ ووٹ دینے کو شرکیہ عمل قراردیتے ہیں. دینی مدارس کو خانقاہیں کہہ کر ان پر طعن کرتے تھے اب وہ خود مدرسہ بنا کر بیٹھ گئے ہیں۔ مذہبی تنظیموں پر غضب کی تنقید کرتے تھے آج وہ خود ایک مذہبی تحریک کے سربراہ ہیں۔ مقبولیت پسندی کو سامری کی پیروکاری قرار دینے والے آغا جواد نقوی خود اسی نعرہ بازی، مقبولیت پسندی اور سہل پسندی کے مرہون منت آج بہت سے جوانوں کے لیے معبود بنے ہوئے ہیں۔

لکھتے "منشور وحدت امت” ہیں امت تو دور کی بات ان سے اپنے ہم مکتب ادارے و علما کے نام برداشت نہیں ہوتے۔ وہ شیعہ علما و عوام کو کوفی و شامی (ان کا اشارہ حضرت امام حسین کے ساتھ نہ دینے والے لوگوں کی طرف ہے) سمجھتے ہیں (جو ان کے بتائے ہوئے خطوط پر چلنے کے لیے تیار نہیں)۔ باقی جو شیعہ تنظیمیں اور گروہ جو اس کیٹیگری سے بچ جائیں وہ ان کے نزدیک برطانوی و امریکی ایجنٹ قرار پاتے ہیں۔

ایسا لگتا ہے جیسے آغا سید جواد نقوی صاحب کے پاس ہر خشک و تر ان کے سامنے سمٹ کر آ چکے ہیں اور اب وہ ایسے علیم بالصدور بھی ہیں کہ مکمل حساب و کتاب کا میزان اللہ نے اب انہی کے حوالے کر دیا ہے۔ اب وہ جسے چاہیں فرعون کہ دیں، جسے چاہیں سامری کہیں، جسے چاہیں کوفی و شامی کہیں۔ جسے چاہیں طاغوت بنا دیں، جسے چاہیں ایجنٹ قرار دیں۔ ایسی الہامی انقلابی سوچ و تربیت کا متحمل کم از پاکستانی معاشرہ نہیں ہو سکتا جہاں موصوف کو ہر طرف طاغوت نظر آتا ہے۔

آزادی فکر و عمل اور نقل و حمل نیز آزادی اجتماع و گروہ بندی، آزادی اظہار کے تمام تقاضے اپنی جگہ بہت اہم ہیں اور ہر انسان کے ایسے تمام بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے ہم قائل ہیں، ہر انسان جو بھی نظریہ یا عقیدہ رکھتا ہو اس کی ترویج اور اس پر عمل کرنے کا حق رکھتا ہے مگر ہر اس سوچ کا پُرامن ذرائع و طریقوں سے مقابلہ کرنا بھی ہمارا حق بلکہ ہم پر فرض ہے جس سوچ سے ہماری نسلوں پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہوں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے