میں حافظ سعید ہوں

میں ریاست پاکستان کا ایک عجیب و غریب مجرم ہوں
میں اپنے جرائم گنوانا شروع کردوں تو آپ سر پکڑ کر بیٹھ جائیں

سنیں گے …..؟

تو سنئے…..
میں مجرم ہوں کیوں کہ میں نے پاکستان سے وفاداری کے عملی ثبوت دئے
میں مجرم ہوں کہ میں نے اپنی قوم کے بچوں کی تربیت دو قومی نظریہ کی بنیاد پہ کی … جی جی وہی دو قومی نظریہ جس سے ریاست پاکستان کی تشکیل ہوئی اور جو ریاست پاکستان کو قائم رکھنے کے لئے ایک بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے….. وہی دو قومی نظریہ کہ جو پنجابی پٹھان سندھی کشمیری بلوچی مہاجر جیسی قوموں سمیت تمام لسانی اور فرقوں کے گروہوں کے موتیوں کو جوڑنے کے لئے مالا کے ایک دھاگے کی حیثیت رکھتا ہے

میں مجرم ہوں کہ میں نے اپنے بچوں کو اپنی قوم , ملک , فوج سے بے پناہ محبت کرنا سکھایا

میں مجرم ہوں کہ میرے تربیت یافتہ بچے اپنی قوم سمیت پوری دنیا کے مسلمانوں کی امید بن چکے ہیں , فلسطین سے برما , شام سے وسطی افریقہ تک میری جماعت کے تربیت یافتہ بچے دکھی مسلمانوں کے لئے امدادی قافلے لیکر پہنچ جاتے ہیں

جی جناب مجرم ہوں , میرا جرم اس ملک کی شاہرگ کشمیر کے لئے آواز بلند کرنا ٹھھرا , وہ کشمیر کہ جس کا نام آخری دم تک میرے قائد محمد علی جناح کی زبان پر رہا اس کشمیر کے کاز کو میں اپنی تقریروں سے زندہ رکھتا ہوں , قوم کو یاد دلائے رکھتا ہوں کہ جناب کشمیر ہمارا ہی مسلہ ہے

میں مجرم ہوں , اس لئے کہ جب تھر میں بچے بھوک سے مر رہے تھے , سندھ حکومت کی سفاکیت کی بھینٹ چڑھ رہے تھے , پانی کی ایک بوند کے لئے ترس رہے تھے , تو وہ میں تھا جس نے تھر میں ہزاروں , کنویں , ٹیوب ویل کھدوا کر تھر کے معصوم عوام کو حکمرانوں کے ظلم سے بچایا , جی وہ میں تھا کہ جس کی وجہ بیس بیس میل سے پانی اپنے سروں پر لانے والی قوم کی بیٹیوں کو انکے گھر کی دہلیز پہ صاف پانی میسر ہوا , تھر کے وہ لوگ جو حکومت کی بے حسی اور سفاکیت کی وجہ سے جانوروں کے ساتھ جوہڑوں کا گدلا پانی پینے پہ مجبور تھے , انہوں نے اپنی آنکھوں سے تھر میں کھیتیاں ہوتے دیکھیں , صاف پانی پینے کا انکا حق انہیں ملا.

میں مجرم ٹھھرا کہ آواران کے زلزلے کے بعد میں نے بلوچ قوم کی اس قدر خدمت کی کہ وہ بلوچ علاقے جہاں پاکستان کا نام لینے والوں کو گولیوں سے بھون دیا جاتا تھا وہیں پاکستان کے پرچموں کی بہاریں نظر آنے لگیں , ناراض بلوچ بھائیوں کے دل پلٹنے لگے ,

فاٹا کے قبائلی بھائی جب بے گھر ہوے تو انہیں سہارا دینے والا پہلا ہاتھ میرا تھا

بھلا اربوں ڈالر لگا کر دشمن جن نفرتوں کو بو رہا تھا ان نفرتوں کے بادل چھٹتے دیکھنا کیا اسکے نزدیک قابل معافی تھا ؟ تو میں مجرم ٹھھرا دیا گیا , میری حکومت 2005 کے زلزلے سے لیکر اب تک کی میری ہر خدمت فراموش کر دی گئی , مجھے قلق نہیں , غصہ نہیں , مگر افسوس ہوا تو اس بات کا کہ اس مقصد کے لئے ایسے آرڈیننس کا سہارا لیا جو پاکستان میں غیر ملکی طاقتوں کے لئے ایسٹ انڈیا کمپنی جیسے مقاصد پورا کرنے کے لئے استعمال ہوسکتا ہے.

مجھے کہا جاتا تو خود ہی بیٹھ جاتا , میرے ملک پہ ایسا آرڈیننس لاگو کرنا کیا لازمی تھا ؟
میں مجرم ہوں کہ میں نے قائد کی اسلامی فلاحی مملکت کا خواب دیکھا
میں مجرم ہوں کہ میں نے پاکستان میں اقبال کے شاہینوں کو حقیقی طور پہ متعارف کروایا

میں مجرم ہوں کہ میں پاکستان کو مضبوط اور مکمل دیکھنا چاہتا ہوں

میں مجرم ہوں کہ میں نے اپنی قوم کو دشمن کی پہچان کروا دی

_میں مجرم ہوں_
*میں حافظ سعید ہوں*

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے