عدالتی مارشل لا کی بات ایک مایوس سیاست دان کی صدائے دردناک کے سوا کچھ نہیں، مگر اس ملک میں ایک قالبِ خیال (mindset) ایسا بھی ہے جو ہمیشہ کسی مسیحا کے انتظار میں رہتا ہے۔
علامہ اقبال ابن خلدون کی تائید کرتے ہیں کہ اہلِ اسلام نے یہ تصور مجوسیت سے مستعار لیا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ خیال اسلام کے تصورِ تاریخ سے متصادم ہے۔ لوگ کبھی آسمان کی طرف نگاہ اٹھاتے ہیں کہ اس کا دروازہ کھلے اور کوئی نجات دہندہ نمودار ہو۔ یا پھر کوئی خاص نظر کسی پیکرِ خاکی کو یہ صلاحیت بخش دے کہ وہ چشمِ زدن میں سب کچھ بدل ڈالے۔ ایک رومان ہے کہ کوئی گھوڑے پر سوار، ہاتھ میں تلوار تھامے، اچانک پردۂ غیب سے نمودار ہو اور پھر اس کی سپر کی چمک سے امن اور خوش حالی کے چراغ جل اٹھیں۔ مارشل لا یا عدالتی مارشل لا، اس تصور کی تعبیرِ نو کے سوا کچھ نہیں۔
انسان کا تہذیبی ارتقا اس سے مختلف سمت میں ہوا ہے۔ اس کا رخ انفرادی سے اجتماعی دانش کی طرف ہے۔ یہ فرد سے ادارے کی طرف سفر ہے۔ فرد ِ واحد کتنا مخلص و بینا کیوں نہ ہو، اپنی فکری و مادی حدود سے تجاوز نہیں کر سکتا۔ یہی سبب ہے کہ جب الہام کا دروازہ بند ہوا تو آسمان سے بھی مشاورت ہی کی ہدایت اتری۔ آخری رسول سیدنا محمدﷺ نے، اپنی زندگی ہی میں مشاورت کا کلچر متعارف کرا دیا، اس کے باوجود کہ آپﷺ کو مشاورت کی ضرورت نہیں تھی۔ جن پر آسمان سے براہ راست ہدایت اترتی ہو، انہیں انسانی مشاورت کی کیا حاجت! اس کے باوصف، آپ امورِ دنیا میں صحابہ سے مشورہ فرماتے اور بعض اوقات ان کے مشورے کو قبول بھی فرماتے۔ یہ دراصل مشاورت کو بطور قدر مستحکم کرنا اور اجتماعی دانش کو فروغ دینا تھا۔
انسانی تہذیب کا جو سفر آسمانی ہدایت سے بے نیاز ہو کر آگے بڑھا، اس نے بھی انفرادی سے اجتماعی دانش کی طرف رجوع کیا ہے۔ یہ بات ان نتائجِ فکر میں سے ہے جن پر الہامی اور غیر الہامی فکری روایات متفق ہیں۔ اگر کوئی اختلاف ہے تو وہ زمانی ہے۔ غیر الہامی تہذیب اس اصول کا اطلاق تاریخ کے تمام مراحل پر کرتی ہے جبکہ الہامی روایت اسے ایک خاص دور سے متعلق قرار دیتی ہے۔ یہ دور بعد از ختمِ نبوت ہے۔ دوسرا اختلاف یہ ہے کہ الہامی روایت میں، آزادیٔ فکر کے باوجود، ہدایت کے لیے تاابد الہامی روایت کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ غیر الہامی روایت میں ایسی کوئی قید موجود نہیں۔
الہامی اور غیر الہامی روایت کا یہ اتفاق بتاتا ہے کہ آج کے دور میں، یہ فردِ واحدکے بس میں نہیں ہے کہ وہ تنہا پیچیدہ انسانی مسائل کا حل دریافت کر سکے۔ اسی وجہ سے، سیاسی عمل آمریت سے جمہوریت کی طرف بڑھا ہے۔ آمریت فوجی ہو یا غیر فوجی، ایک غیر فطری حل ہے۔ جمہوریت میں اقتدار کسی فردِ واحد کی ذات میں مرتکز نہیں ہوتا۔ یہ اداروں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ جمہوریت میں اگر عدلیہ فیصلہ دے دے تو چیف ایگزیکٹو اقتدار چھوڑ دیتا ہے‘ جیسا کہ نواز شریف صاحب نے کیا۔ آمریت میں عدالت چیف ایگزیکٹو کے خلاف فیصلہ دے تو وہ عدلیہ ہی کو گھر بھیج دیتا ہے جیسے مشرف صاحب نے کیا۔
میرا احساس یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں لوگ ڈگریاں وغیرہ تو لے لیتے ہیں مگر اس ذہنی ارتقا سے نہیں گزرتے جو حصولِ علم کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ لوگ اعلیٰ ترین مناسب تک پہنچ کر بھی ذہنی طور پر ماضی کے اسیر رہتے ہیں۔ وہ آج بھی یہ خیال کرتے ہیں کہ کوئی مسیحا آئے گا، جو قوم کے حالات کو بدل ڈالے گا۔ عدالتی مارشل لا کی باتیں بھی اسی سوچ کا مظہر ہیں۔
خیال ہوتا ہے کہ لوگوں نے یہ تصور چیف جسٹس صاحب کے ایک انٹرویو سے اخذ کرنے کی سعی کی ہے۔ اس انٹرویو میں عزت مآب نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ کاش اللہ تعالیٰ اس ملک کو عمر فاروقؓ جیسا حکمران دے دے۔ انہوں نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ مجھے ایسے فیصلوں کی توفیق دے دے جن کے نتیجے میں کوئی نیک، ایماندار اور کمپیٹنٹ حکمران سامنے آ جائے‘‘۔
یہاں ایک سوال اٹھتا ہے: آئین کی حدود میں رہتے ہوئے، ایک چیف جسٹس ملک کو عمر فاروقؓ جیسا حکمران کیسے دے سکتا ہے؟ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ ”میں ملک میں ایک بار سو فی صد فری اور فیئر الیکشن کراؤں گا۔‘‘ یہ طالب علم استفسار کرتا ہے کہ ”آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے، سو فی صد فری اور فیئر الیکشن کیسے کرائیں گے؟‘‘ میری طرح کا کوتاہ نظر یہ بھی سوچتا ہے: ”فری اور فیئر کے نتیجے میں کیا ہمیں حضرت عمر فاروق ؓ جیسا حکمران مل جائے گا؟‘‘ محترم چیف جسٹس صاحب اگر ان سوالات پر بھی کچھ فرمائیں تو مجھ جیسے طالب علموں کا بھلا ہو گا جو قانون کی باریکیوں سے ناواقف ہیں۔
میرا حسنِ ظن ہے کہ لوگوں نے چیف جسٹس صاحب کے انٹرویو سے جو اخذ کیا ہے، وہ ہرگز ان کا مقصد نہیں تھا۔ اسی لیے انہوں نے عدالتی مارشل لا کے تصور کو رد کیا ہے۔ ان جیسا صاحبِ علم اور تجربہ کار جانتا ہے کہ آج فردِ واحد کی حکمرانی کا خیال متروک ہو چکا۔ یہ تاریخ کے عمل کو ماضی میں لے جانا ہے جو ناممکن ہے۔ وہ مدت سے ریاستی نظام کا حصہ ہیں اور جانتے ہیں کہ جدید ریاست کا تصور فردِ واحد کے اقتدار کو قبول نہیں کرتا۔ ان سے بہتر آئین کو کون سمجھ سکتا ہے جو پارلیمانی نظام کی بات کرتا ہے۔ پارلیمانی نظام اجتماعی دانش کی حکمرانی کے اصول کو مانتا ہے۔
رہی بات احتساب کی تو واقعہ یہ ہے کہ عدالتی احتساب، عوامی احتساب کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ عدالت ان شواہد کی پابند ہوتی ہے جو رائج الوقت قانونِ شہادت پر پورا اترتے ہوں۔ اس نظام میں اتنے خلا ہیںکہ بعض اوقات مجرم تک پہنچنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ مزید یہ کہ بہت سے اخلاقی رذائل ایسے ہیں جو جرائم میں شامل نہیں جیسے والدین کی نافرمانی یا تکبر۔ اسی طرح اب سیاست کو عدالت سے الگ کرنا بھی ممکن نہیں رہا۔ اس لیے سیاسی اعتبار سے عدالتی احتساب فیئر اور فری الیکشن کی ضمانت نہیں بن سکتا۔
عوامی احتساب، سیاسی معاملات میں عدالتی احتساب کا بہتر متبادل ہے۔ عوام کسی قانونِ شہادت کے پابند نہیں ہوتے۔ وہ اپنے مشاہدے، تجربے اور کسی فرد کی ساکھ کو سامنے رکھ کر فیصلہ دیتے ہیں۔ وہ جرم کے ساتھ ان اخلاقی رذائل پر بھی فیصلہ دیتے ہیں، جو قانون کے دائرے میں نہیں آتے۔ گویا عوام کے پاس صحیح نتائج تک پہنچنے کے ذرائع عدالت سے زیادہ ہیں۔ 2013ء کے انتخابات اس کے گواہ ہیں۔ عدالت نے آصف زرداری صاحب کو صادق اور امین قرار دیا۔ ان کے خلاف کرپشن کے تمام مقدمات، قانونِ شہادت کی روشنی میں بے بنیاد ثابت ہوئے۔ انہیں بری کر دیاگیا۔ عوامی عدالت نے مگر انہیں بری نہیں کیا۔ اس نے ان کو بے گناہ ماننے سے انکار کیا اور یوں اقتدار کے لیے نااہل قرار دے دیا۔ اب زیادہ مؤثر احتساب کون سا ہوا؟
اسی اصول کا اطلاق عام جرائم پر نہیں ہوتا۔ سیاست کی تطہیر اور قیامِ امارت، معاشرے کے تزکیے سے مختلف کام ہیں۔ دونوں کے اہداف یکساں نہیں، اس لیے لائحہ عمل بھی ایک جیسا نہیں ہو سکتا۔ دونوںکا فرق اس وقت میرا موضوع نہیں۔ سیاسیات کا ہر طالب علم اس فرق سے واقف ہے۔ عدالتی نظام جوہری طور پر جرائم کے خاتمے یا حوصلہ شکنی کے لیے ہوتا ہے، جن سے دوسروں کے حقوق براہ راست متاثر ہوتے ہوں۔ عدالت یہ طے نہیں کرتی کہ کسے حقِ حکمرانی حاصل ہے۔ اس کا فیصلہ مشاورت سے ہوتا ہے۔ ریاست کا وجود، قیامِ امن اور اجتماعی استحکام کے لیے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی قیادت کے انتخاب کے لیے عوام کے اعتماد کو لازمی سمجھا جاتا ہے۔
عدالتی مارشل لا کی بات کرنے والے دراصل انتخابات سے فرار چاہتے ہیں۔ آج انتخابات سے فرار کا مطلب آگ سے کھیلنا ہے۔ انتخابات سے گریز نے ہمیشہ بحران کو جنم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کو ایسے فتنوں سے محفوظ رکھے۔