جتاوگھوڑوں،گدی نشینوں اور وڈیروں کاالیکشن

پاکستان میں اس وقت سب سے بڑا موضوع 25جولائی 2018 کو ہونے والے عام انتخابات ہیں۔ برقی و مطبوعہ صحافت میں الیکشن سے جڑے تجزیے، تبصرے اور پیشین گوئیاں زیادہ جگہ لے رہی ہیں ۔ ٹی وی چینلزکے اینکرزملک کے طول عرض میں پھیلے انتخابی حلقوں میں جا کر عوام کی رائے جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شام کے حالات حاضرہ کے ٹی وی مباحثوں میں پاکستان کی انتخابی سیاست پر نگاہ رکھنے والے ماہرین جلوہ گردکھائی دیتے ہیں۔ دو چیزوں کا موازنہ کثرت سے کیا جا رہا ہے اور وہ ہیں سیاسی جماعتوں کے پانچ سال قبل کیے گئے دعوے اور زمین پر ان کی کارکردگی ۔اس تقابل کے ساتھ ساتھ الیکشن پر اثر انداز ہونے والے علاقائی ، لسانی اور مذہبی عناصر بھی زیر بحث ہیں ۔ کہیں کہیں نظریاتی عوامل کا بھی ذکر کیا جا رہا ہے لیکن عملاً یہاں نظریاتی سیاست کہیں نظر نہیں آ رہی۔

اکثر ٹی وی تجزیہ کار انتخابات میں کامیابی کو ترقی کے ساتھ جوڑ کر دیکھ رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ترقی کی تعریف یہاں انفرااسٹرکچر کی بہتری تک محدود ہو کر رہ گئی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ قومی سیاست یہاں عشروں سے سڑکوں ، پُلوں اور نالیوں کی تعمیرکے گرد گھومتی چلی آ رہی ہے۔ نوکری کی بندر بانٹ بھی انتخابی سیاست کا ایک حربہ ہے. پاکستان کی کم و بیش سبھی سیاسی جماعتیں بلدیاتی نظام کو سنجیدگی سے نافذ کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ آمریتوں میں قائم کئے گئے بلدیاتی نظام قدرے مؤثر تو رہے ہیں لیکن انہیں فوجی آمروں کے احساس جرم (یعنی عوامی اقتدار کے حق کو سلب کرنے کے جرم کی سنگینی کو) کم کرنے کی خواہش سے جوڑا جاتا ہے۔ یہ درست بھی ہے کیونکہ آمر کی عوام میں جڑیں نہیں ہوتیں اس لیے وہ ایک مصنوعی فضاء قائم کر کے عوام کا اعتماد لینے کی کوشش کرتا ہے ۔

پاکستان میں 2013ء میں بننے والی مسلم لیگ نواز کی حکومت نے بہت پس وپیش کے بعد 2015 ء میں بلدیاتی انتخابات کروا تو دیے لیکن کہیں بھی اس بلدیاتی نظام کے اثرات محسوس نہیں ہوئے۔پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں میں بھی الیکشن ہوئے لیکن ان کے واضح اثرات دکھائی نہیں دیے۔ اکثر بلدیاتی نمائندوں کو تنخواہ کی مد میں محدود سی رقم ماہانہ بنیادوں پر دی جاتی رہی لیکن انفرااسٹرکچر کی بہتری کے لیے انہیں فنڈز اور ضروری اختیارات سے محروم رکھا گیا۔ قومی وصوبائی اسمبلی کے اراکین نے فنڈز اپنے پاس رکھے تاکہ الیکشن سے کچھ عرصہ قبل چند سڑکیں اور گلیاں پختہ کر کے اپنے ووٹ پکے کیے جائیں۔ طاقت کی مرکزیت کی یہ خواہش کم وبیش سبھی سیاسی پارٹیوں میں پائی جاتی ہے ۔ نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی کے بارے میں کوئی بھی سیاسی جماعت سنجیدہ نہیں ہے۔

