چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی اور فلسطینی طالب علم

چند سال قبل میرے ایک فلسطینی دوست نے جو پاکستان میں فلسطینی طلباء کی یونین کا صدر بھی تھا مجھ سے فون پر الوداعی ملاقات کی خواہش کا اظہار کیاکیونکہ بقول اس کے وہ پاکستان چھوڑ کر واپس فلسطین جانے کی تیاری کر رہا تھاجس پر مجھے بہت استعجاب ہوا کیونکہ اس کی ڈگری ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی۔ میرے استفسار پر اس نے بتایا کہ فلسطینی سفیر کے ساتھ اس کی کچھ چپقلش ہو گئی تھی اور انھوں نے وزارت داخلہ کو مذکورہ طالبعلم کو ڈی پورٹ کرنے کیلئے لکھ دیا تھا جس کے نتیجے میں اسے اب مجبوری کے عالم میں پاکستان چھوڑنا پڑ رہا تھا۔

ان دنوں اسرائیلی فوج کی بربریت اور مسلسل حملوں کے باعث فلسطین کے حالات کافی کشیدہ تھے جس سے وہ طالبعلم بہت پریشان تھا۔ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر میں یہ معاملہ محترم میر محمد صادق سنجرانی کے نوٹس میں لایا جو اس وقت وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں وزیر اعظم شکایات سیل کے چیف کوراڈینیٹر تھے ا ور انھیں معاملہ احسن انداز میں حل کرانے کی درخواست کی تاکہ مذکورہ طالبعلم کو اپنی پڑھائی ادھوری نہ چھوڑنی پڑے۔ صادق سنجرانی صاحب نے کمال مہربانی اور شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ذاتی دلچسپی لے کر اس بے یارومددگار فلسطینی طالبعلم کے تعلیمی مستقبل کو بچانے میں انتہائی مثبت کردار ادا کیا۔

یہ محض ان کے کردار اور انسان دوستی کی ایک چھوٹی سی مثال ہے جبکہ میں ایسی کئی مثالوں کا عینی شاہد رہا ہوں ۔ عام اور غریب پاکستانیوں خاص طور پر بلوچستان کے لوگوں کو ریلیف پہنچانے کیلئے سنجرانی صاحب ہمیشہ پیش پیش ہوتے تھے۔ایسے فعال، انسان دوست ، علم دوست اور خدمت کے جذبے سے سرشار لوگ ہمارے سیاسی حلقوں میں کم ہی ملتے ہیں۔عام اور غریب شہریوں کی بلاسفارش اعانت کیلئے انھوں نے وزیر اعظم شکایات سیل کومحض احکامات کی ترسیل کا رسمی ڈاکخانہ بنانے کی بجائے اسے انتہائی مؤثر اور فعال بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا اور وزیر اعظم آفس جہاں صرف خواص کورسائی تھی اور جو عام پبلک کیلئے پہلے ایک نو گو ایریا تھا ، تک عام آدمی کی رسائی ممکن بنائی ۔ عام لوگ اپنی عرضیاں لے کر وزیر اعظم آفس کی راہداریوں میں نظر آتے تھے اور ان کی شنوائی بھی ہوتی تھی کیونکہ صادق سنجرانی صاحب بنفس نفیس ہر سائل کو نہ صرف عزت دیتے تھے بلکہ پوری توجہ سے ان کی بات سن کر موقع پر ہی انھیں ریلیف پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔

اگرچہ صادق سنجرانی صاحب عملی اور انتخابی سیاست میں نووارد ہیں لیکن وہ سیاست کا وسیع تجربہ اور مشاہدہ ضرور رکھتے ہیں۔ میر صادق سنجرانی کا انتخاب جن حالات میں بھی ہوا لیکن میرے تجربے اور مشاہدے کے اعتبار سے یہ ایک انتہائی اچھا انتخاب ہے جس کی بہت سی توجیہات پیش کی جاسکتی ہیں۔باقی عوامل اور تجزیہ کاروں کی جھوٹی سچی رپورٹیں اپنی جگہ لیکن میرے نزدیک انکا انتخاب ان مجبور، بے بس اور غریب لوگوں کی دعاؤں کا مرہون منت ہے جن کی وہ پوری دلچسپی سے بات سنتے اور پھر پوری سنجیدگی کے ساتھ ان کے مسائل حل کرواتے تھے ۔

بہت سے نامی گرامی سینیٹرز اور انتہائی قد کاٹھ رکھنے والے سیاستدانوں کی موجودگی میں ان کا حسن انتخاب بذات خود ایک معجزے سے کم نہیں اور معجزے ہمیشہ دعاؤں کی بدولت ہی ہوتے ہیں۔سرکاری دفاتر اور بابوؤں کے سرخ فیتے کا شکار ہر سائل انکے دفتر سے انھیں ڈھیروں دعائیں دیتا ہوا ہمیشہ خوش و خرم واپس جاتا تھا۔سیاست کی باریکیاں اپنی جگہ لیکن ایک بات طے ہے کہ نیک نیتی اور خلوص نے ہی انھیں اس ممتاز مقام پر فائز کیا ہے۔ تعلق اور دوستی نبھانے کا فن اور حقیقت پسندی کا ادراک انکی اضافی خوبیاں ہیں۔

عام لوگوں کے پاس نومنتخب چیئرمین سینٹ کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں لیکن کئی سالوں کے تعلق اور ذاتی مشاہدات کے تناظر میں میرے نزدیک وہ ایک انتہائی بااصول، نڈر و بے باک، باکردار، انتھک کام کرنے والے اور ایک محب وطن شخص ہیں جو نہ صرف پاکستان بلکہ بلوچوں کے ساتھ بھی بہت مخلص ہیں ۔ بلوچستان سے پہلے چیئرمین سینٹ کیلئے وہ ایک انتہائی موزوں شخص ہیں جن کا انتخاب نہ صرف بلوچستان کو قومی دھارے میں لانے اور مضبوط وفاق کا باعث بنے گا بلکہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیتوں سے بھی مالامال ہیں اس لئے ان کے انتخاب کے بارے میں سازشی تھیوریوں پر مبنی بے سروپا اور منفی باتوں سے گریز کرتے ہوئے بلوچستان کے مینڈٹ کو احترام دینا چاہیئے۔

جو لوگ کہتے ہیں کہ ان کے انتخاب سے بلوچستان کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا انکے اندازے بہت غلط ہیں ، میں نے ہمیشہ ان کو مختلف فورمز پر جذباتی اور منطقی انداز میں بلوچستان کا مقدمہ پیش کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔ وہ وفاق پاکستان کے اندر رہتے ہوئے آئینی طریقے سے بلوچستان کے حقوق کی بات کرتے ہیں اور انھوں نے بساط بھر بلوچستان کے عوام کی محرومیوں کے ازالے کیلئے ہمیشہ اقدامات اٹھائے ہیں اور مجھے پوری امید ہے کہ وہ چیئرمین سینٹ کی حیثیت سے نہ صرف وفاق پاکستان بلکہ بلوچستان کی بہتری کیلئے بھی پوری کاوشیں کریں گے۔ ذاتی طور پر وہ انتہائی ایماندار ، سلجھے ہوئے ، ملک و قوم کی خدمات کے جذبے سے سرشار اور مضبوط کردار کے حامل کرشماتی شخصیت ہیں جن کے ساتھ ہر کوئی کمفرٹیبل محسوس کرتا ہے۔وہ حسد، انا، لالچ ،نمودونمائش ،کینہ پروری، تعصب، تنگ نظری اور بغض جیسی بیماریوں میں کبھی مبتلا نہیں ہوتے بلکہ فطری طور پر سادگی پسند، نفاست پسنداور درویشانہ طبیعت ومزاج رکھتے ہیں ۔

ان کی ایک نمایاں خوبی یہ ہے کہ کوئی شخص ان کی معیت میں بوریت محسوس نہیں کرتا کیونکہ وہ انتہائی بذلہ سنج اور ہنس مکھ ہونے کے ساتھ ساتھ مردم شناس بھی ہیں اور لطیف انداز میں کڑوی بات منہ پر کرنے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں۔بلوچستان کے انتہائی پسماندہ علاقے نوکنڈی سے تعلق رکھنے والے صادق سنجرانی جاگیردارانہ یا سرمایہ دارانہ پس منظر نہیں رکھتے بلکہ مڈل یا پھر اپر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان کا سب سے بڑا اثاثہ احساس ہے۔

انھوں نے 1998 میں وزیر اعظم نواز شریف کی ٹیم کے ساتھ بحیثیت کوارڈی نیٹر اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز کیا۔ اس کے بعد 2008میں انھوں نے یوسف رضا گیلانی کے ساتھ وزیر اعظم شکایات سیل کے چیف کوارڈی نیٹر کی حیثیت سے پانچ سال تک بے مثال خدمات دیں۔ جب نواب ثناء اللہ زہری بلوچستان کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تو انھوں نے وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی کے طور پر اپنی خدمات انجام دیں اور2018میں آزاد حیثیت سے سینٹ کے رکن اور بعد ازاں متحدہ اپوزیشن کے متفقہ امیدوار کے طور پر چیئرمین سینٹ کا انتخاب جیتنے میں کامیاب ہوئے۔

بیالیس سالہ صادق سنجرانی صاحب نہ صرف بلوچستان سے منتخب ہونے والے پہلے چیئرمین سینٹ ہیں بلکہ شائد پاکستان کی تاریخ کے پہلے نوجوان چیئرمین سینٹ بھی ہیں۔اس لحاظ سے وہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں یہ دوہرا اعزاز حاصل کرنے والے پہلے شخص ہیں ۔میری طرف سے نہ صرف میر محمد صادق سنجرانی بلکہ تمام پاکستانیوں اور بالخصوص بلوچ عوام کو ان کے بحثیت چیئرمین سینٹ انتخاب پر دلی مبارکباد۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے