اب راج کرے گی خلق خدا

وطن عزیز میں گیارھویں عام انتخابات کے لیئے 25 جولائی کو انتخابی اکھاڑہ تیار ہونے کو ہے۔ ہر طرف گلی محلے چوک چوراہے میں سیاست سیاست کا ذکر خیر ہے۔ جلسے جلوس ریلیاں اور کارنر میٹنگز کا دور دورہ ہے۔ ہر چھوٹی بڑی سیاسی پارٹی کے ٹکٹ ہولڈرز اور آزاد امیدواران گھوڑوں کی طرح میدان میں آ چکے ہیں۔ کپتان و زرداری ، شہباز شریف و مذہبی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ چکری کے چوہدری نثار نے بھی جیپ میں بیٹھ کر وزارت عظمی کی کرسی پر براجمان ہونے کے لیئے کمر کس لی ہے۔

اقتدار کی غلام گردشوں میں پہنچنے کا قرعہ کس کے نام نکلتا ہے یہ تو 25 جولائی کا سورج غروب ہو کر بتا ہی دیگا۔ مگر فضا میں گونج کپتان کے وزیر اعظم بننے کے خواب کے پورا ہونے کی سنائی دے رہی ہے کہ 26 جولائی کا سورج جب اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ طلوع ہو گا تو وطن عزیز یکسر تبدیلی کی لپیٹ میں ہو گا۔

کپتان کے کھلاڑی پورے ملک کے ہر حلقے سے بڑی لیڈ کے ساتھ فتح کا تاج سر پر سجائے بنی گالہ میں اپنے کپتان کے قدموں میں اپنی اپنی نشست نچھاور کر دیں گے اور یوں کھلاڑیوں کا کپتان وطن عزیز کا وزیر اعظم منتخب ہو جائیگا۔ جس کے بعد دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی۔

ہر طرف کپتان کی بلے بلے ہو گی۔ خوشحالی و ترقی کا ایک نیا دور شروع ہو گا۔ وزیراعظم کپتان جادو کی ایسی چھڑی گھمائے گا کہ سب کچھ ایک دم تبدیل ہو جائیگا. روزگار عام ہو گا۔ غریب کی حالت ایسی پلٹا کھائیگی کہ دنیا تو حیران ہوگی ہی خود غریب کو ہی اپنی قسمت پر رشک آنے لگے گا۔ اب راج کرے گی خلق خدا کہ وہ مسیحا آ پہنچا۔

یہ قوم بھی بڑی جذباتی ہے۔ بہت جلد شخصیت پسندی کے سحر میں گرفتار ہو کر اپنا تن من دھن لٹا دیتی ہے۔ قیادت سے محروم بیچاری قوم ٹرک کی بتی کے پیچھے لگی کسی مسیحا کی تلاش میں دربدر بھٹک رہی ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں یہ قوم ایک نظریئے کے لیئے اکٹھی ہوئی اور اپنا سب کچھ وار کر اپنی منزل پا گئی ۔ پاکستان حاصل کر لیا۔ مگر بدقسمتی سے بابائے قوم محمد علی جناح کی زندگی نے وفا نہ کی اور یہ قوم ایسی یتیم ہوئی کہ آج تک قائد اعظم جیسا لیڈر نہ مل سکا جو قوم کے سر پر ہاتھ رکھتا۔ قوم قائد اعظم سا مسیحا ڈھونڈنے کے سفر پر رواں دواں ہے۔

دربدر بھٹکٹی قیادت سے محروم قوم کبھی بھٹو میں قائد اعظم ڈھونڈتی پھری تو کبھی قدم بڑھاو نواز شریف کی گردان گردانتے پکارتی رہی مگر قائد اعظم جیسا مسیحا نہ ملنا تھا نہ ملا۔ قوم نے بھی نصیب کا لکھا سمجھ کر اپنے حالات سے سمجھوتہ کر لیا تھا کہ اتنی دیر میں ایک کھلاڑی کپتان آیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے چھا گیا اور اس جذبات سے بھری قوم نے پھر سے امیدیں باندھ لیں۔

کھلاڑی کپتان کے ساتھ قوم کا جذباتی انس اس قدر پروان چڑھا کہ کپتان کو قائد اعظم ثانی کا درجہ دے بیٹھی۔ اندھی محبت اور تقلید کرتے ہوئے قوم کپتان کے سحر میں یوں مبتلا ہے کہ آئی آئی پی ٹی آئی کے نعرے چار سو گونج رہے۔ وزیر اعظم صرف کپتان ہی منظور۔ چاہے جس راستے سے آئے جہاں سے منظور نظر ہو کے آئے۔

اب تو بس کپتان ہی بنے گا وزیراعظم اور بدل دیگا پہلے والا پرانا پاکستان۔ اب دو نہیں ہو گا صرف ایک پاکستان۔ نیا پاکستان اور وزیراعظم کپتان۔ ایک طرف کپتان کے دل میں ریاست مدینہ کا تصور ہے تو زبان پر ایاک نعبد وایاک نستعین کا ورد جاری ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئیڈیل ہیں تو دوسری طرف وزیر اعظم بننے کے لیئے درگاہ و دربار پر حاضری بھی تو ضروری ہے۔ عقیدت میں بوسہ دے دیا تو کیا ہوگیا اگرچہ دل نہیں مان رہا تھا پر روحانی عقیدت میں بہہ گئے تو ایسا ہو گیا۔

ہاں بھئی کپتان کی اندھی محبت کے پیروکار تو کپتان کے بوسے کے دلائل میں یہاں تک بھی کہہ رہے کہ حجر اسود بھی تو پھتر ہے جس کو بوسہ دینے مسلمان خانہ کعبہ جاتے ہیں۔ خیر بوسہ دینے کا اور نہ سہی تو ایک فائدہ تو ہوا کہ اب یہودی ایجنٹ کہنے والوں کا منہ تو بند ہوا۔ اللہ کرے کہ کپتان اس قوم کی امیدوں پر پورا اترے اور قوم کا یہ جذباتی انس والا رشتہ ہمیشہ قائم و دائم رہے۔ اس قوم نے جو نئے پاکستان سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں وہ پوری ہوں۔

کپتان کے خواب اور مثالیں سچ ثابت ہوں وگرنہ اب کے بار قوم کے خوب چکنا چور ہوئے تو پھر قوم شدید قومے میں چلی جائیگی۔ کپتان سے قوم آخری امید لگائے بیٹھی ہے کیونکہ اس سے پہلے روٹی کپڑا اور مکان جیسا خوشنما نعرا جو بھٹو نے دیا تھا ہوا ہو چکا تو قدم بڑھاو نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں بھی قوم بھگت چکی۔ قوم سمجھ رہی ہے کہ وہ وقت آن پہنچا ہے کہ جب تخت اچھالیں جائیں گے جب تاج اتاریں جائیں گے۔ کپتان کی صورت میں مسیحا میسر آ گیا اور یوں اب راج کرے گی خلق خدا کی صورت ہو گی۔

کپتان کے ایک طرف جنوبی پنجاب کا گدی نشین ہے تو دوسری طرف پیسے کی مشین ہے۔ راولپنڈی کا سگ اور بلار تو ویسے ہی کپتان کے گن گائے جا رہا۔ درباروں کی حاضریاں بھی لگ گئیں۔

ٹونے ٹوٹکے بھی چل رہے اور قوم بھی ساتھ ہے تو پھر کیا بعید ہے کہ 25 جولائی کا سورج چڑھے اور وطن عزیز میں ہر طرف بلے بلے نہ ہو۔ نواز شریف اور مریم نواز دونوں باپ بیٹی تو ہارلے اسٹریٹ لندن کے ہسپتال میں اچھا شوہر اور اچھی بیٹی ہونے کا فرض نبھا رہے ہیں۔ باقی رہے شہباز شریف تو وہ لگے ہوئے ہیں لگے رہیں اپوزیشن میں بیٹھ کر فی الحال وقت گزاری کریں۔ پیپلز پارٹی تو ویسے بھی انتخابات جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہے مگر زرداری صاحب سیاست کے گرو مانے جاتے ہیں۔ انتخابات کے بعد کم نشستوں کے باوجود اپنا کردار اور حصہ لیں گے۔

چوہدری نثار نواز شریف سے راہیں جدا کر کے جیپ میں سوار ہو چکے ہیں۔ 99 میں تو چوہدری نثار نے خوب وفا نبھائی مگر تالی ہر بار کہاں ایک ہاتھ سے بجتی ہے صاحب !۔ اب کی بار ان کا غرور توڑ کر اپنی میں دکھانے کا وقت ہے۔ سو جیپ لے کر نکل پڑے ہیں اور یونہی قافلے آئیں گے اور کاررواں بنتا جائیگا۔ طاہر القادری کی جگہہ خادم رضوی نے لے لی ہے۔ جو کہ تحفظ ناموس رسالت کا علم اٹھائے میدان میں اترے ہوئے ہیں۔

انتخابی مہم چل رہی ہے اور باقی کچھ ہی دنوں میں ہر طرف لبیک لبیک کہتے مجموں کے مجمے امڈ آئیں گے۔ جب مساجد میں منبر رسول سے یہ صدا آئیگی کہ تحفظ ناموس رسالت کے لیئے جان بھی قربان ہے تو کون مسلمان پیچھے ہٹے گا پھر۔ 25 جولائی کو اپنے حصے کی پرچی بیلٹ باکس میں اس نیت سے ڈالی جائیگی کہ ہو سکتا ہے یہ پرچی ہی روز محشر والے دن نجات کا ذریعہ بن جائے۔ 25 جولائی کی شام ملک بھر کے ہر حلقے سے 10 سے 15 ہزار پرچیاں تو نکل ہی آئیں گی۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ درجن بھر نشستوں پر کامیابی بھی مل جائے۔

باقی اللہ کی ذات بہتر جانتی ہے کہ کیا کرنا ہے۔ بعض اوقات انسان کی ساری منصوبہ بندی دھری کی دھری رہ جاتی ہے کیونکہ آخری فیصلہ کن فیکون ہی ہوتا ہے۔ اللہ تعالی وطن عزیز کا حامی و ناصر ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے