کیا ن لیگ کے پاس متحدہ کے سوالوں کاجواب تھا؟

دارالحکومت میں بسر کرنے والے ہمارے ایک محترم دوست اس بات پر خفا تھے کہ ایم کیوایم نے جرات مندی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ یہ موقع تھا، وہ اسٹینڈ لیتے، سینیٹ الیکشن میں بہادری کا مظاہرہ کرتے۔ بہادری کا مظاہرے سے مراد شاید یہی تھی کہ وہ مسلم لیگ ن کے امیدوار کو ووٹ دیتے اور پھر اپنے اس اظہار خیال پر رائے بھی دریافت فرمائی۔

ان کی خدمت میں عرض کیا کہ ذرا ٹھنڈے دماغ سے ان کے حالات کے بارے میں بھی کچھ سوچیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ میاں نواز شریف’’نظریاتی مچان‘‘ سے یہ جنگ آج لڑ رہے ہیں، اس سے قبل انہوں نے ایک ایک قدم جو پیچھے ہٹایا تھا، اس کا انہیں پورا پورا حساب دینا ہوگا۔

کراچی میں جب کارروائی کا آغاز ہوا تو ایم کیو ایم نے اپنے سیاسی آپشنز کھلے رکھنے کے لیے ، زرداری دور میں قائم ’’رحمن ملک چینل‘‘ کے طرز پر کوئی راستہ بنانے کی کوشش کی لیکن جناب وزیر اعظم نے التفات نہیں فرمایا۔ ابھی بات کچھ آگے بڑھنے ہی کو تھی کہ بائیس اگست آگیا۔ ایم کیو ایم بکھرنے لگی، مصطفی کمال منظر پر آئے، ایم کیوایم لندن اور پاکستان کے بعد بہادرآباد اور پی آئی بی کے دھڑوں میں تقسیم ہوتی گئی۔

اس سے پہلے کے منظر نامے پر بھی ایک نظر ڈالیں۔ میاں صاحب ابھی سول بالادستی کی جنگ کے لیے میدان میں نہیں اُترے تھے اور سندھ پر اپیکس کمیٹی حکمران تھی۔ سندھ کے شہری اور صوبائی اداروں سے قانون نافذ کرنے والے ادارے ریکارڈ ضبط کررہے تھے ، سندھ حکومت صرف ضبط کررہی تھی۔

بائیس اگست کے بعد ایم کیوایم کی داخلی شکست وریخت نے اس کے آپشن محدود تر کردیے۔ بھلے سے گرفتار ہونے والوں کو ایم کیوایم لندن کا کارکن کہا جاتا ہے، لیکن بہرحال اس حوالے سے اپنے ووٹرز اور حامیوں کا دباؤ موجودہ قیادت ہی کو برداشت کرنا پڑتا ہے اور یہ صورت حال جاری و ساری ہے۔ ان کے کارکنان کبھی باقاعدہ گرفتار ہوئے اور کہیں گرفتار کرنے والوں کا اتا پتا نہیں۔ اس صورت حال پر بھی کبھی ن لیگ کی طرف سے کوئی حرف تسلی نہیں کہا گیا۔

مسلم لیگ ن کی قیادت بڑی شد و مد سے کراچی میں قیام امن کا کریڈیٹ لیتی ہے، یعنی دوسرے لفظوں میں ایم کیو ایم جس بحران کی شکار ہے، اس کا کریڈیٹ بھی اسی کے کھاتے میں جاتا ہے۔ ایسی صورت میں سینیٹ میں ایم کیو ایم کے لیے مسلم لیگ ن کی حمایت ہر گز کوئی آپشن ہی نہیں تھا۔

دوسری جانب پیپلز پارٹی ہے، جس پر ایم کیو ایم حالیہ سینیٹ الیکشن کے دوران اپنے ایم پی ایز کوللچانے کا الزام عائد کرچکی ہے۔ کراچی کی بلدیاتی حکومتوں کو اختیارات نہ دینے اور شہر کے مسائل کا ذمے داری بھی پی پی کی صوبائی حکومت کو قرار دیتی ہے، اسی لیے ڈپٹی چیئرمین کے لیے پی پی کے امیدوار سلیم مانڈوی والا کو ووٹ دینے میں بھی ایم کیو ایم کے لیے عین مین وہی قباحتیں تھیں، جو ن لیگ کا ساتھ دینے میں۔ اس کا حل یہی نکالا گیا کہ ایم کیو ایم پی پی کے امیدوار کو ووٹ نہیں دے گی اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے چیئرمین کے انتخاب کے لیے اپنا وزن اس پلڑے میں ڈال دے گی۔

یہاں یہ بات بھی بعید از قیاس معلوم نہیں ہوتی کہ نمبر گیم اسی وقت پورا ہوچکا تھا تبھی ایم کیوایم کے لیے سلیم مانڈوی والا کو ووٹ نہ دینے کا فیصلہ قبول کرلیا گیا۔ ایسی صورت میں ایم کیو ایم سے ’’اصول پرستی‘‘ کی کتنی توقع کی جاسکتی تھی؟ اور وہ اس تناظر میں مسلم لیگ ن کے لیے کیوں اپنے سیاسی آپشنز مزید محدود کرنے پر آمادہ ہوتی؟ شاید انہی سوالوں کے جواب متحدہ سے رابطہ کرنے والے ن لیگ کے وفد کے پاس نہیں تھے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے