آزادکشمیرعبوری آئین میں نئے ترمیمی بل2018ء کا تفصیلی جائزہ

حال ہی میں حکومت پاکستان نے آزاد جموں و کشمیر عبوری آئین ایکٹ 1974ء میں ترمیم کا بل تیار کیا ہے ۔ جسے آزاد جموں و کشمیر حکومت کے قانون ساز اسمبلی کے جوائنٹ سیشن میں پیش کرتے ہوئے اکثریتی رائے سے منظور کر لیا ہے۔
معروف قانون دان محمد احمد شیخ نے مذکورہ مجوزہ ترمیمی بل کی نمایاں خصوصیات اور ذاتی خیالات پر مبنی ایک تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ صحافی حارث قدیر نے آئی بی سی اردو ڈاٹ کام کے لیے اس کا اردو ترجمہ کیا ہے۔
مذکورہ تحریر انگریزی زبان میں اس وقت لکھی گئی تھی جب ترمیمی بل ابھی منظور نہیں ہوا تھا۔ اب چونکہ ترمیمی بل آزاد جموں کشمیر اسمبلی کے جوائنٹ سیشن میں کثرت رائے سے منظورہونے کے بعد آئین کا حصہ بنا دیا گیا ہے ، اس لیے اردو ترجمہ میں کچھ معمولی نوعیت کی تبدیلیاں بھی کی جا رہی ہیں۔ اس لیے اس جائزے کو اسی سیاق سباق میں سمجھ کر پڑھا جائے۔ جمعہ یکم جون 2018 کوآزادکشمیر اسمبلی سے منظور کیے گئے ترمیمی بل کا مسودہ جلد سامنے آجائے گا ۔ اطلاعات ہیں کہ حتمی منظور شدہ مسودے میں کچھ معمولی تبدیلیاں کی گئی ہیں ، جن پر تبصرہ بعد میں ممکن ہو سکے گا(مدیر: آئی بی سی اردو )

 

نمایاں ترامیم:

1)۔ عنوان سے ’’ایکٹ‘‘ کی اصطلاح کو حذف کر دیا گیا ہے۔ اب عنوان ’’آزاد جموں و کشمیر عبوری آئین1974ء ‘‘ ہو گا۔

2)۔ آئین پاکستان کے تحت کچھ بنیادی حقوق فراہم کئے گئے ہیں جو عبوری آئین میں نہیں تھے۔ اسی طرح ترمیم کے ذریعے رائٹ ٹو فیئر ٹرائل(مقدمہ کی شفاف سماعت کا حق)، ریاستی باشندگان کی برابری، تعلیم کا حق اور اطلاعات تک رسائی کا حق وغیرہ شامل کئے گئے ہیں۔

3)۔ پالیسی اصول(Principles of Policy)
بعض پالیسی اصول پہلی مرتبہ شامل کئے گئے ہیں۔ جن میں اسلامی طرز زندگی، زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کی شمولیت، اقلیتوں کا تحفظ، ہر طرح کے امتیاز کا خاتمہ، سماجی انصاف کا فروغ وغیرہ۔

4)۔ صدر کا انتخاب
قبل ازیں صدر کا انتخاب اسمبلی اور کشمیر کونسل کے مشترکہ اجلاس میں اکثریتی رائے کے ذریعے سے کیا جاتا تھا۔ اب صدر کا انتخاب صرف اسمبلی کرے گی۔ یہی طریق کار مواخذے کیلئے بھی ہوگا۔

5)۔ وزیراعظم کی تجویز پر صدر کا کردار
ایک سب آرٹیکل شامل کیا گیا ہے کہ اگر صدر وزیراعظم کی تجویز پر سات دن تک عمل درآمد نہیں کرتا تو یہ خود بخود نافذ العمل قرار پائے گا۔
(یہ ایک اچھا اضافہ ہے جو ماضی میں صدر کی جانب سے تواتر کے ساتھ بلیک میلنگ اور غیر ضروری مداخلت کا راستہ روکے گا)

6)۔ وزراء کی کل تعداد
وزراء کی کل تعداد 30فیصد تک محدود کر دی گئی ہے۔ یہ آئندہ اسمبلی سیشن سے قابل عمل ہوگی۔اس کے ساتھ ساتھ وزیراعظم کو2 مشیر اور2 معاون خصوصی مقرر کرنے کی اجازت ہوگی۔ پارلیمانی سیکریٹریز کی تعداد بھی 5تک محدود کر دی گئی ہے۔
(یہ ایک اچھا اضافہ ہے لیکن کل تعداد 20فیصد سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے)

7)۔ وزیراعظم پر عدم اعتماد
ترمیم کے بعد اب کم از کم 25فیصد اراکین اسمبلی وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر سکیں گے۔

8)۔ آزاد جموں و کشمیر کونسل
اے جے کے کونسل کو ایک نام نہاد ’مشاورتی باڈی‘ کے طور پر برقرار رکھا گیا ہے اور کونسل کے قانون سازی کے تمام اختیارات ختم کر دیے گئے ہیں۔ ایک ایکٹ شامل کیا گیا ہے جس کے بعد کونسل اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انڈیا و پاکستان(UNCIP)کی قراردادوں کے مطابق حکومت پاکستان کی ذمہ داریوں کی حد تک مشاورتی کردار ادا کرے گی۔

کونسل کے تمام اثاثہ جات بشمول کنسولیڈیٹڈ فنڈ اور چیئرمین کشمیر کونسل کے مشیروں کی تعیناتی سے متعلق دفعات ختم کر دی گئی ہیں۔ اس کے مطابق اب چیئرمین کسی مشیر کا تقرر نہیں کر سکے گا۔

اے جے کے کونسل کی ساخت میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی تاہم اے جے کے اسمبلی کو کونسل ممبران کے انتخاب سے متعلق قانون سازی کا اختیار سونپا گیا ہے۔

9)۔ اے جے کے کونسل پراپرٹی اور کنسولیڈیٹڈ فنڈ
کونسل سے متعلق تمام اثاثہ جات بشمول کنسولیڈیٹڈ فنڈ حکومت آزادکشمیر کو منتقل کر دیئے گئے ہیں۔

10)۔ چیف الیکشن کمشنر
چیف الیکشن کمشنر کا تقرر صدر آزادکشمیر ، چیئرمین کشمیر کونسل(وزیراعظم پاکستان) کی تجویز پر کرے گا۔
(یہاں ایک بڑا تضاد ہے جیسے بالائی سطور میں لکھا گیا ہے کہ کونسل کا کردار مشاورتی باڈی کا ہوگا جبکہ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کا اختیار اب بھی چیئرمین کشمیر کونسل کے پاس رہے گا)

11)۔ ججز کی تقرری
سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز کی تقرری کے طریق کار میں بھی کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ اس کے مطابق اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تقرریاں اب بھی اے جے کے کونسل کی تجویز پر ہی کی جائیں گی۔ (یہاں یہ ذہن میں رہے کہ کونسل کے تمام اختیارات اب اس کا چیئرمین(وزیراعظم پاکستان) استعمال کرے گا)۔ یہاں بھی وہی تضاد سامنے آرہا ہے جس کا ذکر بالائی سطور میں کیا گیا ہے۔

گزشتہ ڈرافٹ جو چند دن قبل تیار کیا گیا تھا میں جوڈیشل کمیشن کے ذریعے ججز کی تقرریوں کا جامع میکنزم موجود تھا۔ جو پاکستان میں ججز کی تقرریوں کے طریق کار کی طرز پر تھا جبکہ حالیہ ڈرافٹ(جو اسمبلی سے منظور بھی ہوگیا ہے) میں وہ طریقہ کار نہیں ہے۔

یہاں یہ خیال رہے کہ گلگت بلتستان گورنمنٹ آرڈر 2018ء کے تحت بھی ججز کی تقرری جوڈیشل کمیشن کے ذریعے کی جائے گی۔

12)۔ قانون سازی کے اختیارات
سیکشن 31کے تحت قانون سازی کے اختیارات کو دو کٹیگریز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ کونسل کی قانون سازی کی فہرست52سبجیکٹس کی حامل ہے۔ اس سیکشن کے تحت آزاد جموں و کشمیر اسمبلی ان تمام سبجیکٹس پر قانون سازی کر سکے گی جو کونسل فہرست میں شامل نہیں ہیں۔ ترمیم کے مطابق کونسل کی قانون سازی کی فہرست میں شامل 52سبجیکٹس میں سے 33سبجیکٹس حکومت پاکستان کو سونپ دییے گئے ہیں۔ جبکہ4سبجیکٹس اے جے کے اسمبلی کو دیے گئے ہیں جن میں شہریت و ڈومیسائل، کونسل کے الیکشن اور سب سے اہم انکم ٹیکس شامل ہیں۔ وضاحت کیلئے یہ بھی یاد رہے کہ اے جے کے اسمبلی تمام ٹیکسز بشمول انکم ٹیکس سے متعلق قانون سازی کر سکے گی جبکہ ’کارپوریٹ ٹیکس ‘نکال کر ان سبجیکٹس میں ڈال دیا گیا ہے جن پر قانون سازی کا اختیار حکومت پاکستان کو سونپا گیا ہے۔

یعنی کہ تمام سبجیکٹس حکومت پاکستان کو سونپ دیے گئے ہیں اور اے جے کے اسمبلی کو بالائی سطور میں تحریر کردہ سبجیکٹس سونپے گئے ہیں۔

ترمیم میں 21 سبجیکٹس کو تھرڈ شیڈول کے پارٹ Bمیں رکھا گیا ہے جن میں اے جے کے اسمبلی قانون سازی کر سکتی ہے لیکن صرف اسی صورت جب حکومت پاکستان اجازت دے گی۔

جن سبجیکٹس پر اے جے کے اسمبلی حکومت پاکستان کی اجازت کے بغیر کوئی قانون نہیں بنا سکتی ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

*نصاب تعلیم و منصوبہ بندی، تعلیمی امور سے متعلق پالیسی سازی
*لیگل، میڈیکل اور دیگر پیشے
*بجلی۔ (بجلی پیدا کرنے والے ان منصوبہ جات کو چھوڑ کر جن کی منصوبہ بندی اورتعمیر حکومت آزادکشمیر نے کی ہو)

کیا یہ نو آبادیاتی نظام(کالونائزیشن) کی مضبوطی کی طرز کی پیش رفت ہے؟

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
(فیض)

عبوری آئین آزاد جموں کشمیر میں حالیہ ترمیم کے تحت قانون سازی کے اختیارات کو تین کیٹگریز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلی کٹیگری ان چار سبجیکٹس سے متعلق ہے جو UNCIP قرارداد کے تحت حکومت پاکستان کی اتھارٹی میں ہیں اور آزادکشمیر اسمبلی کو ان سبجیکٹس پر قانون سازی کی اجازت نہیں ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ آئین حکومت پاکستان کو بھی مذکورہ سبجیکٹس میں قانون سازی کا اختیار نہیں دیتا ،یہاں صرف یہ بات ذکر کی گئی ہے کہ ’’ صرف آزادکشمیر اسمبلی کو قانون سازی سے منع کرتا ہے‘‘۔

دوسری کٹیگری 52سبجیکٹس سے متعلق ہے جو آزاد جموں کشمیر کونسل کو دیے گئے تھے اور تیسری کٹیگری آزادکشمیر اسمبلی کو دیے گئے قانون سازی کے اختیارات سے متعلق ہے۔

عبوری آئین کی سیکشن 33کے تحت’’سیکشن31میں کوئی ترمیم نہیں کی جا سکے گی؛ یہ سیکشن(33) یا سیکشن 56حکومت پاکستان کی پیشگی منظوری کی شرط کے ساتھ محفوظ ہیں‘‘
اس کے مطابق صرف 3سیکشنز میں ترمیم کیلئے حکومت پاکستان کی منظوری ضروری ہو گی۔ (مثلاً31، 33اور56)

فوری مقدمہ میں آزادکشمیر اسمبلی نے قانون سازی کے اور انتظامی اختیارات جو ایک1970ء میں شامل تھے اور ایکٹ 1974ء کے تحت واپس لے کر کشمیر کونسل کو سونپ دیے گئے تھے جو حکومت پاکستان کے براہ راست اثر میں تھی ، کشمیر کونسل سے واپس لینے کی قرار داد پیش کر کے حکومت پاکستان سے منظوری لینے کی کوشش کی ۔

البتہ درخواست کردہ ترامیم کی منظوری دینے کی بجائے حکومت پاکستان نے ایسی ترامیم کی منظوری کا فیصلہ کیا جن کی کوشش آزادکشمیر کی جانب سے نہیں کی گئی تھی۔ حکومت پاکستان نے فیصلہ کیا کہ زیادہ تر اختیارات جو کشمیر کونسل کے پاس تھے وہ حکومت پاکستان کو منتقل کر دیے جائیں اور کچھ حالتوں میں وزیراعظم پاکستان کو دے دیے جائیں۔

یہ تاریخ میں پہلی بار ہے کہ حکومت پاکستان آزادکشمیر میں براہ راست قانون سازی اور اس کے ساتھ ساتھ ٹیکسز مسلط کرنے کے اختیارات کی حامل ہوئی ہے:

حکومت پاکستان کے پاس کچھ ٹیکسز لاگو کرنے کا اختیار بھی ہو گا۔ انکم ٹیکسز وغیرہ آزادکشمیر کو دیا گیا ہے جبکہ کچھ ٹیکسز مسلط کرنے کے اختیارات (مثلاً کارپوریٹ ٹیکس) حکومت پاکستان کو منتقل ہو گئے ہیں۔

اس ترمیم کے تحت آزادکشمیر کو بجلی سے متعلق قانون سازی کے اختیارات دیے گئے ہیں لیکن ان بجلی منصوبوں کی حد تک جو آزاد حکومت نے پلان کیے اور خود بنائے۔

13اگست1948کی یو این سی آئی پی قرارداد
یو این سی آئی پی کی 13اگست1948ء کی قرارداد کے پارٹII A (2)کے تحت آزادکشمیر کے علاقہ کا انتظام کمیشن کی نگرانی میں لوکل اتھارٹیز کے سپرد ہونا چاہیے۔

(پارٹII A (2))
’’حتمی فیصلے تک جو علاقہ پاکستانی فورسز نے خالی کروایا ہے اس کا انتظام کمیشن کی نگرانی میں لوکل اتھارٹیز کے پاس ہوگا‘‘

حکومت پاکستان کی جانب سے لی گئی کسی قسم کی اتھارٹی متذکرہ بالا قرارداد کے مطابق نہیں ہو گی۔

اس سب کی روشنی میں یہ ترمیم ایک نئی قانونی بحث کھولے گی۔ خاص کر درج ذیل پہلوؤں پر:
a) ۔ کیسے اور کس قانون کے تحت حکومت پاکستان ایک ایسے علاقے میں قانون سازی کا اختیار لے رہی ہے جو پاکستان کی علاقائی حدود میں شامل نہیں؟

b)۔ کیا حکومت پاکستان کی جانب سے قانون سازی اور انتظامی اختیارات لینا یو این سی آئی پی کی 13اگست1948ء کی قرارداد کے مطابق ہے؟

c)۔ کیا آزادکشمیر مقننہ(اسمبلی) پاکستان کو کسی بھی قسم کی قانون سازی کے اختیارات دینے پر اختیار رکھتی ہے؟

d)۔ کیا ایک شخص(وزیراعظم پاکستان بطور چیئرمین کشمیر کونسل) ایسے علاقے کے ایگزیکٹو اختیارات لے سکتا ہے جو اس کی حدود میں ہی نہ ہو؟ اگر ہاں، تو پھر وہ آزادکشمیرمیں متذکرہ اتھارٹی سے متعلق معاملات میں قابل احتساب ہوگا؟

میری ذاتی رائے
a)۔ آئین پاکستان میں پاکستان کی مقننہ اور حکومت قانون سازی سے متعلق یا دیگر اختیارات ان علاقوں تک محدود کیے گئے ہیں جو پاکستان کی علاقائی حدود میں شامل ہیں۔ (آزادکشمیر ان میں شامل نہیں)۔ اس کے مطابق ایسے علاقوں میں قانون سازی کا اختیار جو پاکستان کی علاقائی حدود میں شامل نہیں غیر آئینی، بلا نظیر اور غیر منطقی ہے۔ خاص طور پر حکومت پاکستان اور وزیراعظم پاکستان آزادکشمیر کے اداروں اور مقننہ کے سامنے قابل احتساب نہیں ہیں۔

b)۔ آزادکشمیر مقننہ کسی قسم کے قانون سازی کے اختیارات حکومت پاکستان کو دینے کا اختیار ہی نہیں رکھتی۔

c)۔ انتظامی اور قانون سازی کے اختیارات کا دیا جانا یو این سی آئی پی کی قرار داد کے تحت بھی جائز نہیں قرار دیا جا سکتا۔

d)۔ یونیورسل جمہوری ضابطوں کے تحت صرف عوام کے منتخب نمائندے ہی ان کیلئے قانون سازی کر سکتے ہیں۔ اس صورت میں حکومت پاکستان عوام کی طرف سے منتخب نہیں کی گئی اور آزادکشمیر کو قومی اسمبلی میں کوئی نمائندگی حاصل نہیں ہے۔ پس حکومت پاکستان اور قومی اسمبلی کسی بھی جمہوری قانون کے تحت آزادکشمیر کے بارے میں قانون سازی نہیں کر سکتی۔ اسی طرح کارپوریٹ ٹیکس نافذ کر نے کا اختیار بھی بنیادی قانون کے خلاف ہے اور بغیر نمائندگی کے کوئی ٹیکسز عائد نہیں کئے جا سکتے۔

e)۔ کسی بھی طور پر حکومت پاکستان قانون ساز باڈی نہیں بلکہ ایک ایگزیکٹو اتھارٹی ہے جسے آزادکشمیر اسمبلی نے ترمیم کے ذریعے قانون ساز میں تبدیل کر دیا ہے۔

f) قانون آزادی ہند پر بھی نظر ثانی کی جانی چاہیے کہ آیا پاکستان کی جانب سے حاصل کیے گئے اختیارات نوابی ریاستوں کو دی گئی خودمختاری کے تحت ہیں یا نہیں۔

حاصل کلام
مذکورہ ترمیم کے تحت بہت سی مثبت تدیلیاں کی گئی ہیں جو آزادکشمیر کے لوگوں کی دیرینہ مانگ تھی اور ایسی ترامیم آزادکشمیر اسمبلی اور ان سبجیکٹس سے متعلق بھی ہیں جن کیلئے حکومت پاکستان کی منظوری درکار نہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ اس سے کچھ فوائد ممکن ہو سکتے ہیں۔ خاص طور پر قانونی ماہرین کیلئے آزادکشمیر کونسل کاپردہ ہٹایا جانا اور پاکستان کی براہ راست مداخلت کو متعارف کروایا جانا بہت سے قانونی ابہام پیدا کر رہا ہے۔
متذکرہ بالا وجوہات کی بناء پر یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ یہ ترامیم اس سب سے بہت دور ہیں جو آزادکشمیر کے عوام ایکٹ1974ء کے نفاذ کے وقت سے مانگ کر رہے تھے اور اس کے مطابق لینے کیلئے ابھی بہت کچھ باقی ہے۔
مذکورہ تبدیلیاں خصوصاً قانون سازی کے اختیارات حکومت پاکستان کو دینا کسی طور پر امپاورمنٹ قرار نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہی آزادکشمیر کے عوام کو اختیارات کی منتقلی قرار دیا جا سکتا ہے۔

تجاویز:
میری رائے میں حکومت آزادکشمیر، اسمبلی اور دیگر ذمہ داران بشمول وہ سیاسی جماعتیں جن کی اسمبلی میں نمائندگی نہیں ہے، حکومت پاکستان پر درج ذیل اقدامات کیلئے زور دیں:

* آزادکشمیر کو آزاد جموں و کشمیر گورنمنٹ ایکٹ1970ء کے تحت حاصل تمام تر اختیارات واپس کئے جائیں۔

*یو این سی آئی پی کی 13اگست 1948ء کی قرار داد کی خلاف ورزی سے گریز کیا جائے جو صاف الفاظ میں یہ کہتی ہے کہ آزادکشمیر کا انتظام لوکل اتھارٹیز کے سپرد کیا جائے گا۔

* آزادکشمیر کونسل بھلے موجود رکھی جائے لیکن مکمل طور پر مشاورتی باڈی کے طور پر اور کونسل کو ترمیم کے تحت دیے گئے تمام اختیارات آزادکشمیر اسمبلی اور حکومت کو سونپے جائیں۔

* اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تقرری کا طریقہ کار پاکستان میں مقرر کردہ طریقہ کار سے ہم آہنگ کیا جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے