پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے معروف قانون دان اور سابق چیف جسٹس منظورحسین گیلانی کی خودنوشت سوانح کا مطالعہ دلچسپ رہا ۔ نئے سال کے تحفے کے طور پر میرے ہاتھ لگنے والی اس کتاب میں واقعات کی زمانی ترتیب کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ مصنف نے اپنے شجرۂ نسب سے ابتداء کی ہے ۔ پیدائش ، خاندان کے حالات ، شعور کی آنکھ کھلنے سے قبل والدین سے جدا ہوجانا ،بھارتی زیر انتظام کشمیر میں اپنے ننھیال میں پرورش اور ابتدائی تعلیم ، بچپن کی اُن مصروفیات کا ذکر ہے ،جو عموماً کشمیر کے پہاڑی دیہی علاقوں کے بچوں کی ہوتی ہیں۔اسکول کے زمانے کی شرارتیں ، اساتذہ کرام کاتذکرہ ،یہ سب کچھ ابتدائی صفحات میں درج ہے ۔
اپنے ایک کشمیری پنڈت استاد رتن لال سے 2010ء میں ہونے والی ملاقات کا ذکر ان الفاظ میں کیا کہ میں نے اُن سے پوچھا کہ ملی ٹینسی کے دِنوں میں کیسے گزارہ کیا تو ان کا جواب تھا:’’رات کو پاکستانی دہشت گردوں اوردن کو ہندوستانی دہشت گردوں (فوج) کی غلامی میں‘‘۔ پھر کالج کے زمانے کے واقعات درج کرتے ہوئے ایک تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ برصغیر اور بالخصوص پاکستان اور کشمیر کی بدقسمتی یہ ہے کہ ریاستی سطح کے لیڈر بھی بلدیاتی سطح کی سوچ رکھتے ہیں‘‘۔
1965ء میں پاکستان کی جانب سے کشمیر میں لانچ کیے گئے خفیہ ’’آپریشن جبرالٹر‘‘ کی تفاصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’میں نے اکثر ذمہ دار اکابرین سے سُنا کہ یہ واردات کسی مقامی لیڈر کو اعتماد میں لیے بغیر کی گئی تھی ‘‘۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحدی تناؤ کے دنوں میں لائن آف کنٹرول کے آس پاس بسنے والی آبادی کے مسائل اور فوج کی موجودگی کے وہاں کے سماج پر منفی اثرات کا بھی جائزہ لیا ہے ۔ منظور گیلانی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ :’’ 1965ء کی جنگ میں پاکستان کی فتح جتلائی جاتی ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ میں فوج نے پاکستانی سرزمین کا دفاع کیا ، فتوحات کوئی نہیں ہوئیں‘‘۔ اِسی سے ملتا جلتا اعتراف ائیر مارشل ریٹائر اصغر خان مرحوم اور ان کے کچھ ساتھیوں نے بھی بعد میں کیا کہ اس جنگ میں شروعات پاکستان کی جانب سے کی گئیں تھیں۔
علی گڑھ یونیورسٹی میں پہلے سائنس اور پھر ایک استاد کی ترغیب پر قانون کے شعبے میں داخلے کی کہانی ، تعلیمی اخراجات کے اسباب میسر نہ ہونے پر ایک سِکھ کی جانب سے پانچ ہزار روپے مدد کا واقعہ بیان کرنے کے بعد کہا’’میں اللہ پاک کی مہربانی اور اس سِکھ کی بروقت مدد کی وجہ سے وکیل ، جج اور چیف جسٹس بھی بن گیا ۔ اللہ تعالی اس کی نسلوں کا بھلاکرے‘‘۔
منظور گیلانی نے علی گڑھ سے فراغت کے بعد بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں وکالت شروع کی ، جس سے جڑی یادیں پانچویں باب میں شامل ہیں۔ اپنے آبائی علاقے کرناہ میں وکالت کے دوران سیاسی طور پر بھی مُتحرک ہوئے ۔ اسی دوران اُن کی شادی بھی ہوگئی ۔ کچھ عرصہ سرکاری ملازمت اختیار کی لیکن بعد میں چھوڑ دی ۔ اکہتر کے سانحۂِ مشرقی پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:’’ اگر یحییٰ خان نے اسمبلی کا اجلاس بلایا ہوتا اور بھٹو صاحب نے اپنی اَنا کی قربانی دے کر مشرقی پاکستان کی اکثریت کا حق تسلیم کیا ہوتا تو آج مشرقی پاکستان بنگلہ دیش نہ ہوتا‘‘۔
منظور حسین گیلانی ابتدائی طور پر جماعت اسلامی کے ساتھ وابستہ رہے لیکن انہیں میدانِِ سیاست میں اس کا کُودنا پسند نہ آیا ، چنانچہ لکھتے ہیں:’’میں نے بالآخر ایک مضمون لکھ کر جماعت سے علیحدگی اختیار کر لی کہ اگر الیکشن کی سیاست ہی کرنا ہے تو لوکل اور دینی جماعت کے پلیٹ فارم سے نہیں بلکہ قومی اور سیکولر پلیٹ فارم سے کرنا کشمیری مسلمانوں کے حق میں بہتر ہوگا‘‘۔ چھٹے باب میں بھارتی زیرِ انتظام کشمیر سے پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر (آزادکشمیر)منتقلی کی کہانی ہے ۔اُن لمحات کے کچھ جذباتی مناظر بھی قلم بند کیے ہیں، جب شعور سے قبل والدین سے جدا ہوجانے والا ایک بچہ صاحبِِ اولاد ہوکر اپنے والدین سے ملتا ہے ۔ اپنے خاندان کے لوگوں کے ساتھ میل جول اور نشیب وفرازکا ذکر بھی ہے ۔
اس کے بعدپاکستانی زیر انتظام کشمیر(آزادکشمیر) ہی میں وکالت اور قیام کی کہانی ہے ،جس میں کئی دلچسپ واقعات درج ہیں ۔آزادکشمیر میں سکونت اور قانون کی پریکٹس کے لیے انہیں اس وقت کے چیف جسٹس اور مصنف محمد یوسف صراف کی خصوصی اعانت حاصل رہی ۔ منظور گیلانی نے کتاب میں ایک سے زائد جگہ پر یہ شکوہ کیا ہے کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر سے مہاجر ہوکر آنے کی وجہ سے انہیں اور دیگر کچھ لوگوں کو پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے مقامی افراد کی جانب سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔
جب پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء لگاتو بریگیڈئیر حیات خان آزادکشمیر کے ایڈمنسٹریٹر تعینات ہوئے ، منظور گیلانی کے بقول وہ اچھے منتظم تھے لیکن سیاست دانوں کے خلاف وفاقی حکومت کی طرح انہوں نے بھی انتقامی روش روا رکھی ۔ اسی ضمن میں دلچسپ تبصرہ کیاکہ :’’ ہمارے ملکوں میں مُحب وطن اور شرفا کی فہرست ہر حکومت میں بدلتی رہتی ہے ، جس میں صرف حکومت اور دوست شامل ہوتے ہیں۔ باقی غدار‘‘۔
مصنف نے آزادکشمیر میں اپنی سیاسی سرگرمیوں کاقدرے تفصیل سے ذکر کیا ہے اور یہاں کے سسٹم پر بھی تبصر ے کیے ہیں ۔ وہ طویل عرصہ آزاد جموں کشمیرمسلم کانفرنس سے وابستہ رہ چکے ہیں ۔ گو کہ جماعت اسلامی اُن کا پہلا پیار رہی ہے لیکن اس پر کُٹیلا تبصرہ کرنے سے وہ نہیں چُوکتے ، کہتے ہیں:’’ جماعت اسلامی کا مقبوضہ کشمیر اور پاکستان بھر میں کردار یہ رہا ہے کہ کسی بھی شروع ہونے والی عوامی تحریک کی پہلے مخالفت یا اس سے غیر جانبداری اور جب یہ مقبول ہونا شروع ہوجائے تو اس پر قبضہ کر لیتی ہے جیسا کہ اس کی تحریک ہو‘‘۔
منظور گیلانی کے خاندان کے بیشتر لوگ مسلم کانفرنس میں شامل تھے اور خود اِن کا اسی وجہ سے سردارعبدالقیوم خان سے قریبی تعلق تھا ، انہوں نے اس کتاب میں سردار قیوم کی تعریف کم ، اُن پر تنقید زیادہ کی ہے ۔ان کے بقول ’’ سردار عبدالقیوم خان ہمیشہ مرکز کی مدد سے اقتدار میں آئے اور ان کو پاکستانی حکمرانوں کو رام کرنے کا گُر بھی آتاتھا۔ انہوں نے ہمیشہ پاکستان کی ملٹری اور سول بیوروکریسی کو الحاقِ پاکستان اور الحاق مخالف قوتوں کے ہیر پھیر میں پھنسا کر اپنی کرسی حاصل کی ‘‘۔
منظورگیلانی نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ” سردار قیوم خودمختار کشمیر کے حامیوں کی پشت پناہی اور انہیں مالی طور پر زندہ رکھ کر ان کی سرگرمیوں کو ایکسپلائٹ کرکے مرکزی حکومتوں کے منظور نظر بنتے رہے‘‘۔ منظور گیلانی نے اپنی اس کتاب میں سردار قیوم خان کے بیٹے سردار عتیق خان کو کئی جگہ پر آڑے ہاتھوں لیا اور ان کی بغیر کسی مینڈیٹ کے اپنے والد کے دور میں حکومتی معاملات میں مداخلت پر کڑی تنقید کی ہے ۔ 1991ء کے الیکشن کے بعد کا واقعہ لکھا کہ’’ چوہدری محمد خان میرے پاس آکر روئے کہ سردار عبدالقیوم صاحب اور ان کے بھائی عبدالغفار خان مرحوم نے مجھ سے اسمبلی سیٹ کے لیے45 لاکھ روپے لیے ، لیکن میری جگہ راجہ منشی کو ممبر بنوایا ۔ اس لیے ان کے خلاف کیس کرنا ہے‘‘
سردار قیو م خان کے بارے میں ایک جگہ لکھا کہ ’’جن کو زندگی بھر غدار کہہ کر سیاست کرتے رہے ، ان کی کروٹ بدلنے سے اب اُن کو محب وطن ، مجاہد اور جانباز کہہ کر سیاست شروع کر دی اور بہت کامیابی سے ریاست کے مقبوضہ حصے میں بھی متعارف ہوگئے‘‘۔
وہ سردارعبدالقیوم خان کے 1990ء کے بعد کے دور کو انتظامی اور مالی بدعنوانیوں کے لحاظ سے بدترین دور قرار دیتے ہیں۔ اس عرصے میں منظورگیلانی کے بقول سردار عتیق نے اپنی جماعت ، دوستوں اور تعلق داروں کو گریڈ 16سے 20 تک بھرتی کروا کر نوازا ،جو بعد میں عدالت میں چیلنج ہوکر جسٹس عبدالمجیدملک کے فیصلے کی بنیاد پر کالعدم قرار پائیں۔
منظور گیلانی کا موقف ہے کہ آزادکشمیر کی عدلیہ میں شریعت کورٹ کا قیام لبریشن سیل کی طرح چہیتوں کو نوازنے کے لیے عمل میں لایا گیا ۔ ان کے بقول جسٹس فاروقی صاحب اسے’ شرارت کورٹ‘ کہتے تھے ۔ منظور گیلانی نے اپنے ہائی کورٹ میں بطور جج گزرے اوقات میں سے کچھ واقعات کا ذکر کیا ہے جس میں پاکستانی ایجنسی آئی ایس آئی ایک کشمیری شہری کی اغواء میں ملوث تھی اور مغوی تشدد کی وجہ سے ہسپتال میں دَم توڑ گیا تھا ، اس واقعے کے بعد تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’’آزادکشمیر کیا ملک بھر کے لیے آئی ایس آئی ایسی ہی حیثیت رکھتی ہے جیسا حکومت پاکستان کے لیے سی آئی اے، جس کا ایجنٹ تین لوگوں کے قتل کے باوجود دیت کی رقم دے کر باعزت واپس امریکا بھیجا گیا ۔ ‘‘
اس کے بعد راولاکوٹ سے تعلق رکھنے والے خودمختار کشمیر کے حامی رہنما شوکت کشمیری کی گمشدگی کے مقدمے میں مذکورہ ایجنسی کے ساتھ ہونے والے معاملات کی تفصیل بھی لکھی ہے۔ بعدازاں 1996ء میں آزادکشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر بننے اور یونیورسٹی میں متعارف کی گئی اصلاحات کا مفصل ذکر ہے ۔
اسی باب کے آخر میں مصنف نے کچھ تبصرے بھی کیے ہیں، مثال کے طور پر چند سطور ملاحظہ کیجیے:
’’میں نے پاکستان میں سارا عرصہ صرف حکومت مخالف لوگوں کو ہی احتساب کی زد میں بلکہ انتقام کی زد میں دیکھا ہے اور احتساب زدہ شخص جس وقت حکومت وقت کی بیعت کرتا ہے، اسی روز پاک صاف ہو کر حکومت کے صف اول کے شرفا میں شامل ہو جاتا ہے ‘‘ ۔ گیلانی صاحب کا یہ تبصرہ اپنی جگہ بجا لیکن موجودہ حکومت میں نواز شریف کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے ، بعید نہیں کہ منظورگیلانی کی رائے اب اس بارے میں بدل چکی ہو۔
منظورگیلانی نے جابجا اس بات کی شواہد سے تصدیق کی کہ پاکستانی زیر انتظام کشمیر (آزادکشمیر)کے معاملات عموماً فوج ہی دیکھتی ہے ۔ چنانچہ لکھتے ہیں:’’جنرل مشرف کی حکومت کے دوران آزادکشمیر کے معاملات پر مری میں بیٹھنے والے جنرل آفیسر کمانڈنگ کو فیصلہ کرنے کی مرکزی حیثیت حاصل تھی ۔‘‘آگے چل کر صفحہ 353پر لکھا :’’جنرل مشرف کے زمانے میں جی او سی مری آزادکشمیرکی کیبنٹ اور حکومت کی میٹنگز کی صدارت کرتا تھا۔ صدر اور وزیراعظم کو مری میں بلا کر ہدایات دی جاتی تھیں‘‘۔مزید لکھا :’’آزادکشمیر کی حکومت کی اندرونی خودمختاری اسمبلی میں مہاجرین مقیم پاکستان کی بارہ نشستوں ، حکومت پاکستان، منسٹری آف کشمیر افیئرز،لینٹ افسروں اور مقامی ایجنسیوں کی یرغمال ہے‘‘۔منظور گیلانی نے حکومت پاکستان کے رویے پر حیرت کا ظہار کرتے ہوئے یہ بھی لکھا کہ:’’مجھے آج تک یہ بات سمجھ نہیں آسکی کہ اس علاقے کے لوگوں کو حقوق سے محروم رکھ کرہندوستانی کشمیر کی آزادی کی بات کیسے کی جارہی ہے؟‘‘
’میزانِ زیست‘ کا نواں باب ’’آئینی ارتقائی نوعیت کے فیصلے ‘‘ کے عنوان سے باندھا گیا ہے ، جس کے شروع میں لکھا ہے کہ:’’آئینی عدالت کے جج نے مقدمہ نہیں نمٹانا ہوتا بلکہ آئینی اور قانونی معاملات میں رہنمائی کرنا ہوتی ہے ، جس پر جج کے نظریات یقیناً اثر انداز ہوتے ہیں‘‘ ۔منظور گیلانی نے کتاب میں ایک اور جگہ اسی حقیقت کا اعتراف اِن لفظوں میں کیا ہے:’’میں نے بحثیت جج بھی نظریاتی طور پر انہی خطوط پر فیصلے دیے اور پاکستان کے مختلف اداروں سے اپنی عزت اور توقیر کی بحالی کے لیے قانونی اور سیاسی جنگ لڑی‘‘۔
منظور گیلانی نے اس باب میں کئی ایسے فیصلوں کا ذکر بھی کیا ہے ، جن کے ذریعے انہوں نے اپنے نظریات کے مطابق ’’رہنمائی‘‘ کی اور آزادکشمیر کے اسٹیٹس کے بارے میں پائے جانے والے ابہام کو اپنی سوچ کے مطابق اپنے تئیں ’’واضح‘‘ کرنے کی کوشش کی۔
منظورگیلانی یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو چاہیے کہ وہ آزادکشمیر کو اپنے صوبوں کے برابر اختیارات دے بصورتِ دیگراُن کے بقول ’’نوجوان نسل بدگمان اور خود مختار کشمیر کی حامی ہوتی جارہی ہے‘‘۔انہوں نے نویں باب ہی میں فوج کے ادارے ایف ڈبلیو او سے متعلق ایک واقعے کا ذکر کرنے کے بعد لکھا کہ:’’فوج کے کمرشل ادارے فوجی وردی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں، جن میں CMH,FWO,SCOشامل ہیں،یہی کیفیت ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میں بھی سول ورکس کرنے والے فوجی اداروں کی ہے، لیکن وہاں چونکہ ریاستی لیول پر فوج کو بالادستی حاصل نہیں ہے ، اس لیے اعلیٰ سطح پر اس کا سختی سے نوٹس لیا جاتا اور تدارک کیا جاتا ہے‘‘۔
منظور گیلانی نے اپنی عدالتی خدمات کے متعلق باب میں آزادکشمیر کی عدلیہ کی روایات کو پامال کرنے کادوش کچھ مقامی سیاست دانوں اور ایجنسیوں کو دیا ہے۔ تنازعِ کشمیر کے بارے میں اُن کا کہنا ہے کہ :’’ہندوستان اور پاکستان کی سیاسی جماعتیں کشمیر کا تنازع قائم رکھ کر اس پر ملکی اقتدار کے لیے سیاست کرتی ہیں ، کیوں کہ دونوں ملکوں کی سیاست کی بنیاد ایک دوسرے کی دشمنی پر قائم ہے اور یہ دشمنی کشمیر کا مسئلہ قائم رکھنے سے ہی قائم رہ سکتی ہے، اس لیے لگتا نہیں ہے کہ اس کو کوئی حل ہونے دے‘‘۔
انہوں نے 2007ء میں ہونے والے ایک مشہورعدالتی بحران (ریاض اختر بمقابلہ منظور گیلانی)کی رُوداد بیان کرتے ہوئے لکھا :’’سردار عتیق احمد خان کی حکومت اس کی اور وہ خفیہ اداروں کی دھاندلی کی پیداوار تھے، جو اس وقت سیاہ وسفید کی مالک تھیں۔ انتظامیہ اور عدلیہ اس کے سامنے بے بس تھے‘‘۔ انہوں نے کچھ ایسے واقعات بھی لکھے ہیں جن میں ملٹری اینٹیلی جنس کے افسروں کی پاکستان کے زیر انتطام کشمیر کی اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تقرریوں میں براہ راست مداخلت کا ذکر ہے ۔ مسئلہ کشمیر کے بارے میں ہونے مشرف دور میں ہونے والی ڈیویلپمنٹ کوایک جملے میں یوں لپیٹا:’’جنرل مشرف ہندوستان کے ساتھ اپنے چار نکاتی فارمولے کو آزادکشمیر میں عتیق خان، مقبوضہ کشمیر میں عمر فاروق،عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کے ذریعہ Saleکرنا چاہتا تھا۔‘‘آگے چل کر 2010ء میں وزیراعظم فاروق حیدرخان اوراس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیر الاسلام کی ایک ملاقات کا بھی ذکر ہے جس میں گیلانی کے بقول فاروق حیدر جنرل کے سامنے ڈٹ گئے تھے اور جنرل سہم گیا تھا۔
کتاب کے بارھویں باب میں کشمیر کے دونوں حصوں کی اُن شخصیات کا ذکر ہے، جن سے منظور گیلانی کا کسی نہ کسی صورت تعلق رہا۔ اُن میں پیرحسام الدین دیوانی، موہن سنگھ اور اندر سنگھ، پروفیسر سیف الدین سوز، سید مبارک شاہ ایڈوکیٹ ، پروفیسر عبدالغنی بٹ، سید علی گیلانی ، شیخ محمد عبداللہ ، عبدالغنی لون ، سابق گورنر ایس کے سہنا اور مفتی محمد سعید شامل ہیں ۔ منظور گیلانی لکھتے ہیں:’’ عبدالغنی بٹ اس بات پر شاکی ہیں کہ حریت کانفرنس کو پاکستان نے تقسیم کرایا ہندوستان نہیں کروا سکا‘‘، شیخ محمد عبداللہ کے بارے میں منظورگیلانی نے الفاظ یہ ہیں:’’شیخ عبداللہ سے آپ ہزار اختلاف کریں لیکن قد کاٹھ اور بے زبان کشمیریوں کو زبان دینے کی وجہ سے کشمیر نے اُن سے بڑا لیڈر پیدا نہیں کیااور وہ اپنا ثانی نہیں رکھتے، اس کے مقابلے کا لیڈر کشمیر میں پیدا نہیں ہوا ، وہ عوام کی رائے کی سمت مقرر کرتا تھا ، اس کے پیچھے نہیں چلتا تھا‘‘۔
شیخ عبداللہ سے ایک دلچسپ مکالمے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:’’جب میں نے ان کو کہا کہ اگر آپ نے کشمیر کو پاکستان میں شامل کیا ہوتایا خودپاکستان چلے گئے ہوتے تو قائداعظم کے بعد آپ لیڈر ہوتے۔ اس پر وہ ہنسنے کے بعد بولے کہ قائداعظم کو اُن لوگوں نے ایمبولینس میں مارا، مجھے لیاقت باغ میں لٹکا کر مار ڈالتے، وہ جاگیرداروں ،نوابوں اور فوجیو ں کا ملک ہے، عام لوگوں کا نہیں۔‘‘
2004ء میں کشمیر کے گورنرایس کے سہنا سے ملاقات کے احوال میں ایس کے سہنا کا جملہ یوں نقل کیا:’’دونوں طرف کی آرمی کے علاوہ سول قیادت اور سول سوسائٹی اِس(تنازع کشمیر) پر سیاست کر کے مال کماتی ہے‘‘ْ
شخصیات کے باب میں آزادکشمیر کے سیاست دانوں میں سے سردار عبدالقیوم خان کا ملے جلے انداز میں ذکر کیا ۔ شروع میں لکھا:’’زندگی بھر فوجیوں کے بل بوتے پر ہر لحاظ سے کشمیر کی سیاست پر قابض رہے‘‘۔سردار قیوم کا ایک اجلاس میں کہا گیا جملہ بھی اسی ذیل میں درج کیا کہ ’’سیاست میں شیطان سے بھی اتحاد کرنا جائز ہے ، اُن کا بیٹا سردار عتیق احمد خان بھی اُسی فلسفے پر چلتا ہے‘‘۔ ایک انکشاف یہ بھی کیا کہ ’’سردار صاحب نے یہ فلاسفی بھی پیش کی تھی کہ سیاست دانوں کو اُن کے قد کاٹھ کے مطابق فوجی رینک دیے جائیں‘‘۔
منظور گیلانی نے ایک خط کا بھی ذکر کیا جو سردار قیوم خان نے صدرووزیراعظم پاکستان، فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہوں کو لکھا تھا ، جس میں درج تھا کہ منظور گیلانی کی سرگرمیوں نے پاکستان کو اتنا نقصان پہنچایا ہے ، جتنا ہندوستان کی ایجنسیاں60 سال میں نہیں پہنچا سکیں۔ بہرحال مصنف نے بیچوں بیچ بعض حوالوں سے سردار قیوم خان کی تعریف بھی کی ہے۔
سردار محمد ابراہیم خان اور ان کے بیٹے خالد ابراہیم کا بھرپورانداز میں ذکر کیا ہے۔ کے ایچ خورشید، جنرل حیات خان، سکندر حیات، ممتاز راٹھور، بیرسٹر سلطان ،راجہ فاروق حیدر، عبدالرشید ترابی ، امان اللہ خان ، راجہ مظفر اور لطیف اکبر سے متعلق اپنے خیالات کا بھی اظہار کیا ہے۔بیرسٹر سلطان کے متعلق ظریفانہ تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:’’وہ کشمیر کے نام پربھرپور سیاست کرتے ہیں ، اپنے اور اپنی برادری کے خرچے پر وہ سب کچھ کرتے ہیں جو آزادکشمیر اور پاکستان کے باقی لیڈر سرکاری خرچے پر کرتے چلے آ رہے ہیں‘‘۔
تیرھویں باب میں بھارتی مقبوضہ کشمیر سمیت دنیا کے مختلف ممالک کی سیاحت اور مشاہدات کا ذکر ہے ۔ بیرون ملک خاص طور پر یورپ میں بسنے والی کشمیری کمیونٹی کے شب وروز ، ان کی دلچسپیوں ، باہمی تضادات اور گروہ بندیوں کا جابجا ذکر کیا ہے۔
انہوں نے اپنے 2003ء کے لندن کے سفر سے قبل دبئی میں پیپلز پارٹی کے رہنما اور آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی کے موجودہ قائدِ حزبِ اختلاف چوہدری محمد یاسین کی میزبانی میں گزرے تین دنوں کا ذکر کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ ’’انہوں نے مجھے بڑی پذیرائی بخشی، سیر کرائی اور صحرا میں گاڑیوں کی دوڑ میں شامل کیا۔ اس کے علاوہ ایک عینک اور غالباً پرفیوم بھی بطور تحفہ عنایت کی۔ انہوں نے مجھے ڈانس کلب میں بھی شرکت پر اصرار کیا لیکن میں نے معذرت کر لی۔ انہوں نے یہ سب کچھ ریاض اختر(وہ جج جس کی تقرری نے عدلیہ میں ایک بحران کو جنم دیا تھا) کی وجہ سے کیا تھا ۔ ۔ ۔اگر میں ان کے کہنے پر ڈانس کلب گیا ہوتا تو چوہدری صاحب نے یقیناً اس کی ویڈیو بنا کر مجھے بلیک میل کیا ہوتا‘‘۔
انہوں نے بیرون ملک آباد کشمیریوں کے سیاسی رجحانات کا خلاصہ پش کرتے ہوئے لکھا :’’کشمیر کی آزادی کے سلسلہ میں اکثریت خود مختار کشمیر کی حامی ہے ، گو کہ پاکستان کی سلامتی کے خلاف کوئی لفظ برداشت نہیں کرتی ۔ ‘‘
کتاب کا چودھواں باب ’’کشمیریات‘‘ کے عنوان سے ہے، جس میں کشمیر کی ماضی کی تاریخ کا سرسری جائزہ، اس کی جغرافیائی شناخت، آزادکشمیراور گلگت بلتستان کا نظم و نسق، ہندوستاتی زیرِانتظام جموں کشمیر کا تعارف ، مسلح تحریک کی رُوداد، ریاست کے مختلف خطوں کے باشندوں کے رجحانات جبکہ اُسی باب کے دوسرے حصے میں آزادکشمیر میں حکومتوں کی تشکیل و تحیل کے محرکات اور نتائج کا مفصل تجزیہ کیا گیا ہے ۔ آزادکشمیر میں ہونے والے الیکشنوں اور ان میں ہونے والی جوڑ توڑ اور اسی طرح گلگت بلتستان کی حکومتوں کی تشکیل و تحلیل کا تجزیہ بھی اسی باب میں شامل ہے۔
تیسرے حصے میں ہندوستانی مقبوضہ کشمیر کی ماضی اور حال کی حکومتوں کے اتار چڑھاؤ کا بیان ہے۔اس کے بعد کشمیر کی سیاست کے اہم ترین ٹرننگ پوائنٹ یعنی 1987کے الیکشن اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عسکریت پسندی کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے جبکہ اسی باب کے چوتھے حصے میں کشمیر سے متعلق مفاہمتی عمل کی تاریخ ،پاک بھارت مذاکرات اور معائدوں کا ذکر، ماضی قریب میں ہونے والی پیش رفت اور مسئلہ کشمیر کے منظور گیلانی کی دانست میں ’’ممکنہ حل‘‘ کا ذکر ہے، اس پر تفصیلی بات کسی اور کالم میں ممکن ہو سکے گی۔
کتاب کے پندرھویں باب ’’ متفرقات‘‘ میں آزادکشمیر میں غیر ریاستی جماعتوں کی مداخلت کے آغاز ، ارتقاء ، پھیلاؤ اور اس کے اثرات کا جاندار تجزیہ کیا گیا ہے ۔ منظورگیلانی کا کہنا ہے کہ ’’آزادکشمیر کی مرکز میں کوئی آئینی حیثیت نہ ہونے کی وجہ سے مرکزی جماعتوں کے بااثر شخص یا اشخاص یا خاندان جس کے نام سے مرکزی جماعت چلتی ہے ، وہ بالواسطہ عملی طور پر حکومت کرتے ہیں ، مقامی حکومت غیر متعلق ہو جاتی ہے۔‘‘
پاکستانی سیاست اور سیاسی جماعتوں کے کردار، پاکستان میں دیرینہ سول ملٹری کشمکش کا جائزہ بھی اسی باب کا حصہ ہے ۔ منظور گیلانی نے کشمیر کے بھارتی اور پاکستانی زیرانتظام دونوں خطوں کا موازنہ کرتے ہوئے لکھا کہ :’’ہندوستان کے زیر کنٹرول کشمیر کو ہندوستان کے آئین کے تحت اس سے زیادہ حقوق حاصل ہیں جو دیگر ہندوستانی شہریوں کو حاصل ہیں ، جبکہ پاکستان کے زیرِ کنٹرول کشمیر کے علاقے کے لوگوں کو وہ حقوق بھی حاصل نہیں جو ملک کے دیگرحصوں کو حاصل ہیں۔‘‘ انہوں سات صفحات میں دونوں اطراف کے سسٹم اور بنیادی حقوق کے باب میں کُھلے تفاوت کواس کے اسباب کے ساتھ بیان کیا ہے ۔
آخر میں اپنی بات کو مکمل کرتے ہوئے اپنے سماجی و عملی زندگی کے تجربات کانچوڑ پیش کیا ہے ۔کتاب کے ابتدائی صفحات اور انتہائی سطور سے اندازہ ہوتا ہے کہ منظور گیلانی اپنی اساس میں مذہبی ہونے کے باوجود بہت حد تک لبرل خیالات کے حامل ہیں ۔دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ اپنے ہم عصروں کے برعکس وہ رجعت پسند نہیں ہیں ۔کتاب کے شروع میں انہوں نے آزادکشمیر میں رائج ایک رسم جس کے مطابق سادات کی خواتین کی غیر سادات برادری میں شادی کرنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے ، اُس پر کھلی تنقید کی ہے اوراس طرز عمل کو ’’سماجی بدعت‘‘ قرار دیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ: یہ بدعت دنیا کے کسی کونے حتیٰ کہ عرب کے خطے میں بھی نہیں جہاں اہل بیت کو سبقت حاصل ہے‘‘۔ لیکن اپنی عدالتی زندگی میں کئی بولڈ اور مشکل فیصلے کرنے والے منظور گیلانی اپنے بچوں کی شادیوں کے باب میں اپنے ہی اس اصول پر عمل نہ کر سکے ۔اگر ایسا ہو جاتا تو آزادکشمیر کی عائلی تاریخ میں بھی ایک شاندار مثال قائم ہوجاتی۔ وہ اس ناکامی کا سبب خاندان اور برادری کی اخلاقی سپورٹ نہ ہونے کو قرار دیتے ہیں ۔خیر اس معاملے پر زیادہ اصرار فی الوقت مناسب معلوم نہیں ہوتا کیونکہ رسوم جنہیں بوجوہ مذہب کا ’’مُدعا‘‘ قرار دیا جا چکا ہو، ان میں تبدیلی کیلئے لوگ کافی دیر بعد تیار ہوتے ہیں ۔ منظورگیلانی کی اس قدر جرأت ہی قابل داد ہے کہ انہوں نے اس مذہبی طبقاتی سوچ کی برملا نفی کر دی ۔ منظور گیلانی نئی نسل سے مایوس نہیں ہیں ۔ وہ نئے لوگوں کے رجحانات کی روایت پسندوں کی طرح نفی نہیں کرتے بلکہ ان کے اپنے عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ طرزِ زیست کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور جیو اور جینے دو کے اصول پر عمل پیرا ہیں۔
کہا جا سکتا ہے کہ آزادکشمیر کی کسی شخصیت کی جانب سے بہت عرصے بعد ایک قابلِ ذکر کتاب ’’میزانِ زیست‘‘ کی صورت میں سامنے آئی ہے ، اس کتاب میں مصنف نے زمانی ترتیب کا خیال رکھنے کی کوشش کی ہے ، تاہم اس کے باوجود موضوعات کی قید کی بہت زیادہ پابندی نہیں کی ، واقعات اور مشاہدات کے بیان کے ساتھ ساتھ اپنے تبصرے بھی شامل کیے ہیں ۔ مصنف مسئلہ کشمیر ، پاکستانی اور بھارتی زیرانتظام خطوں کے بارے میں اپنا الگ موقف رکھتے ہیں ، جس کی جھلک تقریباً پوری کتاب میں محسوس ہوتی ہے ۔ آزادکشمیر کی آئینی حیثیت ، سیاسی تاریخ اور مسئلہ کشمیر میں دلچسپی رکھنے والے افراد میں یہ کتاب ایک بامعنی مباحثے کو انگیخت کرنے کی کافی صلاحیت رکھتی ہے ۔