حبیب جالب: حالات نے جن کو رومانوی سے انقلابی شاعر بنادیا

وہ خوشبو کے تعاقب میں، عشق کی راہ پر، تتلی کے رنگوں کو شمار کرتے کرتے اپنے آپ سے بچھڑ گیا۔ محبوب سے مکالمے نے اس کو ذوقِ جمال، قوی حوصلہ اور دل میں اتر جانے کی کیفیت بخشی۔

وہ جدائی کا تمغہ اور بچھڑ جانے کا سوز لے کر، سرزمینِ عشق سے کوچ کرگیا۔ اس کا عشق ذات سے نمودار ہوکر زمانے میں تبدیل ہونے لگا، وہ پھر وہ نہ رہا جو تھا، بلکہ وہ ہوگیا جو اسے ہونا تھا۔ دل کی شکست و ریخت کے ملبے سے جب برآمد ہوا، تو بلند حوصلہ تھا۔ اس نے محبت کے نغمے ترک کیے، میں نہیں مانتا کی صدا لگائی، ظلمت کو ضیاء لکھا، انقلاب کا تمثیلی چہرہ اور عوام کا محبوب شاعر بن گیا۔

تاریکی کے دیوان میں، روشنی سے لکھے ہوئے اس شاعر کا نام حبیب جالب ہے۔

وہ کتنے حُسن پرست اور رومان پرور شاعر تھے، اس کے لیے ان کے پہلے مجموعہ ’برگِ آوارہ‘ کا حوالہ کافی ہے۔ وہ صرف شعری مجموعہ نہیں بلکہ ان کے داخلی جذبات کا عکس نامہ بھی ہے۔ دہلی سے کراچی اور پھر لاہور قیام کے دوران، وہ اپنی جنم بھومی کی یادوں کو کریدتے رہے۔ فطرت کے حُسن میں نسوانی جمال کی آمیزش کرکے بیانیے کو اتنے دلکش انداز میں لکھا، جو پڑھنے اور سننے والوں کے دل میں اتر گیا۔ ملاحظہ کیجیے

وہ روشن گلیاں یاد آئیں، وہ پھول وہ کلیاں یاد آئیں

سُندر من چلیاں یاد آئیں، ہر آنکھ مدھر متوالی تھی

انہوں نے شعوری زندگی کی ابتداء اور تخلیقی سفر کا آغاز لفظِ محبت سے کیا۔ وہ محبوب جس کو غزل کے نام سے مخاطب کرتے تھے، اپنے احساس میں پرونے کو، مزید کئی مختلف نام اور القابات میں ڈھالتے رہے، کہیں نزہتِ مہتاب، نازشِ خورشید اور جانِ غزل کہا تو کہیں بدنِ نغمگی کہہ کر یاد کیا۔

ان کی جنم بھومی اس جنم کا حوالہ بھی ہے، جب آتش جوان تھا، آنکھیں خواب لیے مخمور ہوا کرتی تھیں، خوابیدہ تنہائی۔ وصل کے لمحے مہیا تھے اور جذبات کا شیریں احساس منہ زور تھا۔ زمانے کا حسد آڑے آیا، محبت پر دولت نے شبِ خون مارا، ہندسے حروف پر فاتح ہوئے، عاشق ہار گیا، سماج کی فتح ہوئی، لیکن اس لمحہءِ کمزور سے بغاوت نے جنم لیا، ایسی بغاوت جس نے محبوبیت کو نہ ماننے کے نعرہ مستانہ جیسی انقلابیت کے رنگ سے بدل دیا۔ جمہوریت کی آبرو اور عوام کا شاعر ہونا اس کا مقدر ٹھہرا۔ اپنے محبوب کے لیے ’رخصتی‘ کے عنوان سے نظم لکھی جو ہارے ہوئے محبوب کا رزمیہ ہے۔ لکھتے ہیں:

تُو کلی، نزہتوں، نکہتوں میں پلی

چھوڑ کر شہرِ گل، سُوئے صحرا کو چلی

وہ سلگتا دیا، تو سحر کی کرن

سوچتا ہوں یہی، کیسے بہلے گا من

دھڑکنوں کو سکوں کیسے بخشے گا دھن

لوگ تجھ کو کہیں گے نصیبوں جلی

ان کے پہلے مجموعہ ’برگِ آوارہ‘ میں ان کی داخلی زندگی کے اوراق بکھرے ہوئے ہیں۔ محبوب کی ادائیں، خدوخال، دلکشی، جاذبیت، حُسن کے دیگر کرشمے اور ان کہی باتوں کا تفصیلی احوال ملتا ہے۔ کیفیت کے اثر میں لکھی اس شاعری کے بارے میں معروف ادبی نقاد ڈاکٹر عندلیب شادانی کتاب کے دیباچے میں لکھتے ہیں:

’برگ آوارہ کو جالب کی آپ بیتی کہنا یقیناً درست ہے، جہاں سے کھولیے، جہاں سے پڑھیے، اس کی زندگی کا کوئی نہ کوئی واقعہ سامنے آجاتا ہے۔‘

[pullquote]یہ چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔[/pullquote]

بہار آ کے چلی بھی گئی مگر جالب

ابھی نگاہ میں وہ لالہ زار پھرتے ہیں

پھر رہی ہیں آنکھوں میں تیرے شہر کی گلیاں

ڈوبتا ہوا سورج تیرتے ہوئے سائے

یہ تیری توجہ کا ہے اعجاز کہ مجھ سے

ہر شخص ترے شہر کا برہم ہے مری جاں

کتنی روشن ہے تنہائی جب سے یہ معلوم ہوا

میرے لیے اپنی پلکوں پر تم بھی دیپ جلاتی ہو

وہ جو ابھی اس راہگزر سے چاک گریباں گزرا تھا

اس آوارہ دیوانے کو جالب جالب کہتے ہیں

محبت کے موضوع پر وہ کئی طرح سے گفتگو کرتے ہیں، مگر کچھ معاملات میں واضح ہیں۔ ایک جگہ خود کہتے ہیں

’یہاں تو شادیاں بھی انسانوں کی بجائے ہندسوں سے ہوتی ہیں۔ ہندسے جو اس دور کی قوت سمجھے جاتے ہیں۔ ہندسے، جن کے بغیر آج کے انسان کو ادھورا گردانا جاتا ہے، ہندسے جو چیک میں بھرے جاتے ہیں، ہندسے جن کے ساتھ چہروں کی پہچان وابستہ کردی گئی ہے۔‘

یہی کسک انہیں کوچہ جاناں سے دور لے گئی اور انہوں نے آوارگی میں راہِ فرار تلاش کی۔ اپنی بے سروسامانی کو بھی فخر سے بیان کیا، محبوب سے بھی شکوہ کیا، مگر زمانے کے سامنے اپنے جذبات کی دولت لیے سینہ سپر رہے۔

مدت ہوئی ہے کوئے بتاں کی طرف گئے

آوارگی سے دل کو کہاں تک بچائیں ہم

یہ اعجاز ہے حُسنِ آوارگی کا

جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے

جی دیکھا ہے مر دیکھا ہے

ہم نے سب کچھ کر دیکھا ہے

برگِ آوارہ کی صورت

رنگِ خشک و تر دیکھا ہے

اپنے دیوانوں کا عالم

تم نے کب آکر دیکھا ہے

حبیب جالب نے محبوب کو پردے میں جہاں کئی القابات سے مخاطب کیا، وہیں کئی دیگر حسین، ذہین اور دلکش خواتین کو تخلیقی خراج بھی پیش کیا۔ کہیں ممتاز بہ زبان نظم، تو کہیں اداکارہ نیلو کی خودکشی کو ’رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے‘ کو نظم کیا۔ گلوکارہ نور جہاں اور لتا منگیشکر پر خراج کے پھول برسائے تو کہیں فریدہ خانم کے ترنم کو بیان کیا۔ کہیں ماضی کی یادوں میں بنگال کے حُسن کا تذکرہ بھی نکلا، تو کہیں پنجاب کے شباب کا، ہر چند کہ مخاطب کوئی بھی ہو، بیان کی دلکشی میں حرارت کم نہ ہوئی۔ مثال کے طور پر یہ دو اشعار دیکھیے۔

جس کی آنکھیں غزل، ہر ادا شعر ہے

وہ مری شاعری ہے مرا شعر ہے

وہ حسین زلف شب کا فسانہ لیے

وہ بدن نغمگی وہ قبا شعر ہے

حبیب جالب 24 مارچ 1924ء کو ہندوستان کے ضلع ہوشیار پور کے علاقے میانی افغاناں میں پیدا ہوئے۔ غربت و افلاس کے ماحول میں آنکھ کھولی۔ والد اور بڑے بھائی سے شاعری ورثے میں ملی۔ پہلا مجموعہ ’برگِ آوارہ‘ کی اشاعت میں چھوٹی بہن کا کردار تھا، اس نے ان کے بیکار کاغذ کے پرزے جمع کیے، جن پر ان کی زیادہ تر شاعری لکھی ہوتی تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کرکے کراچی پہنچے، یہاں سے کئی شہروں سے ہوتے ہوئے لاہور میں مستقل طور پر رہائش پذیر ہوگئے۔

پہلے پہل وہ اپنا نام حبیب احمد مست میانوی تخلص کرتے تھے، جو بعد میں حبیب جالب ہوگیا۔ پاکستانی صحافت سے بھی علاقہ رہا، فلمی دنیا سے بھی جڑے رہے۔ ایوب خان اور یحییٰ خان کے مارشل لاء نافذ ہونے پر بطور متحرک سیاسی کارکن اور حساس دل رکھنے والے شاعر کے، بھرپور احتجاج کیا، نتیجے میں جیلیں بھگتیں۔ مادرِ ملت فاطمہ جناح کے جلسوں میں اپنی شاعری ترنم میں پڑھنے سے شہرت کا پروانہ ان کے نام جاری ہوا۔

جدوجہد کے دنوں میں ضیاء الحق اور بھٹو کا جبر بھی سہا۔ بے نظیر بھٹو سے قربت رہی، پرویز مشرف کے دور میں بھی، وکلا تحریک میں ان کی شاعری کو احتجاج کے طور پر دوبارہ دہرایا گیا۔ انہوں نے خواتین کے ایک جلسے میں، ان پر برسنے والی لاٹھیاں اپنے جسم پر سہیں، اس منظر کو معروف فوٹو گرافر اظہر جعفری نے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرلیا تھا، وہ تصویر اب ایک تاریخی حوالہ ہے۔

ان کے شعری نسخہ جات اب کلیات کی شکل میں قارئین کے لیے مارکیٹ میں دستیاب ہیں، جبکہ ان کی سوانح عمری ’جالب بیتی‘ بھی شایع ہوچکی ہے۔ ان کے بھائی شوکت پرویز بھی جالب کی فکر کے فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں، انہوں نے اس مقصد کے تحت حبیب جالب امن ایوارڈز کا اجراء بھی کیا ہے۔

حبیب جالب بطور بیٹے اور بھائی فرماں بردار، بطور شوہر، ملنسار اور محبت کرنے والے اور بطور والد شفیق رہے۔ اپنی زندگی کو والد کی شاعری اور نظریات کے فروغ کے لیے وقف کرنے والی طاہرہ حبیب جالب سے گفتگو میں حبیب جالب کے زندگی کے کئی دیگر پہلو منفرد انداز میں منکشف ہوتے محسوس ہوتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’والد میرے لیے آدرش ہیں، نشانِ منزل ہیں، جینیاتی طور پر ان کی بغاوت مجھ میں بھی منتقل ہوئی ہے۔ بچے ماں کی لوری سن کر سوتے ہیں، ہم نے اپنے والد سے لوری سنی۔ وہ گھر میں والدہ اور بہن بھائیوں سے انتہائی دوستانہ انداز میں گفتگو کرتے، ہنسی مذاق کرتے، انہوں نے زندگی کی تلخیوں کو اپنے شعری ڈھال سے روکے رکھا، ہم سے ہمیشہ اچھے دوستوں جیسے مراسم رکھے۔ یہ الگ بات ہے کہ زندگی اور سماجی رویوں نے جہاں ایک طرف انہیں شہرت دی تو دوسری طرف ان کی روح پر بھی کچوکے لگائے۔

وہ جب جیل جاتے تو پورے محلے کو پتہ ہوتا تھا۔ ہم دکانداروں سے راشن لے لیا کرتے تھے اور ان کو خبر ہوتی تھی کہ جب ان کا والد واپس لوٹے گا تو ان کا قرضہ بھی ادا ہوجائے گا۔ ایران کی حکومت سمیت پاکستان سرکار نے کئی بار انہیں مراعات دینے کی کوشش کی، مگر وہ اس طرح کی کسی بھی مدد کو وصول کرنے سے انکاری رہے۔ وہ دل سے نرم مگر شعری لہجے کے جارح تھے، [کیوں کہ ان کے] دل میں سماج کا دکھ درد دھڑکتا تھا۔‘

اپنے ایامِ اسیری کے دنوں میں، جب ان کی بیگم ملاقات کو آئیں تو گفتگو میں خانگی پریشانیوں کا ذکر بھی نکلا اور موضوعات بھی زیرِ بحث آئے، اس پر انہوں نے ایک نظم بعنوان ’ملاقات‘ لکھی، جس کا ایک اقتباس یوں ہے کہ ۔۔۔

جو ہو نہ سکی بات وہ چہروں سے عیاں تھی

حالات کا ماتم تھا ملاقات کہاں تھی

اس نے نہ ٹھہرنے دیا پہروں مرے دل کو

جو تیری نگاہوں میں شکایت مری جاں تھی

حبیب جالب جیسے شاعر کسی بھی سماج کا ضمیر ہوتے ہیں۔ زمانہ حال میں جالب کی شاعری حسبِ حال ہے۔ وہ ذات سے زمانے تک، محبت اور احتجاج کے حسین رنگوں سے مزین ایسے الفاظ کو تراشتے ہیں، جیسے کوزے میں دریا بند کردیا جائے۔ وہ معاشرے کی توڑ پھوڑ سے دل گرفتہ بھی ہوتے ہیں اور آمرانہ طاقتوں کے سامنے مزاحمت بھی کرتے ہیں۔ مگر سب سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ زندگی نے جب تک ان سے وفا کی، وہ بنگال اور پنجاب میں رہ جانے والی دلکشی اور حُسن کی یادوں کو سرگوشیوں میں دہراتے رہے۔

بلند و بانگ لہجے کے پیچھے ایک معصوم شخص تھا جو خوشبو کے تعاقب میں عشق کی راہ پر تتلی کے رنگوں کو شمار کرتے کرتے اپنے آپ سے بچھڑ گیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے