گلگت بلتستان کے مسائل، صحافیوں کی نگاہوں سے اوجھل کیوں؟

مسائل حل کرنے اور بڑھانے میں اہل قلم کا اہم کردار رہا ہے، کیونکہ قلمی طاقت تیز تلوار کی طاقت پر بھی بھاری ہوتی ہے – اب یہ اہل قلم کی منشاء پر موقوف ہے کہ وہ اس عظیم طاقت کو کس راہ میں استعمال کرتے ہیں؟ مظلوم کے دفاع میں یا ظالم کی حمایت میں – وہ اسے قوم کو شعور دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں یا اسے غفلت کی ابدی نیند میں سلانے کے لیے – وہ اسے انسانیت کی خدمت کے لیے استعمال کرتے ہیں یا مختصر رقوم وصول کرکے حکمرانوں کی خوشامدی اور چاپلوسی کی راہ میں- اس کا اختیار قلمکار کے قبضہ قدرت میں ہے، وہ چاہے تو اپنی قلمی قوت کو خدمت خلق کی راہ میں صرف کرکے دنیا وآخرت دونوں میں سعید خوشبخت ہوسکتے ہیں اور اپنی مرضی سے اس عظیم طاقت کو انسانیت کے خلاف استعمال کرکے دونوں جہاں کی بدبختی بھی کسب کرسکتے ہیں-

توجہ رہے کہ ملکی، قومی اور معاشرتی مسائل کی درست نشاندہی کراکے ان کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش کرنا ہی صحافیوں کا منصبی فریضہ ہوتا ہے، البتہ مانتا ہوں کہ یہ بہت ہی دشوار اور سخت کام ہے، لیکن میدان صحافت میں وارد ہونے کے بعد چاہے نہ چاہے بہر صورت اس فریضے پر عمل کئے بغیر صحافی اپنے ہدف تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے، لیکن آج کے اس ترقی یافتہ دور میں انگشت شمار صحافیوں کے علاوہ ہمارے قلمکاروں کی اکثریت اپنی ذمہ داریوں سے دور دکھائی دیتی ہے، ان کا قلم مسائل حل کرنے کی راہ میں کم اور مسائل بڑھانے کے لئے زیادہ استعمال ہوتا نظر آتا ہے- آج کل اکثر صحافی سیاسی رنگ میں اخلاقی حدود سے بھی باہر ہوکر ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کو اپنی پہچان بناتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور جیسے جیسے الیکشن کا وقت نذدیک ہورہا ہے کرائے کے لکھاری عوام الناس کے افکار کو مشوش کرکے ان کے دل ودماغ میں سیاسی اشرافیہ طبقوں کے لیے جگہ بنانے کی کوشش کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں، جس کی جتنی مزمت کی جائے کم ہے-

یہ نکتہ بھی ہماری سمجھ سے بالا ہے کہ جو صحافی معمولا قومی ایشوز پر قلم اٹھاتے رہتے ہیں ان کی نگاہوں سے خطہ بے آئیں گلگت بلتستان کے مسائل ہمیشہ اوجھل کیوں رہتے ہیں؟ اس خطے کے حوالے سے میڈیا کی مجرمانہ خاموشی تو دائرہ تعجب سے خارج نہیں، کیونکہ ہمارا میڈیا بکا ہوا ہے، جس پر کچھ احساس مسئولیت سے تہی افراد کا قبضہ ہے، جس کی باگ ڈور مفاد پرست سیاستدانوں کے ہاتھ میں ہے، اسے چلانے والے انسانیت سے نہیں روپیے پیسے سے محبت کرنے والے ہیں تو اس سے مجرمانہ خاموشی کے علاوہ کسی چیز کی امید رکھنا ہی فضول ہے، لیکن صحافی برادری سے سکوت مطلق کی توقع بہر حال نہیں کی جا سکتی، کیونکہ یہ طبقہ پڑھا لکھا باشعور طبقہ ہوتا ہے، جس کا وظیفہ ہی متنوع مجہول مسائل پر تجزیہ وتحليل کرکے انہیں معلوم میں بدلنا ہوتا ہے، جس کا بنیادی ہدف قومی، لسانی اور مذہبی تعصبات سے بالاتر ہوکر ظلم وستم کے خلاف قیام کرنا ہوتا ہے، مگر اس کے باوجود گلگت بلتستان کے گوناگون مسائل کے حوالے سے ان کی بے توجہی واقعا جائے تعجب اور توقع کے خلاف ہے-

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمارے اہل قلم جہاں کہیں بھی ناانصافی اور عدم مساوات کے حامل افعال اور حرکات وسکنات مشاہدہ کریں فورا اپنی تحریروں کے ذریعے ان کا نوٹس لے لیتے اور ناانصافی وظلم کے خلاف اپنی قلمی قوت کے ذریعے جہاد کرتے، مگر خطہ بے آئین گلگت بلتستان، پاکستان کا وہ واحد خطہ ہے جس کے مسائل پر ہمارے لکھنے والوں کی توجہ بہت کم رہتی ہے –

پاکستان کے معروف کالم نگار جاوید چودھری صاحب بیشتر اوقات فرضی کہانیاں ، قصے یا سفری روداد انتہائی خوبصورت انداز میں لکھ کر قارئین کو مفید نتائج دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، انہیں گلگت بلتستان کے زندہ حقیقی مسائل پر کھبی کھبار بھول کر بھی دو سطر لکھنے کی توفیق کیوں نہیں ہوتی؟ عطا الحق قاسمی جیسے زبردست سینئر کالم نگار نااہل قرار پانے کے بعد بھی نواز شریف کی مدح وستائش میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے نہیں تھکتے کیا انہوں نے خطہ بے آئین کے حوالے سے کھبی اپنے قلم کو جنبش دی ہے؟ کیوں آخر کیوں ؟ کیا ہمارے صحافی برادری کی نظر میں گلگت بلتستان کے عوام مظالم کی چکی میں نہیں پس رہے ہیں؟ کیا ان کا آئینی حقوق کا مطالبہ کرنا غلط ہے؟ کیا خطہ بے آئین کے مسائل انسانی مسائل نہیں؟ کیا اس خطے کے باسی پاکستان سے محبت کرنے والے نہیں؟ کیا انہوں نے پاکستان کی حفاظت کرنے میں کوئی کوتاہی کی ہے؟ کیا جی بی عوام آئین پاکستان کو تسلیم نہیں کرتے ہیں؟ کیا یہ خطہ امن کے بجائے فساد کا گہوارہ ہے؟ کیا گلگت بلتستان کے عوام کو حقوق ملنے سے پاکستان کے عام شہری کے حقوق میں کمی آنے کا خوف ہے؟ اور ہزاروں سوالات……

ہمارے دانشمند طبقے اچھی طرح جانتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے عوام پورے ستر سالوں سے طرح طرح کے مظالم کے شکار اور بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں-اس خطے کے مکینوں کے ساتھ جو سب سے بڑا ظلم ہوا ہے وہ یہ ہے کہ پاکستانی ریاست ابھی تک اسے آئینی حقوق دینے سے انکاری ہے، وہ گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والوں کو ابھی تک پاکستانی شہری تسلیم نہیں کرتی، وہ اس خطے کے جوانوں کی بے بديل قربانیوں کو یکسر طور پر نظر انداز کرکے گلگت بلتستان کے عوام کو نت نئے کالے قانون کی قید میں بند کررہی ہے، ستم بالائے ستم یہ ہے کہ حکومتِ پاکستان نے گلگت بلتستان والوں کے آئینی مطالبہ پاس کرنے کے بجائے آرڈر 2018 ۔ جاری کرکے جی بی عوام کے ساتھ کھل کر ناانصافی کی انتہا کردی اور ان کو مکمل طور پر مایوسی کے کنویں میں پھینک دیا گیا ہے، جی بی عوام کی جہد مسلسل کے صلے میں اس کالے قانون کا اعلان کرکے وقت کے نااہل حکمرانوں نے گلگت بلتستان کے ساتھ سوتیلی ماں سے بھی بدتر سلوک کیا گیا اورگلگت بلتستان کو غلامی وجبر مطلق کے زندان میں ہمیشہ کے لیے بند رکھنے کی سعی لاحاصل کی گئ ہے ۔ خطہ بے آئین کے لئے جو نیا کالا قانون نامہ پکڑایا گیا ہے اس میں گلگت بلتستان کے عوام، منتخب نمائندوں، سیاسی و قانونی اداروں کے تمام اختیارات کو سلب کرکے جی بی عوام کو تمام حقوق( سیاسی، انسانی، معاشی، معاشرتی قانونی) سے یکسر محروم کردیا گیا ہے – ایسے میں اس خطے کے حوالے سے ہمارے صحافیوں کی خاموشی باعث حیرت نہیں ہے تو کیا ہے؟ بس اپنے قلمکار احباب سے بندہ فقط یہ سوال کرسکتا ہوں کہ گلگت بلتستان کے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے