میڈیا منڈی اور جاگیرداری نظام

کسی دور میں زرعی اصلاحات کے لئے ایک کمیٹی قائم کی گئی تھی جس میں مسعود کھدرپوش نے اپنا اختلافی نوٹ شامل کیا تھا۔ اس کا ایک مختصر ٹکڑا ملاحظہ ہو:

"ہاری اور زمیندار آدمیت کی دو انتہاؤں کے نمائندے ہیں۔ ایک محرومی اور مصائب کی انتہائی پستیوں کا مکین ہے تو دوسرا عیش و نشاط اور نمائش و اصراف کی بلند فضاؤں میں محو پرواز ہے۔۔۔۔۔۔ زمیندار کا ظلم، کامداروں کے ستم اورغیرقانونی ابواب اس کے کنبے کا جینا دوبھر کر دیتے ہیں تب بھی وہ زمیندار کی اراضی پر تعمیر کیا ہوا اپنا گھر، اپنا گاؤں اور اپنے عزیر رشتہ دار چھوڑنے سے ہچکچاتا ہے اور ظلم سہے جاتا ہے۔۔۔ اور جب کہیں اور فرارہونے پر مجبور بھی ہو جائے تو بھی یہ سوچتا ہوا جاتا ہے کہ کیا عجب کہیں اور ذرا سا کم ظالم زمیندار میسر آ جائے”

آج پروفیسر فتح محمد ملک صاحب کی کتاب "پاکستان کا روشن مستقبل” میں یہ اقتباس پڑھا تومیڈیا کی اندرونی صورتحال یاد آ گئی۔ زیادہ تر ٹی وی اینکرز اور کالمسٹ اسی زمیندار کی جدید شکل ہیں جبکہ ان کے پروڈیوسرز کامدار بنے بیٹھے ہیں۔ کیمرہ مین سے لے کر دیگرچھوٹے درجے کے ٹیم ممبرز کی حالت ہاریوں جیسی ہے۔ ان کی عزت نفس بری طرح کچلی جاتی ہے اور بات بات پر ان کی تذلیل ہوتی ہے جبکہ یہ لوگ اس خوف کے مارے اپنی جاب نہیں چھوڑ پاتے کہ کہیں دوسرا اینکرموجودہ سے بھی زیادہ خطرناک نہ نکل آئے۔

یقین کریں کہ عوام کے لئے دن رات تڑپنے والے ان بڑے لوگوں کی اصلیت کھل جائے تو دنیا حیران و پریشان رہ جائے۔ ان میں رؤف کلاسرا اور کاشف عباسی جیسے اچھے لوگ موجود ہیں جو اپنے ٹیم ممبرز کا خیال رکھتے ہیں لیکن اکثریت کا کسی جاگیردار جیسا رویہ ہوتا ہے۔ ان کے حالات پر کوئی شرمین عبید اگر دستاویزی فلم بنائے تو ایک اور آسکر مل سکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے