منظور پشتین کے 29اپریل کو سوات میں کیے گئے جلسے کے کچھ مناظر سوشل میڈیا پر دیکھے۔اس جلسے میں پورے مالاکنڈ ڈویژن سے لوگوں کی بڑی تعداد شریک تھی۔جلسہ ماضی میں طالبان کا گڑھ سمجھی جانے والی تحصیل کبل کے ایک میدان میں ہو رہا تھا۔یہ وہی میدان تھا جہاں کبھی صوفی محمد جلسے کیا کرتے تھے۔ اس جلسے میں نوجوانوں کے علاوہ خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شریک تھی ۔ میرا خیال ہے کہ اس سے قبل سوات میں کسی بھی جلسے میں اتنی تعداد میں خواتین نہیں دیکھی گئیں ۔ برقعوں اور بڑی چادروں سے چہرے ڈھانپے ہوئے خواتین کے ہاتھوں میں تصویریں اور بینرز تھے۔ان بینرز پر ان کے پیاروں کی گرفتاری،گمشدگی یا قتل کی اطلاع کے ساتھ اس کی تاریخ اور ’’انصاف کی تلاش‘‘ کی مدت درج درج تھی۔
جالی دار برقعے میں ملبوس ایک ادھیڑ عمر خاتون کے ہاتھ میں موجود کتبے پر لکھا تھا کہ اس کا 17سالہ بیٹا شادی کے پانچویں روز سیکیورٹی اداروں نے گرفتار کیا تھا اور اب نو برس گزر گئے، وہ واپس گھر نہیں آیا۔ایک اور خاتون نے اپنے 14سالہ بچے کی تصویر اٹھا رکھی تھی جو نو سال سے لاپتا ہے۔ ایک عمر رسیدہ بزرگ کی گفتگو سنی جو شکایت کر رہے تھے کہ ان کا بیٹا اسکریپ کا کاروبار کرتا تھا ،10 برس ہوگئے وہ ابھی تک لاپتا ہے۔ دو بچے اسٹیج پر کھڑے تھے۔ان میں سے ایک اپنے جاں بحق ہو جانے والے اپنے والد کواردو اشعار کی صورت میں یاد کر رہا تھا جبکہ اس کی پہلو میں کھڑی بچی پشتو زبان میں اس کا ترجمہ کر رہی تھی ۔ ایک بچی اپنے والد کو یاد کرتے ہوئے کچھ اس طرح کے اشعار پڑھ رہی تھی ’’’میں روؤں اور تم قریب نہ ہو بابا!، اے مولا میرے بابا سا کوئی پیار جتانے والا ہو‘‘۔
سب سے درد ناک منظر وہ تھا جب میں نے دو چھوٹی بچیاں اپنے ننھے ہاتھوں میں اپنے مقتول والد کی تصویر اٹھائے ہوئے دیکھیں،ان کا والد بینک منیجر تھا جو آپریشن کے دوران مارا گیا۔ بچی پشتو میں اپنے والد کے قتل کی کہانی سناتے ہوئے رو پڑتی ہے۔جب پوچھا جاتا ہے کہ کس نے تمہارے بابا کو قتل کیا تو دونوں بچیاں بیک آواز کہتی ہیں ’’فوجیان ظالمان‘‘ اور ان کے آنسو ٹپک پڑتے ہیں۔
ایک عمر رسیدہ عورت پاؤں پسارے وہاں بیٹھی ہے،بتایا گیا کہ جنگ میں اس کا کوئی نقصان نہیں ہوا ،وہ بنوں سے سفر کر کے محض اظہار یکجہتی کے لیے آئی ہے۔ جلسے میں شریک ایک عمر رسیدہ خاتون تقریباً لپکتے ہوئے پی ٹی ایم کے چندہ باکس میں پیسے ڈالتے ہوئے دکھائی دی۔
ایک ویڈیو میں جنگ مخالف بھرپور قسم کے نعرے سنے ۔ یہ نعرے اسٹیج سے لگائے جا رہے تھے اور جلسے کے شرکاء اس کے جواب دیے رہے تھے۔ نعروں کے الفاظ کچھ یوں تھے :
’’یہ مارا ماری۔ ۔ ۔ ناں بھئی ناں
یہ موت کا دھندہ ۔ ۔ ۔ ناں بھئی ناں
یہ دہشت گردی۔ ۔ ۔ ناں بھئی ناں
یہ طالب گردی۔ ۔۔ ناں بھئی ناں‘‘
کہیں کہیں’’یہ جو دہشت گردی ہے ، اس کے پیچھے وردی ہے کے نعرے بھی سننے کو ملتے رہے‘‘
پشتون تحفظ موومنٹ کے روح و رواں منظور پشتین نے اپنے پاس ایک اے فور سائز کے سفید کاغذ پر تقریر کے نکات لکھ کر رکھے تھے۔منظور پشتین کی تقریر کے اہم نکات یہ تھے:
*سوات کا امن بحال ہو چکا ہے،فوج اب بیرکوں میں واپس جائے
*پاکستان میں بسنے والے پنجابی ، سندھی ،بلوچ اور پشتونوں کا اگر کوئی رشتہ ہے تو وہ آئین پاکستان کی وجہ سے ہے ، آئین نے سب کو متحد کر رکھا ہے
*ہمارے مطالبے آئین کے مطابق ہیں،آئین شہریوں کو حقوق دیتا ہے اور اداروں کو ان کا دائرہ اختیار بتاتا ہے۔
*ہم پر غداری کے الزامات لگائے جا رہے ہیں ،غدار وہ ہیں جنہوں نے ملک کا آئین توڑا۔
*منظور پشتین نے سوال اٹھایا کہ روس کے خلاف جنگ سے لے کر اب تک پختونوں اور اسلام کاکیا فائدہ ہوا؟ پھر خود ہی کہا کہ ’’ کچھ لوگوں کے ذاتی مفادات پورے ہوئے‘‘
* لاپتا کیے گئے افراد کو عدالت کے سامنے پیش کیا جائے اور عدالت ان کے گناہ گار یا بے گناہ ہونے کا فیصلہ کرے۔
* منظور پشتین نے کہا کہ پاکستان کی ’’اوریجنل ریاست‘‘ پارلیمان ہے جو اس وقت یرغمال ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان ریاست کے اندر ریاست بنانے والوں کی طرف کیوں توجہ نہیں دیتے؟
*منظور نے کہا کہ سوات کی زمین زرخیر ہے یہاں چھاؤنیاں بنانے کی ضرورت نہیں ، انہوں نے مطالبہ کیا کہ سوات کے تعلیمی ادارے جن میں سیکیورٹی فورسز موجود ہیں ، انہیں خالی کیا جائے۔
*منظور پشتین نے یہ بھی کہا کہ ملک کے ادارے پختونوں کے قتل عام میں برابر کے شریک ہیں ۔انہوں نے کراچی پولیس اور سی ٹی ڈی کو پختونوں کے قتل عام کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا۔
*منظور پشتین نے طالبان کمانڈروں ملا فضل اللہ ، احسان اللہ احسان ، مسلم خان کے نام لے کر ان پر تنقید کی اور سوال اٹھایا کہ یہ کس کی پیداوار ہیں؟
قومی جھنڈا لہرانے کا کا معاملہ
منظور پشتین کے سوات جلسے کی خبر پاکستان کی الیکٹرانک میڈیا میں کہیں نہیں تھی ۔ٹی وی چینلز پر پیپلز پارٹی کا کراچی،ایم ایم اے کا مردان اور تحریک انصاف کا لاہور میں ہونے والا جلسہ چھایا ہوا تھا۔پھر شام اچانک کچھ چینلزنے یہ خبر چلائی کہ سوات میں پشتون تحفظ موومنٹ کے جلسے میں قومی پرچم لہرانے سے روک دیا گیاہے ، ایک ویڈیو بھی چلائی جاتی رہی،جس میں تین نوجوان دکھائے گئے جو پاکستان کا قومی پرچم لے کرجلسہ گاہ میں داخل ہو رہے ہیں ، ان کی پی ٹی ایم کے کارکنوں سے تلخی ہو جاتی ہے اور انہیں جلسہ گاہ میں جانے سے روک دیا جاتا ہے۔کچھ لوگوں کو کہنا ہے کہ وہ ج جلسہ گاہ میں موجود تھے۔ یہ ویڈیو چلا کر چینلز نے قوم کو بتایا کہ ’’منظور پشتین کا ملک دشمن ایجنڈا واضح ہو چکا ہے وغیرہ وغیرہ‘‘ یہ الزام چلنے سے اتنا تو ہوا کہ میڈیا نے یہ تسلیم کیا کہ سوات کے کبل گراؤنڈ میں کوئی سرگرمی تو ہوئی ہے ، ورنہ تو اس جلسے کا کہیں بھی ذکر نہیں تھا۔
اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد سوشل میڈیا پر پی ٹی ایم پر تنقید ہونے لگی اور کہا جانے لگا کہ اس تحریک کے پیچھے پاکستان دشمنوں کا ہاتھ ہے۔ یہ خبر پی ٹی ایم کے ناقدین کے پاس مؤثر ہتھیار کے طور پرآئی تھی۔اس کے بعد اسی جلسے کے اسٹیج سے ایک لیڈر عبداللہ ننگیال نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ:’’یہ حرکت تحریک کا امیج متاثر کرنے کے لیے کی گئی ہے، مخالفین نے تحریک پر کیچر اچھالنے کے لیے یہ منصوبہ بنایا ہے۔عبداللہ ننگیال نے کہا کہ وہ ملک کے مُحب وطن شہری ہیں اور پاکستان تحفظ موومنٹ پاکستان کے 1973کے آئین کے اندر رہتے ہوئے اپنے حقوق لینے کے لیے بنائی گئی ہے۔