ایک اور اہم پہلو سیاسی نمائندوں کی اپنے ووٹرز کے ساتھ مسلسل رابطوں کی کمی ہے۔سیاسی نمائندے الیکشن سے چند دن قبل حلقے کی خبر لینے نکلتے ہیں۔لوگوں کے ساتھ ملتے ہیں، نئے وعدے کرتے ہیں ،تصویریں کھنچواتے ہیں اور کہیں کہیں حلقوں کی بااثر شخصیات اور برادریوں کے سربراہوں کی الیکشن فنڈ کے نام پر مالی اعانت کر کے اپنے ووٹ پکے کر لیتے ہیں۔ الیکشن جیتنے کے بعد یہ سیاسی نمائندے اپنے اور عوام کے درمیان اونچی اور ساؤنڈ پروف دیواریں اُٹھا دیتے ہیں اوراپنے ذیلی ایجنٹوں کے ذریعے حلقے کے تھانوں اور پٹواریوں کو احکامات دیتے ہیں اور اسی طرح پانچ برس گزر جاتے ہیں۔ حلقوں کے اندر سب سے زیادہ فوائد چند بااثر لوگ اٹھاتے ہیں جن کے منتخب ممبرانِ قومی یا صوبائی اسمبلی براہ راست رابطے ہوتے ہیں۔

اس وقت قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کی توجہ عام لوگوں کی بجائے مختلف علاقوں کے بااثر گدی نشینوں ، کاروباریوں اور وڈیروں کی جانب ہے۔ پنجاب کے کئی علاقوں میں ایسے گدی نشین آج بھی کافی سیاسی رسوخ رکھتے ہیں جیسا کہ ان کے باپ دادا تقسیم ہند سے قبل برطانوی عہد میں رکھتے تھے۔ اسی طرح ان جاگیرداروں اور وڈیروں کی اولادیں پاکستانی سیاست کے بڑے حصے کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں ، جو پہلے انگریز حکمرانوں کی وفاداری کا دم بھرتے تھے اور طاقت کے مرکز کا طواف کر کے مراعات اور اختیارات پاتے تھے۔ ان میں بہت سے ایسے خاندان بھی ہیں جنہوں نے تقسیم ہند کے بعد کی سیاسی صورت حال کا اندازہ لگا کر ایک دم سے اس وقت مسلمانوں کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ میں چھلانگ لگائی تھی۔ اس طرح وہ ایک دَم سے ناصرف تحریک پاکستان کے کارکن قرارپائے بلکہ ان کی نسلوں کی دولت اور اختیارات کو تحفظ بھی مل گیا ۔

اس وقت مسلم لیگ نواز کو گدی نشینوں سے رابطے میں مشکل ہے کیونکہ گدی نشینوں کی اکثریت بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھتی ہے اور وہ سب مسلم لیگ نواز سے ختم نبوت کے قانون میں تبدیلی کی کوشش اور ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد سے ناراض ہیں۔ مسلم لیگ نواز کے سیاسی نمائندوں کو کئی جگہوں پر جوشیلے مذہبی سیاسی کارکنو ں (جن کی اکثریت تحریک لبیک سے متعلق ہے)کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ دوسری جانب عمران خان اس صورت حال کا فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ وہ کچھ دن قبل اپنی تیسری اہلیہ اہلیہ(جو روحانی معاملات میں دلچسپی کے تعلق سے معروف ہیں) کے ہمراہ پنجاب کی معروف درگاہ پاک پتن شریف گئے تھے، اس کے علاوہ سرگودھا میں واقع سیاسی رسوخ رکھنے والی درگاہ سیال شریف میں بھی انہوں نے حاضری دی اور وہاں کے گدی نشین سے حمایت کی یقین دہانی کے ساتھ لوٹے۔ تحریک انصاف کے ایک سرکردہ رہنما شاہ محمود قریشی تو خود ملتان کی مشہوردرگاہ حضرت کے گدی نشین ہیں۔ عمران خان کی سیاسی مہم دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ تبدیلی کی بجائے پاکستان کی روایتی پاور پالیٹکس کے حربوں(جن میں ضرورت کے مطابق مذہبی عنصر، برادری ازم اور الیکٹیبلز شامل ہیں) کو کام میں لانے میں ہی اقتدار کی ہموار راہ دیکھتے ہیں۔

پاکستان میں سوشل میڈیا اب کی بار قدرے زیادہ متحرک نظر آرہا ہے۔ انتخابات میں اس کے کردار کو نظر انداز کرنا مشکل ہے۔ سیاسی نمائندے ، ان کے حامی اور مخالفین اس میڈیم کا مؤثر استعمال کر رہے ہیں۔ اب سیاست میں دائمی قوتوں کے حامل اداروں کی بالواسطہ مداخلت پر لوگ پہلے کی نسبت کافی کھلے سوالات اٹھا رہے ہیں ۔ پچھلے ہفتے جنوبی پنجاب کے ایک حلقے کے مسلم لیگی امیدوار رانا اقبال سراج نے دعویٰ کیا کہ انہیں ایک خفیہ ایجنسی کے کارندوں نے تشدد کا نشانہ بنایا اور کہا کہ وہ وہ مسلم لیگ نواز کے ٹکٹ پر الیکشن نہ لڑیں۔اس کے بعد لندن سے نواز شریف نے ایک بیان جاری کیا ہے کہ ان کے نمائندوں کو وفاداریاں بدلنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اگلے دن اسی نمائندے نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیوپیغام میں کہا کہ ’’اس کی غلط فہمی دور کر دی گئی ہے ، تشدد کرنے والے افراد کا تعلق محکمہ زراعت سے تھا‘‘ ۔ اس وضاحت کے بعد سوشل میڈیا پر طنزیہ اور کُٹیلے تبصروں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا جو ابھی تک رُکا نہیں۔ لوگ خفیہ ایجنسیوں پرتنقید کے لیے محکمہ زراعت کی اصطلاح استعمال کر رہے ہیں ۔ بی سی سی اردو اور وائس آف امریکا جیسی نمایاں ویب سائٹس نے بھی ایسے طنزیہ مضمون شائع کیے ہیں جن میں محکمہ زراعت کی آڑ لے کر خفیہ ایجنسیوں کی الیکشن کے عمل میں ناروا مداخلت پر تنقید کی گئی ہے۔ مین اسٹریم میڈیا میں آج کل خفیہ ایجنسیوں کے بارے میں تنقیدی گفتگو یا تبصروں کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے، اس لیے ناقدین کو ’’محکمہ زراعت‘‘ کی صورت میں کسی حد تک محفوظ لیکن مفہوم ہونے والی اصطلاح میسر آئی ہے۔

پاکستان کے اس ماہ کے آخری ہفتے میں ہونے والے الیکشن اس لیے بھی اہم ہیں کہ یہ ایک ایسی فضا میں برپا ہونے جا رہے ہیں کہ ملک میں اعلیٰ عدالتوں کی غیر معمولی فعالیت کا ہر طرف شہرہ ہے ۔طاقت کا مرکز سمجھنے جانے والے اداروں کے اشاروں پر کچھ نئی پارٹیاں اور اتحاد صف آراء ہو چکے ہیں۔ سدھائے ہوئے جتاؤ گھوڑے حکم کی تعمیل میں نئی ریس میں شامل ہو چکے ہیں۔سیاست دانوں کے’’ احتساب ‘‘کا عمل تیز کر دیا گیا ہے۔ اس موسمی احتساب کی تلوار کئی سیاست دانوں پر ایسے وقت میں چلی ہے کہ معاملہ مشکوک ہو گیا ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ جن سیاسی پارٹیوں نے دائمی قوتوں کے حامل اداروں کے سامنے سر جھکایا ، ان کے خلاف جاری احتسابی عمل سست بلکہ کئی جگہوں پررُک بھی گیا ہے۔ اس پہلو پر البتہ زیادہ بات نہیں کی جارہی۔

حالیہ انتخابات کے لیے چلائی جانے والی مہموں میں کچھ چیزیں خاص طور پر مشاہدے میں آئی ہیں۔ایک تو وہی پنجاب کی بنیاد پر پائی جانے والی سرگرمیاں، سبھی سیاسی جماعتیں اور سیاسی عزائم رکھنے والی غیر سیاسی قوتیں سمجھتی ہیں کہ اصل میدان صوبہ پنجاب ہے۔ جس سیاسی جماعت نے اس صوبے میں زیادہ نشستیں حاصل کیں، وفاقی حکومت میں اسی کا حصہ زیادہ ہوگا۔ دوسری اہم بات جو سیاسی جماعتوں کے جمہوریت پرور ہونے کے دعوے کی قلعی کھولتی ہے، وہ یہ کہ کسی بھی جماعت نے اپنا نیا انتخابی منشور پیش کرنے میں سرگرمی نہیں دکھائی۔مذہبی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے نے 5جون جبکہ بہت انتظار کے بعد پیپلز پارٹی نے 28 جون کو اپنا منشور پیش کیا،اور تحریک انصاف نے 4 جولائی کو اپنے منشور کا اعلان کیا۔ 2013 الیکشن میں بھاری اکثریت لینے والی مسلم لیگ نواز نےبہت دیر یعنی 5 جولائی کو اپنا منشور جاری کیا۔ یہ رویہ پاکستانی سیاسی جماعتوں کے جمہوری اصولوں پر عمل پیرا ہونے کے دعوے میں موجود تضادات کو آشکار کرتا ہے۔

اس الیکشن میں خاص طور پر یہ بات بھی مشاہدے میں آئی کہ ملک کارقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ بلوچستان ماضی طرح نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ مین اسٹریم میڈیا میں اس صوبے میں ہونے والی انتخابی پیش رفت کو بہت کم جگہ دی جارہی ہے۔ بلوچستان میں مسلسل داخلی شورشوں کی وجہ سے ووٹ دینے کے لیے کم لوگ نکلتے ہیں،اس کی سب سے بڑی دلیل ابھی کچھ دن قبل تک بلوچستان کے وزیراعلیٰ کے عہدے پر رہنے والے عبدالقدوس بزنجو تھے جنہیں محض چند سو ووٹ ملے تھے۔ دوسرے یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ بلوچستان کے سیاسی عمل میں غیر سیاسی مداخلت کافی زیادہ ہے۔ اس تأثر کو تقویت ابھی چند ماہ قبل بلوچستان اسمبلی میں عدم اعتماد کی کامیاب تحریک کے نتیجے میں مسلم لیگ نواز کی حکومت کا خاتمہ اور پھر کچھ دن پر بلوچستان عوامی پارٹی کا منظر عام پر آنا ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی میں کئی اہم رہنما جس رفتار سے شامل ہوئے ، اس تیز رفتار بدلاو کو سیاسی مبصرین نے فطری نہیں سمجھا اور اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ اس نئی پارٹی کے لیے بلوچستان میں میدان ہموار کیا گیا ہے۔ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنما اس موضوع کو نہ چھیڑنے میں ہی اپنی عافیت دیکھتے ہیں حالانکہ کسی بھی حقیقی مسئلے سے آنکھیں چرانا ، مستقبل میں بڑے مسائل کی بنیاد بن سکتا ہے۔

حالات جو بھی ہوں ، پاکستان میں سیاسی نظام کا استحکام جمہوری عمل کے تسلسل کے ساتھ مشروط ہے ۔ ماضی کی آمرانہ مہم جوئیوں نے ملک کو کئی اعتبار سے نقصان پہنچایا ہے ۔ سیاسی عمل مستحکم ہوگا تو پاکستان اپنے پڑوسیوں بھارت ، چین ، ایران اور افغانستان کے ساتھ باوقار تعلقات قائم کر سکے گا اور آزاد خارجہ پالیسی کی بنیاد بھی یہی مستحکم سیاسی نظام رکھ سکتا ہے۔سیاسی جماعتوں کے زعماء کو پاور پالیٹکس کی بجائے اس بنیادی نکتے کی جانب توجہ دینا ہو گی۔

بشکریہ : ہفت روزہ نوائے جہلم ، سری نگر ، جموں کشمیر

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے