بیگم کلثوم نواز کچھ کہہ رہی ہیں

میری بیگم کلثوم نواز صاحبہ سے کبھی براہ راست ملاقات نہیں ہوئی‘ مجھے بس انھیں تین مرتبہ چند فٹ کے فاصلے سے دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ میں 1999ء میں میاں نواز شریف کے ساتھ سنگا پور اور برونائی گیا تھا‘ بیگم صاحبہ‘ مریم نواز اور کیپٹن صفدر بھی وزیراعظم کے ساتھ تھے‘ مریم نواز کی صاحبزادی مہرالنساء اس وقت چھوٹی بچی تھی‘ یہ ماں کا پلو پکڑ کر ساتھ ساتھ چل رہی تھی اور ماں بار بار اس سے اپنی قمیض چھڑا رہی تھی۔

بیگم کلثوم کے چہرے پر گھریلو خواتین کی سادگی اور عاجزی تھی‘ یہ چلتے چلتے اپنی نواسی کا ہاتھ پکڑ لیتی تھیں جب کہ کیپٹن صفدر کے چہرے پر ایک خوف‘ ایک سراسیمگی تھی‘ یہ گھبراہٹ میں دائیں بائیں دیکھتے تھے اور پھر سر جھکا لیتے تھے‘ مجھے بیگم صاحبہ کو دوسری بار 12 اکتوبر 1999ء کے بعد دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ شریف خاندان قید تھا اور یہ اکیلی سڑکوں پر خاندان کی جنگ لڑ رہی تھیں۔

ایف 8 میں ان کا دفتر تھا‘ یہ اپنے بھانجے محسن لطیف کے ساتھ دفتر آتی تھیں‘ پارٹی کے بچے کھچے کارکنوں‘ آدھی درجن لیڈروں اور میڈیا کے چند نمایندوں کے ساتھ ملتی تھیں‘ مخدوم جاوید ہاشمی ن لیگ کے واحد سیاستدان تھے جو ڈٹ کر ان کے ساتھ کھڑے تھے‘ میں نے ان دنوں جاوید ہاشمی کو قریب سے دیکھا‘ یہ صاحب کردار ثابت ہوئے چنانچہ میں آج تک ان کا احترام کرتا ہوں‘ جنرل مشرف کا اقتدار اس وقت سوا نیزے پر تھا‘ دفتر کو ایجنسیوں نے گھیر رکھا ہوتا تھا۔

دائیں بائیں اور پیچھے کے مکانات آئی ایس آئی نے کرائے پر لے لیے تھے چنانچہ میڈیا کے لوگ بھی گھبرا گھبرا کر وہاں جاتے تھے‘ مجھے ایک بار انھیں وہاں دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ یہ درجن بھر کارکنوں میں گھری ہوئی تھیں‘ ان کے چہرے پر ملال اور تشویش کے ملے جلے تاثرات تھے‘ مجھے ان کے رنگ میں پھیکا پن بھی محسوس ہوا اور مجھے انھیں آخری بار جنوری 2016ء میں قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ میں وزیراعظم کے ساتھ سری لنکا گیا تھا‘ میں نے انھیں جہاز میں بھی دیکھا اور سرکاری تقریبات میں بھی۔

ان کے چہرے پر پنجابی ماؤں جیسا ٹھہراؤ اور آنکھوں میں بزرگانہ شفقت تھی‘ یہ جہاز میں سارا راستہ اخبارات پڑھتی رہیں‘میرا 1997ء سے 2018ء تک 21 برسوں میں ان کے ساتھ بس ایک انٹرایکشن ہوا اور یہ انٹرایکشن بھی براہ راست نہیں تھا‘ پنجاب حکومت نے اکتوبر 2015ء میں لاہور میں ’’اورنج لائین ٹرین‘‘ شروع کی‘ شہر میں ٹرین کا ٹریک بچھانے کے لیے گھر اور دکانیں مسمار کر دی گئیں‘ ان گھروں میں ایک معذور بیوہ کا گھر بھی شامل تھا‘ میں نے 17مارچ 2016 کومیکلوڈ روڈ لاہور پرکھڑے ہو کر پروگرام کیا‘ وہ معذور بیوہ بھی وہاں پہنچ گئی اور اس نے رونا شروع کر دیا‘ ہم نے اس کی کہانی ریکارڈ کر لی‘ وہ پروگرام نشر ہوا تو شریف فیملی کے پرانے ملازم محمد حنیف نے مجھ سے رابطہ کیا اور بیگم صاحبہ کا پیغام پہنچایا‘ وہ معذور بیوہ کی مالی مدد کرنا چاہتی تھیں‘ میں نے خاتون کا نمبر تلاش کر کے انھیں دے دیا۔

محمد حنیف نے بتایا حسین نواز اور حسن نواز اپنے صدقات کی رقم بیگم صاحبہ کو دے دیتے ہیں اور یہ ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیتی ہیں‘ یہ میرا ان کے ساتھ ’’نیم براہ راست انٹرایکشن‘‘ تھا تاہم میری حسین نواز اور مریم نواز کے ساتھ زیادہ ملاقاتیں رہیں‘یہ دونوں ہمیشہ اپنی والدہ کو والدہ صاحبہ اور امی جی کہتے ہیں اور والد سے زیادہ ان کا احترام کرتے ہیں‘ مریم نواز 2016ء میں مجھ سے ناراض ہو گئیں‘ یہ میاں نواز شریف کی طرح مخالف رائے پسند نہیں کرتیں‘ یہ شاید سمجھتی ہیں یہ اگر کسی کو عزت دے رہی ہیں تو پھر اسے صرف ہاں میں ہاں ملانی چاہیے جب کہ میں ’’آزادی رائے‘‘ کو ہر تعلق سے زیادہ اہمیت دیتا ہوں۔

میں سمجھتا ہوں ایمان اور صحت کے بعد آزادی دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے‘ انسان کو اس نعمت پر کبھی کمپرومائز نہیں کرنا چاہیے چنانچہ میں سامنے موجود شخص کی شکل دیکھے بغیر ہر قسم کی بکواس کر جاتا ہوں اور ظاہر ہے اتنی آزادی کوئی شخص برداشت نہیں کرتا لہٰذا مریم نواز میرے کالموں کی وجہ سے میرے ساتھ ناراض ہوئیں اور2016ء میں ہمارا رابطہ کٹ گیا لیکن حسین نواز کے ساتھ رابطہ ابھی تک موجود ہے‘ یہ کبھی کبھار ایس ایم ایس کر دیتے ہیں اور میرے پیغامات کا جواب دے دیتے ہیں جب کہ پیچھے رہ گئے میاں نواز شریف تو یہ میرے ساتھ کمفرٹیبل نہیں ہیں‘ میرے ان کے ساتھ کبھی تعلقات تھے‘ نہ ہیں اور نہ مستقبل میں قائم ہونے کے چانس ہیں۔

میں بیگم کلثوم نواز صاحبہ کی طرف واپس آتا ہوں‘ یہ انتہائی سمجھ دار‘ پڑھی لکھی اور خدمت گزار خاتون ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے انھیں سادگی کے ساتھ ساتھ حوصلہ اور ہمت بھی دے رکھی ہے‘ یہ میاں نواز شریف کی اصل فورس ہیں‘یہ ان کی مشیر بھی ہیں اور سیاسی گائیڈ بھی‘ یہ انھیں تقریروں کے پوائنٹس بھی لکھ کر دیتی ہیں اور ویلفیئر کے منصوبے بھی ‘یہ اس وقت انتہائی بیمار ہیں‘ لندن کے ہارلے اسٹریٹ اسپتال میں وینٹی لیٹر پر ہیں‘ یہ میاں نواز شریف‘ مریم نواز اور حسین نواز کو شناخت نہیں کر پا رہیں‘ مصنوعی تنفس اور نالی کے ذریعے خوراک لے رہی ہیں‘ یہ اگست 2017سے اسپتال میں زیر علاج ہیں لیکن بیماری کی سختی کم نہیں ہو رہی‘ اللہ تعالیٰ انھیں صحت عطا کرے۔

ان کا سایہ ان کے بچوں پر سلامت رہے‘ یہ حقیقت ہے میاں نواز شریف اپنی تین حکومتوں کے خاتمے‘ اپنی جلاوطنی اور پاناما کیس پر اتنے پریشان نہیں ہوئے جتنا یہ اپنی اہلیہ کی بیماری پر دکھی ہیں‘ یہ بیگم کلثوم کے سرہانے کھڑے ہوتے ہیں تو ان کے ہاتھ باقاعدہ کانپتے ہیں اور آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں‘ یہ اللہ تعالیٰ سے ہر لمحہ ان کی صحت کی دعا بھی کرتے ہیں‘ شریف فیملی کی یہ پریشانی اپنی جگہ لیکن آپ اللہ تعالیٰ کی قدرت ملاحظہ کیجیے‘ میاں نواز شریف پاکستان کی طاقتور ترین شخصیت ہیں‘ شریف فیملی کھرب پتی بھی ہے‘ ہارلے اسٹریٹ دنیا کا بہترین اسپتال ہے‘ اسپتال میں انٹرنیشنل لیول کے شاندار سرجن اور ڈاکٹرز ہیں۔

کلثوم نواز کے لیے دنیا جہاں کی ادویات بھی دستیاب ہیں‘ ڈاکٹر اشارہ کریں شریف فیملی دنیا کے آخری کونے سے بھی سرجن‘ آلات اور ادویات لے آئے گی‘ کلثوم نواز اگر چاند یا مریخ کی مٹی سے بھی ٹھیک ہو سکتی ہوں توشریف فیملی اس کا بندوبست بھی کر لے گی لیکن بیگم صاحبہ بے تحاشہ دولت‘ بے شمار اثرورسوخ اور دنیا جہاں کے تمام وسائل کے باوجود10ماہ سے علیل ہیں‘ یہ وینٹی لیٹر پر ہیں اور یہ اپنے بچوں کے چہرے اور آوازیں تک شناخت نہیں کر پا رہیں۔

بیگم کلثوم نواز کی اس حالت میں ہم جیسے لوگوں کے لیے بے شمار سبق چھپے ہیں اور یہ سبق اپنے منہ سے بول رہے ہیں ہم دنیا میں کتنے ہی مضبوط‘ بااثر اور بڑے کیوں نہ ہو جائیں ہم اللہ کی مشیت کے سامنے گھاس کے پتے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے‘ اللہ نہ چاہے تو دنیا میں ڈاکٹر کام آتے ہیں‘ ادویات اور نہ ہی اسپتال‘ ہم اپنے چاہنے والوں کے سامنے پڑے رہ جاتے ہیں اور یہ سب کچھ ہونے کے باوجود ہمارے لیے کچھ نہیں کر پاتے۔

بیگم صاحبہ کی حالت بتارہی ہے دنیا میں دولت ہو‘ اقتدار ہو یا پھر اختیار ہو یہ تمام صابن کا بلبلہ ہیں‘ یہ بلبلہ بنتے اور پھر پھٹتے دیر نہیں لگاتا‘ یہ بلبلہ ہمارے سامنے اوپر اٹھتا ہے‘ ہوا اسے اپنے کندھے پر اٹھا کر پھرتی رہتی ہے اور پھر یہ اس کا دامن چاک کر کے اسے اوپر ہی اوپر فنا کر دیتی ہے‘ فضا میں پانی کا ایک قطرہ تک اس کی یاد بن کر نہیں بچتا‘ بیگم صاحبہ بتا رہی ہیں ہمارا اصل اثاثہ‘ ہماری اصل دولت ہمارے نیک کام‘ ہماری نیکیاں اور لوگوں کے ساتھ ہماری محبت ہے‘ ہم نے کتنے لوگوں کے سر پر ہاتھ رکھا‘ ہم نے کتنے بیماروں کا علاج کرایا۔

ہم نے کتنے یتیم بچوں کی پرورش کی اور ہم نے اپنے اقتدار‘ اپنے اختیار سے کتنے لوگوں کی زندگیاں بدلیں‘ آخر میں ہمارے اکاؤنٹ میں صرف یہ بچتا ہے‘ ہم دنیا سے صرف یہ لے کر رخصت ہوتے ہیں‘ بیگم صاحبہ بتا رہی ہیں دنیا میں صحت سے بڑا کوئی خزانہ نہیں‘ آپ اگر تندرست ہیں‘ آپ اگر کھا سکتے ہیں‘ پی سکتے ہیں‘ دیکھ‘ سن اور بول سکتے ہیں‘ آپ اگر چھو کر محسوس کر سکتے ہیں‘ آپ کو اگر کھٹا‘ میٹھا اور ترش محسوس ہو سکتا ہے‘ آپ اگر اپنے پاؤں پر چل سکتے ہیں۔

آپ اگر اپنی انگلیوں سے پکڑ سکتے ہیں اور اگر آپ کا دل‘ دماغ اور پھیپھڑے کام کر رہے ہیں تو پھر دنیا میں آپ سے بڑاکوئی امیر نہیں‘ آپ پھر رئیس اعظم ہیں اور بیگم صاحبہ بتا رہی ہیں آپ خواہ اتفاق گروپ کے مالک ہیں‘ آپ کے پاس خواہ شریف اسٹیٹ اور شریف گروپ آف کمپنیز ہے یا پھر آپ جاتی عمرہ‘ العزیزیہ اسٹیل مل‘ ہل میٹل اور ایون فیلڈ پراپرٹیز کے مالک ہیں یا پھر آپ کے پاس ہائیڈ پارک کے سامنے لگژری فلیٹس ہیں‘ یہ سب دنیا کا مال ہے‘ یہ سب دنیا میں رہ جاتا ہے۔

آپ دنیا سے اس میں سے ایک تولہ‘ ایک گرام لے کر نہیں جاتے چنانچہ پھر اتنا بوجھ‘ اتنا وزن اٹھانے کی کیا ضرورت ہے؟ دنیا کے مال کے لیے دنیا کے پیچھے بھاگنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ ٹھاٹھ‘ یہ باٹھ اور یہ کھاٹ یہ سب پرایا ہے‘ یہ دنیا میں رہ جائے گا تو پھر اس کے لیے اتنی جدوجہد کیا معنی رکھتی ہے چنانچہ میری میاں نواز شریف اور عمران خان دونوں سے درخواست ہے آپ بیگم کلثوم نواز کا چہرہ اور وینٹی لیٹر دیکھیں اور اپنے آپ سے پوچھیں‘ یہ دولت‘ یہ رتبہ اور اقتدار کی یہ کش مکش اگر اس خاتون کے کام نہیں آئی تو یہ آپ کا کتنا ساتھ دے لے گی‘ آپ بھی اقتدار اور دولت کے اس بوجھ میں کتنا فاصلہ طے کر لیں گے؟

میرا مشورہ ہے میاں نواز شریف کو آج سے توبہ کر کے اپنا قبلہ درست کر لینا چاہیے‘ دنیا کے مال میں سے اگر کچھ دنیا کو دے کر جان چھوٹ سکتی ہے تو انھیں اپنی جان چھڑا لینی چاہیے‘ ہم زمین کے لوگ ہوا پر تیرتے ہوئے پتے ہوتے ہیں‘ ہمارا سفر کب اور کہاں ختم ہو جائے ہمیں کچھ پتہ نہیں ہوتا‘ہم اگر پتے ہیں تو پھر ہمیں پتے بن کر رہنا چاہیے‘ ہمیں پتوں کا خدا بننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے‘ میں آخر میں ایک بار پھر ڈاکٹر سعید اختر کی بات دہراؤں گا۔بیماری اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا امتحان ہے اور اگراس میں غربت شامل ہو جائے تو یہ عذاب بن جاتی ہے۔

اللہ تعالیٰ بیگم کلثوم نواز صاحبہ کو یہ امتحان پاس کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور یہ اگر ٹھیک ہو جائیں تو یہ باقی زندگی پاکستان میں غریب مریضوں کا سہارا بن کر گزاریں‘ یہ عبدالستار ایدھی بن جائیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے