امریکی سفارت خانہ کی القدس منتقلی اور فلسطینیوں پر وحشیانہ تشدد

امریکہ نے بالآخر بیت المقدس شہر میں اپنا سفارت خانہ قائم کر دیا ہے اور فلسطینیوں پر اسرائیلیوں کے تشدد کی تازہ ترین کاروائی بھی اسی روز ہوئی ہے جس دن یروشلم میں امریکی سفارت خانہ کی باقاعدہ منتقلی ہوئی کہ اس غیرمنصفانہ اور ظالمانہ اقدام پر احتجاج کرنے والے مظلوم فلسطینیوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔ بیت المقدس شہر خود اقوام متحدہ کے فیصلوں اور قراردادوں کے مطابق متنازعہ ہے اور اس کی مستقل حیثیت کا فیصلہ ابھی ہونا ہے مگر امریکہ نے بین الاقوامی فیصلوں اور عالمی رائے عامہ کو مسترد کرتے ہوئے اپنا سفارت خانہ بیت المقدس میں منتقل کر کے یکطرفہ فیصلہ نہ صرف فلسطینیوں پر بلکہ پوری دنیا پر مسلط کر دیا ہے جس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔

استنبول میں مسلم سربراہ کانفرنس او۔آئی۔ سی کے ہنگامی اجلاس میں امریکہ کے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے مسلم حکمرانوں کے نمائندوں نے فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کی مذمت کی ہے اور فلسطینی عوام کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے ان کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا ہے۔ کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ امریکی سفارت خانہ کی القدس منتقلی مجرمانہ اقدام، اقوام متحدہ کے چارٹر اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ عالمی امن و سلامتی کیلئے خطرات پیدا کرنے کی سوچی سمجھی کوشش ہے۔ او۔آئی۔سی کے اجلاس کے شرکاء کا کہنا ہے کہ ہم سفارت خانے کی منتقلی مسترد کرتے ہیں، القدس کی تاریخی و قانونی حیثیت کے تحفظ کیلئے ہر ممکن قدم اٹھایا جائے، سلامتی کونسل امریکی پشت پناہی میں اسرائیلی قبضہ کیلئے شیلڈ فراہم کر رہی ہے، عالمی برادی کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔

ادھر پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینٹ نے متفقہ قراردادوں کے ذریعہ فلسطینی عوام پر اسرائیل کے حالیہ وحشیانہ تشدد کی شدید مذمت کرتے ہوئے امریکی سفارت خانہ کی القدس منتقلی کو مسترد کر دیا ہے اور فلسطینیوں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا ہے جبکہ پاکستان کے متعدد دینی و سیاسی حلقوں نے بھی اس اقدام پر شدید احتجاج اور مظاہرے کئے ہیں۔
امریکہ ایک عرصہ سے اس کوشش میں تھا کہ اپنا سفارت خانہ بیت المقدس میں منتقل کر کے اس پر اسرائیل کے جارحانہ قبضہ کو اپنی طرف سے سند جواز فراہم کرے مگر صدر ٹرمپ سے قبل کسی امریکی صدر کو اس کا حوصلہ نہیں ہو رہا تھا جبکہ موجودہ صدر ٹرمپ تمام حدوں کو کراس کرتے ہوئے یہ کام کر گزرے ہیں اور عالمی رائے عامہ کی مخالفت کے باوجود اپنے اس فیصلے پر نہ صرف قائم ہیں بلکہ اسرائیل کی جارحانہ حیثیت کو مستحکم کرنے کیلئے اور بھی بہت کچھ کرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ جہاں تک عالم اسلام کے حکمرانوں کی طرف سے اس امریکی اقدام کی مخالفت، اسرائیلی جارحیت کی مذمت اور فلسطینیوں کے ساتھ یک جہتی کے اظہار کے مختلف اقدامات و اعلانات کی بات ہے وہ خوش آئند ہونے کے باوجود نہ صرف ادھورے ہیں بلکہ اس قسم کے سابقہ بہت سے اعلانات و اقدامات کی طرح وقتی، سطحی اور زبانی دکھائی دیتے ہیں، اس لئے کہ امریکہ کو عالم اسلام کی طرف سے ان رسمی بیانات اور قراردادوں کے سوا اور کسی ردعمل کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور اس قسم کے اعلانات کا وہ گزشتہ نصف صدی سے عادی ہے ، اسی لئے اسے ان کی کوئی پروا نہیں ہے۔ ان حالات میں مسلم حکمرانوں کے طرز عمل کے ساتھ ساتھ ان عرب حکمرانوں کا رویہ اور انداز بھی قابل توجہ اور باعث تشویش ہے جو زبانی طور پر تو فلسطینیوں کی حمایت کرتے ہیں لیکن ان کی بین الاقوامی پالیسیاں اور ترجیحات مسلسل امریکی ایجنڈا کے تابع دکھائی دیتی ہیں بلکہ امریکہ نے عالم اسلام اور عالم عرب کیلئے جو پروگرام طے کر کے اس کی طرف بتدریج پیش رفت کا اہتمام کر رکھا ہے دنیا بھر کے مسلم حکمرانوں اور خاص طور پر عرب حکمرانوں کی طرف سے اس پروگرام کے حوالہ سے بیت المقدس کے تحفظ کے ساتھ ساتھ حرمین شریفین کے تقدس کے تحفظ اور مشرق وسطی کی نئی مبینہ جغرافیائی تقسیم کو روکنے کی کوئی حکمت عملی ابھی تک سامنے نہیں آئی حتیٰ کہ عالمی منظر میں امریکی اقدامات کی حمایت کو دیکھتے ہوئے اسرائیلی اور امریکی عزائم کی روک تھام کیلئے مستقبل میں بھی کسی سنجیدہ کاروائی کی مسلم اور عرب حکمرانوں کی طرف سے توقع محسوس نہیں ہو رہی جو پورے عالم اسلام کیلئے لمحۂ فکریہ ہے۔

ہم اس موقع پر مسلم اور عرب حکمرانوں سے یہ گزارش کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ وہ زبانی جمع خرچ اور رسمی بیانات سے آگے بڑھیں اور عالم اسلام اور مشرق وسطی کے بارے میں امریکی و اسرائیلی عزائم کی روک تھام کیلئے سنجیدہ اور ٹھوس لائحہ عمل طے کریں کہ اس کے سوا اب ان کیلئے کوئی راستہ باقی نہیں رہااور انہیں یہ کام آج یا کل بہرحال کرنا ہے۔

روزنامہ دنیا گوجرانوالہ میں ۲۴، مئی کو شائع ہونے والی ایک خبر ملاحظہ فرمائیے!

’’لندن (این۔این۔آئی) پرنس چارلس کی ۷۰ ویں سالگرہ کے موقع پر تقریر کے دوران ایک مکھی پرنس ہیری کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتی نظر آئی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پرنس ہیری تقریر کرنے ڈائس پر آئے تو بھن بھن کرتی ایک مکھی نے تقریر کرتے ہوئے شہزادے کو مشکل میں ڈال دیا جس کے باعث ان کا تقریر سے دھیان ہٹ گیا۔ تقریر کے دوران پرنس ہیری اگلا جملہ غلط بول گئے ، بعد ازاں پرنس ہیری نے اپنے سر اور کانوں کے گرد بھنبھناتی اسی مکھی کے بارے میں کہا کہ اس مکھی نے تو انہیں پریشان ہی کر دیا ہے جس پر تمام حاضرین ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو گئے۔‘‘

مکھی اللہ تعالیٰ کی ایک چھوٹی سی مخلوق ہے جو کم و بیش ہر جگہ پائی جاتی ہے، قرآن کریم میں بھی اس کا اس حوالہ سے تذکرہ موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جن لوگوں کو تم شریک کرتے ہو اور جن کی تم لوگ عبادت کرتے ہو وہ سارے مل کر ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے بلکہ مکھی اگر ان کے سامنے سے کوئی چیز اٹھا کر لے جائے تو وہ اس سے وہ چیز چھڑانے کی طاقت بھی نہیں رکھتے۔

اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی ایک چھوٹی سی مخلوق کے سامنے بے بس ہیں ان کی خود اللہ تعالیٰ کے سامنے کیا حیثیت ہے؟ اور ان کو مشکل کشا سمجھنے والوں کا کیا حال ہے؟

اس پر ایک تاریخی واقعہ یاد آگیا کہ عباسی خلفاء میں سے ایک بادشاہ دربار میں بیٹھے تھے اور ایک مکھی باربار ان کے ناک پر بیٹھ کر انہیں تنگ کر رہی تھی ، بے بس ہو کر جھنجھناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس حقیر مخلوق کو پیدا کرنے کا آخر کیا فائدہ تھا؟ اس پر دربار میں موجود ایک اللہ والے نے کہا کہ امیر المؤمنین! ایک فائدہ تو ابھی سمجھ میں آیا ہے کہ آپ اپنے تمام تر اقتدار ، جاہ و جلال اور اسباب و دولت کے باوجود اللہ تعالیٰ کی اس چھوٹی سی مخلوق کے سامنے بھی بے بس اور عاجز ہیں۔

پرنس ہیری کا واقعہ پڑھ کر یہ تاریخی واقعہ ذہن میں ایک بار پھر تازہ ہو گیا کہ انسان اپنی ترقی، عروج اور اسباب و متاع کی فراوانی کے اس دور میں بھی مکھی جیسی چھوٹی سی مخلوق کے سامنے بے بس ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب لوگوں کو اپنی حقیقت سمجھنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے