غالب کے اشعار سے سجی کولکتہ کی گلیاں

نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا
گر نہیں مرے اشعار میں معنی، نہ سہی

سچ تو یہ ہے کہ غالب کو ستائش کی تمنا بھی تھی اور صلے کی پروا بھی، اور انھیں یہ بھی معلوم تھا کہ ان کے اشعار میں معنی نہیں جہان معانی آباد ہے۔

انڈیا میں غالب کی ان دنوں دھوم نظر آتی ہے۔ دہلی میں اگر غالب کی دلی سجائی جاتی ہے تو مغربی بنگال کے درالحکومت کولکتے میں مرزا غالب سٹریٹ ان دنوں اوراق مصور بنے ہوئے ہیں۔

اردو کے ایک متوالے اور غالب کے مداح مدور پتھریا نے اپنی جیب خاص سے مرزا غالب سٹریٹ کو اسم با مسمی بنانے کا عزم کیا ہے اور اس کے اثرات نمایاں ہیں۔

مدور پتھریا نے بتایا کہ سڑک پر بدنما نظر آنے والے بجلی کے بکسے ان کے لیے اوراق مصور بن گئے ہیں۔ انھیں یہ خیال ایک اشتہار دیکھ کر آیا اور پھر انھوں نے محکمۂ بجلی سے رجوع کیا۔

انھیں ان کا یہ خیال پسند آیا اور پھر انھوں نے اس جانب کام شروع کیا۔ پہلے پہل تو انھوں نے کولکتے کی تہذیب و ثقافت اور ورثے کے لحاظ سے کچھ باکس کو پینٹ کیا اور پھر ان کے فطری میلان نے ممیز لگائی اور وہ پاک سٹریٹ سے مرزا غالب سٹریٹ پہنچ گئے۔

انھوں نے بتایا کہ ہر چند کہ مرزا غالب اس سٹریٹ پر کولکتہ کے دورے میں نہیں ٹھہرے تھے، شاید وہاں سے ان کا گزر بھی نہ ہوا ہو لیکن کلکتہ کے قلب میں واقع ایک سٹریٹ کو ان کا نام دینا ان کے شایان شان ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس سڑک پر کولکتہ بستا ہے۔ یہاں مسجد بھی ہے اور قحبہ خانہ بھی اور انھوں نے غالب سٹریٹ کو غالب کے اشعار سے مزین کر دیا ہے۔

اس سٹریٹ پر درجنوں بجلی کے بکسے ہیں اور وہ ہر ایک کو غالب کے اشعار کے ذریعے معنی خیز بنانا چاہتے ہیں۔

مدور پتھریا نے کہا: ‘بجلی کے یہ بکسے اب صرف بکسے نہیں رہے یہ ہماری وراثت کا حصہ بن گئے ہیں۔‘

‘مرزا غالب کا کلام اپنے آپ میں ایک جہان ہے۔ جہاں قحبہ خانہ ہے وہاں موجود بجلی کے بکسے پر میں نے غالب کا ایک مصرع لکھا ہے۔ ‘گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی’ جسے دیکھ کر پڑھنے والے کے چہرے پر ایک معنی خیز مسکراہٹ ضرور پھیل جائے گی۔’

انھوں نے کہا کہ وہ غالب کے اشعار میں نئی معنویت دیکھتے ہیں جس سے اس گلی کے رہنے والے خود کو جوڑ کر دیکھ سکیں۔

مدور پاتھریا سوشل میڈیا نٹورک واٹس ایپ پر ایک اردو لورز گروپ بھی چلاتے ہیں۔ انھوں نے جب چند تصاویر پوسٹ کیں تو اردو کے متوالوں نے انھیں اپنے اپنے انداز میں داد دی۔

عرفان علی مرزا نے لکھا: ‘بہت دنوں بعد یہ شعر نظر سے گزرا۔ یار سے چھیڑ چلی جائے اسد/ گر نہیں وصل تو حسرت ہی سی
مدور صاحب اگر آپ اسی طرح چلتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب دیوان غالب کولکتہ کی سڑکوں پر ملیں گے۔’

مدور پتھریا نے بی بی سی کو بتایا کہ ایک بکسے کو ڈیزائن اور پینٹ کرنے پر مجموعی خرچ 2600 روپے آتا ہے اور انھوں نے اس کام کے لیے ایک لاکھ پیشگی رقم ادا کردی ہے تاکہ جلد از جلد ان کی تمنا پوری ہو۔

انھوں نے کہا: ‘یہ پیسے خرچ کرکے مجھے بڑی خوشی ہو رہی ہے۔’

اسی گروپ کے سرگرم رکن ابھے پھڈنس نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘یہ شاندار خیال ہے جسے بہترین انداز میں زمین پر اتارا گیا۔ انھوں نے ایک ایک شعر کو منتخب کرنے میں اپنا وقت لیا ہے۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جسے دوسرے شہروں میں بھی اپنایا جا سکتا ہے۔’

مدور نے مدر ٹریزا، پاپ سٹار لوئی بینک، مجاہد آزادی سبھاش چندر بوس، ایس ڈی برمن، آر ڈی برمن جیسی بہت سی شخصیتوں کے حوالے سے بھی کئی بجلی کے بکسے پینٹ کیے۔

یعنی بجلی کے بوسیدہ مدقوق بکسے ان کے لیے اوراق مصور بن گئے اور ہر ایک ہندوستانی اور کولکتے کی ثقافت کے گواہ۔

[pullquote]بشکریہ بی بی سی اردو[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے