18ویں ترمیم ان سب لوگوں کے گلے کی ہڈی بنی ہوئی ہے جو طاقت کی مرکزیت کے قائل ہیں ۔ پاکستان میں یہی لوگ اکثر صدارتی نظام کی بات کرتے رہتے ہیں ۔ اسی سے ملتی جلتی سوچ کے تحت ماضی میں ون یونٹ جیسے ناکام تجربات بھی کیے گئے ۔ جس کا نتیجہ ملک کے دو لخت ہونے کی صورت میں سامنے آیا۔
پاکستان کے ایک معروف سائنس دان اور ایچ ای سی کے سابق چیئرمین بھی اکثر اپنے مضامین میں صدارتی نظام کا پرچار کرتے رہتے ہیں ۔ آج بھی انہوں نے اپنے مضمون میں بالواسطہ یہی کہا ہے ۔ ابھی کچھ دیر قبل صحافی مطیع اللہ جان کا ٹی وی شو دیکھ رہا تھا ، وہاں ایک بریگیڈیر صاحب بیٹھے تھے ، جنرل باجوہ کی کچھ دن قبل اینکروں اور صحافیوں کو دی گئی ”آف دی ریکارڈ بریفنگ” زیربحث تھی ۔ جنرل صاحب نے اس بریفنگ میں 18ویں ترمیم کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
جب پروگرام میں بیٹھے ایک سابق بریگیڈیر سے یہ سوال پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ”اگر میں جنرل باجوہ کی جگہ ہوتا تو ایسی کوئی بریفنگ نہ دیتا” دوسرے انہوں نے 18 ترمیم کے بحال رہنے کی حمایت کی ۔ کسی بھی حاضر سروس یا سابق فوجی افسر کی جانب سےایسے خیال کا اظہار سن کا سماعت کو اجنبی سی حیرت کا احساس ضرور ہوتا ہے ، لیکن یہ اچھا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ 18ویں ترمیم کے نتیجےمیں صوبے اپنے داخلی سطح کے فیصلوں میں پہلے کی نسبت بہت زیادہ بااختیار ہوئے ہیں ۔ غیر سیاسی اشرافیہ کو کئی وجوہات کی بنا پر یہ ترمیم کھٹکتی ہے ۔ بعض وجوہات یا اس ترمیم کے نتائج ایسے ہیں جس سے بالواسطہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کے ”مفادات” متاثر ہوئے ہیں ، سو وہ تو یہ بات کریں گے ہی۔ اہم بات یہ ہے کہ صوبوں کی حکومتیں اس ترمیم کے تحت ملے اختیارات کا موثر اور نتائج افزاء استعمال ممکن بنائیں تاکہ یہ دلیل نہ اٹھائی جا سکے کہ صوبائی حکومتیں اس قدر زیادہ اختیارات کو ”سنبھال” نہیں پا رہیں لہذا اس پر نظرثانی کی جائے۔
باقی رہا وحدت ، فیڈریشن کا "استحکام” اور یکجہت ہونے کا معاملہ تو یہ سوچنا غلط ہے کہ 18 ویں ترمیم کے نتیجے میں یہ متاثر ہوتی ہیں ۔ کئی ممالک میں ریاستوں کو انتہائی وسیع القلبی کے ساتھ داخلی خودمختاریاں میسر ہیں ، وہاں کوئی قیامت نہیں ٹوٹی۔مشاہدہ ہے کہ اس ترمیم کے نتیجے میں طاقت اور اختیارات کی صوبوں کو تقسیم سے دیرینہ محرومی کے احساس کو کم کرنے میں مدد ملی ہے اور صوبوں کی جانب سے وفاق کے ساتھ مخاصمت میں کافی حد تک کم ہوئی ہے ۔باقی یہ بھی ذہن میں رہنا چاہئے کہ انسان کوئی ڈھور ڈنگر نہیں ہوتے ، ان کے درمیان اختلافات ہوتے ہیں اور ہونے بھی چاہیں ۔ اضداد اشیا کے تشخص کی بنیاد ہوتے ہیں ۔ سدھائے ہوئے خچروں کی مانند یکجہتی یا ”ڈنڈہ مارکہ” نظم کی توقع انسانوں سے رکھنا ذہنی بیماری کی علامت ہے۔
بہتر یہی ہے کہ 18ویں ترمیم پر اس کی روح کے مطابق مکمل عمل درآمد ممکن بنایا جائے تاکہ کسی نقب زن کو جملہ اختیارات مرکز میں مرتکز کرنے کا خیال نہ آئے۔مہذب سماجوں میں شہریوں کو ممکن حد تک بنیادی آزادیاں دی جاتی ہیں ۔ عام آدمی کی زندگی میں ہیجان کم سے کم ہوتا ہے۔ غیریقینیت کم ہوتی ہے ۔ نتیجے میں سماجی عمل ہمواری سے چلتا رہتا ہے۔