(اور یہ بات موقر انگریزی جریدے پاکستان ٹوڈے نے اپنی رپورٹ میں بھی ذکر کی ہے) اس کے بعد اسی جلسے کی کچھ ایسی تصاویر بھی سامنے آئیں جن میں جلسے میں پاکستان کا قومی پرچمدیکھا جا سکتاہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ درست ہے کہ پی ٹی ایم کے جلسوں میں سفید اور سیاہ رنگ کے جھنڈے نمایاں ہوتے ہیں۔لیکن کسی بھی میڈیا چینل نے جلسے کے قائدین کی جانب سے کی گئی یہ وضاحت نہیں چلائی اور نہ ہی وہ تصاویر دکھائیں جن میں جلسے میں قومی پرچم دیکھا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب وہ نوجوان جس نے جلسہ گاہ میں جھنڈا لہرانے کی کوشش کی اور اس کی پی ٹی ایم کے کارکنوں سے تلخی ہوئی،اس کا کہنا تھا کہ’’ وہ چاہتا ہے کہ اس جھنڈے کے نیچے رہ کر ہم اپنے حقوق کی بات کریں، ہم سب پاکستانی ہیں‘‘۔ نوجوان کی یہ بات کافی بلاشبہ اہم ہے لیکن شک اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم اس کے ٹوئیٹر اکاونٹ پرجلسے سے قبل کی گئی ٹویٹ اور تصویر دیکھتے ہیں۔اس تصویر میں درون خان نامی یہ نوجوان ایک سفید کارکے ساتھ کھڑا ہے اور اس کے ہاتھ میں قومی پرچم ہے اور ساتھ اردو میں لکھ رکھا ہے :’’پشتون تحفظ موومنٹ میں پاکستانی پرچم لے کر جا رہا ہوں۔ دم ہے تو کوئی روک کر دکھائے‘‘۔ اس سے یہ تأثر ملتا ہے کہ وہ کسی ’’مشن ‘‘پر تھا ۔ بہرحال جوبھی تھا ، میڈیا کو چاہیے تھا کہ پی ٹی ایم کے اسٹیج سے کی گئی وضاحت اور آئین کا دیا گیا حوالہ بھی نشر کرتا ۔ یک طرفہ اور ادھوری خبر سے اشتعال اور نفرت جنم لیتی ہے۔ پی ٹی ایم کی قیادت کو بھی اپنے کارکنوں کو یہ بتانا چاہیے تھا کہ وہ قومی پرچم ساتھ جڑی حساسیت کا خیال رکھیں ۔ اگرکوئی شخص افراتفری پیدا نہیں کرتا تو قومی پرچم لہرانے سے تو ان کا مقدمہجسے وہ آئینی قرار دیتے ہیں، مضبوط ہوتا ہے۔
جہاں تک پی ٹی ایم کے سوات جلسے کے مجموعی تاثر کا تعلق ہے توبلاشبہ یہ ایک بڑا جلسہ تھا ۔ میڈیا نے اس کا بلیک آؤٹ کر رکھا تھا جبکہ سوشل میڈیا پر شام تک یہ ٹاپ ٹرینڈ بنا رہا ۔ٹاپ ٹرینڈ کا مطلب ہے کہ لوگ سب سے زیادہ گفتگو اس کے بارے میں کر رہے تھے۔ اس کے بعد عمران خان کا جلسہ سب سے زیادہ سوشل میڈیا پر ڈسکس ہو رہا تھا ۔اس جلسے میں آنے والے قافلوں کو مختلف راستوں پر روکا بھی گیا ۔ سیکیورٹی کی کڑے مراحل سے بھی گزارا گیا ۔ ایک دو جگہ پر تازہ بنائی گئی پاکستان تحفظ موومنٹ کا نام لینے والے کچھ لوگوں نے جلسے میں جانے والوں کو روک کر ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے لگائے اور پی ٹی ایم کو غدار قرار دیا ۔تاہم اس دوران کسی قسم کے تشدد کی اطلاع نہیں ہے ۔ پی ٹی ایم کے جلسے سے قبل سوات کے مختلف علاقوں میں منظور پشتین کے خلاف بینرز بھی لگائے گئے اور یہ تأثر دیا گیا کہ سوات کے لوگ اسے خوش آمدید نہیں کہیں گے ،یہ خبریں بھی آئیں کہ سوات کے تمام ٹینٹ سروس والوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ جلسے کے لیے کرسیاں اور ٹینٹ نہیں دیں گے۔ لیکن اس جلسے میں نوجوانوں ، خواتین ، بچوں اور بزرگوں کی اتنی بڑی تعداد نے شرکت کرکے ناقدین کے سامنے ایک بڑا سوال کھڑا کر دیا ہے کہ کیا ان خواتین، بچوں اور بوڑھوں سمیت ہزاروں لوگ ملک کے غدار ہو سکتے ہیں؟
یہ بھی پڑھیے :منظور پشتین کا لاہور میں جلسہ:جو میں نے دیکھا