وودو مذہب کے سربراہ انتقال کر گئے

ہیٹی کے وودوُ مذہب کے سربراہ میکس گیسنر بوویئے ہفتے کے روز 79 برس کی معر میں انتقال کر گئے ہیں۔ ان کے اہل خانہ نے ان کی انتقال کی خبروں کی تصدیق کی ہے۔

بوویئے سن 2008 میں وودوُ مذہب کے ماننے والوں کے روحانی پیشوا مقرر ہوئے تھے۔ اس سے قبل وہ بائیو کیمسٹری کے شبعے کے تربیت یافتہ تھے۔ اس مذہب کے ماننے والوں نے روحانی پیشوا کا لقب پروٹیسٹنٹ اور دیگر مسیحی عقائد کے ماننے والوں کے حملوں اور وودوُ مذہب کو لاحق خطرات کے ازالے کے لیے بنایا تھا۔ وودوُ مذہب کو ہیٹی میں تاریخی اور روایاتی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔

سن 2010ء میں ایک امریکی مسیحی مبلغ پیٹ رابرٹسن نے ہیٹی میں آنے والے تباہ کن زلزلے کی وجہ وہاں ’شیطانی منبع‘ کو قرار دیا تھا، اس سے ان کی مراد وہاں وودُو مذہب کی موجودگی تھا۔ ہیٹی میں سن 2010ء میں آنے والے زلزلے کے نتیجے میں دو لاکھ انسان مارے گئے تھے۔ جادو ٹونے اور شیطان کی پوجا جیسے الزامات ہی کی وجہ سے اس مذہب کو عالمی سطح پر توجہ حاصل ہوئی تھی۔

Symbolbild Schwarze Magie Voodooo

اس مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد پر ’عجیب عقائد‘ کا الزام عائد کیا جاتا ہے

رابرٹ سن کا کہنا تھا کہ اس زلزلے کی وجہ ہیٹی میں فرانسیسی نوآبادیات اور مقامی رہائشیوں کے درمیان آزادی کے لیے طے پانے والا سن 1804 کا وہ معاہدہ تھے، جسے رابرٹ سن نے ’شیطان سے معاہدہ‘ قرار دیا تھا۔

پفتے کے روز انتقال کرنے والے بوویئے نے دنیا بھر میں سخت محنت کرتے ہوئے وودوُ مذہب سے متعلق منفی رائے کو تبدیل کرنے کی کوشش کی اور غیرملکیوں کو یہ بتانے میں مگن رہے کہ یہ مذہب اصل میں ہے کیا۔ اہم مذہبی تقریبات کے موقع پر بوویئے ہی نے ہیٹی میں اس مذہب سے جڑے معبد خانے عام افراد کے لیے کھولنے کا آغاز کیا تھا۔

سن 2010ء میں ہیٹی میں ہیضے کی وبا پھیلی تو دیگر افراد کی جانب سے وودُو مذہب کے پیروکاروں پر یہ کہہ کر حملے کیے گئے کہ وہ ایک پاؤڈر تیار کر رہے ہیں، جس سے یہ وبا پھیل رہی ہے۔

خیال رہے کہ وودوُ افریقی ثقافت کا حصہ تھا، جو سیاہ فام غلاموں کے ہمراہ سترویں اور اٹھارویں صدی میں ہیٹی پہنچا۔ فرانسیسی نوآبادیات کے دوران اس مذہب پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ اس مذہب کے ماننے والوں کا عقیدہ ہے کہ یہ نظریہ ان کی حفاظت کرتا ہے اور انہیں ان دیکھی دنیا سے جا ملاتا ہے۔

DW بشکریہ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے