آزادکشمیرکے اخبارات سے اہم ترین خبرغائب کیوں ہوئی؟

آزاد حکومت ریاست جموں‌ کشمیر میں گزشتہ چار سے زائد دہائیوں سے نافذ عبوری ایکٹ 1974 میں نئی 13 ویں ترمیم کا معاملہ آزادکشمیر کے مقامی میڈیا کیلیے اہم تھا لیکن ریاستی اخبارات میں روزنامہ دھرتی(راولاکوٹ) اور قومی اخبارات میں روزنامہ جنگ (کشمیر ایڈیشن) کے علاوہ آزادکشمیر کا کوئی بھی اخبار پاکستان کی وفاقی کابینہ میں ایکٹ 74 میں ترامیم کے لئے دیے گئے مسودے کی منظوری کی خبر دے سکا نہ ہی کسی نیوز چینل پر اس بارے خبر دیکھنے کو ملی۔

اگلے دن (آج یعنی یکم جون 2018) شائع ہونے والے اکثر ریاستی اخبارات جو شام سات بجے مکمل کر کے پریس میں بھیج دیے جاتے ہیں ، انہوں نے اصل خبر کے بجائے آزادکشمیر کے وزیراعظم فاروق حیدر اور وفاقی کابینہ کو تنقید کا نشانہ بنایا جبکہ سوشل میڈیا پر فاروق حیدر کو مبارک باد دی جاتی رہی۔

آج کے ریاستی اخبارات و پاکستانی قومی اخبارات کے کشمیر ایڈیشنز پر نظر ڈالی جائے تو ایکٹ 74 میں ترمیم سے متعلق خبریں کچھ اس انداز سے پیش کی گئیں۔

اسلام آباد سے شائع ہونے والے کشمیری اخبار روزنامہ صدائے چنار نے لکھا ” وفاقی کابینہ آزاد حکومت کو بااختیار بنائے بغیر سبکدوش، فاروق حیدر کو سخت سبکی کا سامنا” ، اسلام آباد سے شائع ہونے والے ایک اور روزنامہ جموں کشمیر نے یوں سرخی جمائی کہ ”ن لیگ کی وفاقی کابینہ تحلیل ، ایکٹ 74 میں ترمیم نہ ہو سکی(ویب سائٹ پر آج کا جموں کشمیراخبار موجود نہیں ہے)”

ریاستی دارالحکومت مظفرآباد کے معروف اخبار روزنامہ سیاست کی شہہ سرخی یوں تھی ” وعدہ کر کے مُکر گئی ہائے کابینہ ، ایکٹ 74 میں ترامیم کا بل واپس لینے کا فیصلہ ”، ضلع کوٹلی کے اخبار دی کوٹلیئنز کی سب سے بڑی خبر یہ تھی:” فاروق حیدر کا آزاد کشمیر کو با اختیار بنانے کا خواب مکمل نہ ہو سکا، مکمل سرپرستی کے باوجود ایکٹ 74 میں ترامیم نہ کروائی جا سکیں”۔


مظفرآباد کے ایک اور معروف اخبار روزنامہ محاسب نے لکھا : ” عبوری ایکٹ 1974 :آئینی ترامیم کو بریک لگ گئی” ، مظفرآباد کے ایک اور اخبار روزنامہ خبرنامہ کی شہہ سرخی تھی: ایکٹ 74 ترامیم: وفاقی حکومت آخری روز ہاتھ کر گئی” . دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ان دونوں اخبارات نے آج اپنے اخبارات مکمل طور پر آن لائن ویب سائٹ پر جاری نہیں کیے ہیں.

راولاکوٹ شہر سے شائع ہونے والے اخبار روزنامہ دھرتی نے البتہ یہ خبر درست طور پر دی اور شہہ سرخی یوں ترتیب دی:” کشمیر کونسل ختم ،کابینہ نے منظوری دے دی”۔

روزنامہ خبریں(مظفرآباد ایڈیشن) کے صفحہ اول پر چار کالم خبرکی سرخی تھی :” وفاقی کابینہ اجلاس میں مسودہ شامل نہ ہونے پر آزاد حکومت بند گلی میں پھنس گئی”۔ ایک اور مقامی اخبار روزنامہ کشمیر لنک نے اس حوالے سے صحافتی اصطلاح کے مطابق محتاط خبر دی لیکن تازہ خبر شائع نہیں کی ۔اسی طرح روزنامہ کشمیر ٹائمز اور کشمیر ایکسپریس نے اس بارے میں خبر شائع نہیں کی۔ میرپور شہر سے شائع ہونے والے اخبار روزنامہ شاہین ، باغ شہر سے شائع ہونے والے باغ ٹائمز میں بھی یہ خبر نہیں شائع ہوئی .

یکم جون 2018(آج) کےریاستی اخبارات میں اس اہم ترین خبر کی غیر موجودگی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اکثر ریاستی اخبارات شام کے وقت (تقریبا سات یا آٹھ بجے تک) مکمل ہو جاتے ہیں . عملہ اخبارات کی فائنل کاپی پریس میں بھجوا کر گھروں کو لوٹ جاتا ہے . رات کے وقت دیر سے اگر کوئی بھی اہم واقعہ پیش آ جائے تو اس کی خبر اخبار کے قارئین کو تیسرے دن پڑھنے کو ملتی ہیں ،اخبار کے پہنچنے سے قبل عوام سوشل میڈیا کے ذریعے سب جان چکے ہوتے ہیں ۔ ان کو اس خبر کیلئے تیسرے دن پہنچنے والے اخبار میں کوئی دلچپسی نہیں ہوتی

یہ صورت حال ریاستی ریاستی اخبارات کیلئے سبکی کا باعث بھی بنتی ہے اور ان کی ساکھ کیلئے شدید نقصان دہ ہے۔ آج کے دور میں اگر کوئی بھی اخبار حقائق کے برعکس یا پھر باسی خبر دے گا تو وہ عوام میں کس طرح اپنی ساکھ برقرار رکھ سکے گا ؟


ریاستی اخبارات کے دفاتر جلدی کیوں بند ہوتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ اخبارات کو بروقت دور دراز اسٹیشنوں پر پہنچانا اسی صورت میں ممکن ہو سکتا کہ کہ رات ہی کو شائع کر کے بھیج دیے جائیں لیکن تازہ انفارمشین میں دلچسپی رکھنے والے قاری کو مطمئن کرنے کے لیے یہ عذر کافی نہیں . اس مذکورہ یعنی ایکٹ 74 میں ترامیم کی قانون ساز اسمبلی میں بحث کی اجازت کی خبر کا اسی معمول کی وجہ سے نہیں کیا گیا.

ریاستی دارالحکومت مظفرآباد کے اخبارات کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ کسی اہم نوعیت کی خبر کے لیے اخبار کی کاپی ممکنہ مہلت تک روک سکیں لیکن مذکورہ خبر کے لیے وہاں بھی ایسا نہیں کیا گیا . احساس ہوتا ہے کہ اب ”اسٹاپ پریس” کا رواج بھی پرنٹ میڈیا سے ختم ہوتا جا رہا ہے.

آزادکشمیر کے مقامی اخبارات میں سے اکثر کی ویب سائٹس بھی جدید ابلاغی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں . ویب سائٹس پر اخبارات کے صفحات کی تصاویر تو لگا دی جاتی ہیں لیکن ہر خبر کو الگ الگ پڑھنا ناممکن ہوتا ہے . صرف ایک یا دو ویب سائٹس ایسی ہیں جہاں اخبارات کے ای پیپز کے علاوہ یونی کوڈ فارمیٹ میں مواد میسر ہے.

 

آزادکشمیر کے اخبارات کو اپنے قارئین کا اعتماد برقرار رکھنے کے لیے جدید ابلاغی تکنیکوں کو بروئے کار لانے کی جانب توجہ دینی ہوگی . خاص طور پر اپنی ویب سائٹس کو اس انداز سے ڈیلویلپ کرنا ہوگا کہ پڑھنے والے سہولت محسوس کریں اور اگر کسی وجہ سے کوئی اہم خبر شائع نہ بھی ہو سکے تو اسے ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیا جا سکتا ہے.

 

آج کل سوشل میڈیا کے پھیلاو نے اخبارات کو پہلے سے کہیں زیادہ چینلز کا شکار کر دیا ہے . اس لیے مطبوعہ صحافت کا معیار اور اعتبار برقرار رکھنے کے لیے سخت محنت کی ضرورت ہے.

 

 

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے