افغانستان میں جنگ بندی: جب طالبان افغانستان میں عورتوں سے بھی ملے

عید کے دوسرے روز افغان وزیر داخلہ ویس برمک نے اندرون شہر کے علاقے میں طالبان جنگجوؤں سے ہاتھ ملایا اور اُن کی یہ تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی

افغانستان میں عید کے موقع پر حکومتی اور طالبان کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کے بعد گذشتہ اٹھارہ برسوں میں پہلی مرتبہ طالبان جنگجوؤں، افغان آرمی اور عوام نے مل کر ایک ساتھ عید منائی۔

سوشل میڈیا پر افغانستان کے مختلف شہروں اور قصبوں سے ہزاروں تصاویر شیئر کی گئی ہیں، جس میں طالبان جنجگوؤں کے ساتھ نہ صرف عوام نے بلکہ افغان آرمی کے جوانوں نے بھی تصویریں کھنچوائیں۔ یہاں تک کہ ایک ویڈیو میں تو آرمی اور طالبان جنگجو پشتو گانے پر ‘اتنڑ’ یعنی رقص کرتے ہوئے نظر آئے۔

دارالحکومت کابل میں عید کے دوسرے روز افغانستان کے وزیر داخلہ ویس برمک نے اندرون شہر کے علاقے کمپنی میں طالبان جنگجوؤں سے نہ صرف ہاتھ ملایا بلکہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے، کہ وزیرداخلہ کے ساتھ طالبان نے تصاویر بنا رہے ہیں۔

افغان سیزفائر کے ہش ٹیگ میں ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے، جس میں ایک شہری طالبان کے ساتھ کھڑا ہے اور ایک طالبان جنگجو ’ہبت اللہ اخوندزادہ زندہ باد‘ کا نعرہ لگاتا ہے، شہری اُس سے کہتا ہے، کہ ’ایک نعرہ افغان صدر اشرف غنی زندہ باد کا بھی لگا لو؟ ‘ جنگجو پہلے تھوڑا بہت شرماتا ہے اور بعد میں نعرہ لگاتا ہے، ’ملااشرف غنی زندہ باد‘

افغانستان میں جنگ بندی کو ایک طرف اگر سوشل میڈیا پر افغان عوام نے بہت سراہا ہے، تو دوسری طرف بعض خواتین سماجی کارکنوں نے بھی طالبان جنگجوؤں سے ملاقاتیں کیں اور اُن کے ساتھ سلفیاں لیں۔

مقدسہ احمدزئی ایک سماجی کارکن ہیں، جنہوں نے سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ایک تصویر میں طالب جنگجووں سے نہ صرف ملاقات کی ہے، بلکہ اُن کے جنگ بندی کے اعلان کو سراہتے ہوئے اُنھیں روایتی پگڑیاں بھی پہنائی ہیں۔

سوشل میڈیا پر عیدالفطر پر سیزفائر کی حمایت میں ہزاروں تصاویر، ٹویٹس اور فیس بوک پوسٹس کی گئیں
ایک اور ویڈیو میں ایک شہری طالبان اور افغان آرمی کے درمیان کھڑے ہیں اور چیخ چیخ کر دونوں سے افغانستان میں مستقل امن کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میرے چار بچے ہیں، سارے کے سارے ہلاک ہو بھی ہو جائیں، مجھے کوئی پروا نہیں، بس آپ کے درمیان صلح ہو۔‘

سوشل میڈیا پر عیدالفطر پر سیزفائر کی حمایت میں ہزاروں تصاویر، ٹویٹس اور فیس بوک پوسٹس کی گئیں، جس میں افغان عوام طالب جنگجووں سے جنگ بندی میں توسیع کی درخواست کی گئی۔

اگرچہ طالبان کے دورِ اقتدار میں خواتین کو گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی لیکن دو دہائیوں کے بعد طالبان کابل اور مختلف شہروں میں خواتین سماجی کارکنوں کے ساتھ نہ صرف ملے ہیں، بلکہ اُن کے ساتھ تصویریں بھی کھنچوائیں۔

یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ کابل میں طالبان کی حکومت کے دوران تصویروں کے کھنچنے پر نہ صرف سخت پابندی عائد تھی، بلکہ تصویر کھنچوانے والوں کو بھی سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے