وہ چار مسیحی ووٹ جنہوں نے پاکستان کا قیام ممکن بنایا

اگرچہ پوٹھان جوزف جیسا نام ہمارے لئے اجنبی ہے لیکن وہ برصغیر کے ابتدائی عظیم صحافیوں میں شمار ہوتے تھے۔ وہ برطانوی راج کے شدید مخالف اور تحریک آزادی کے غیر متزلزل سپاہیوں میں شامل تھے ۔ وہ اپنے ٹائپ رائٹر اور اعلیٰ صحافیانہ صلاحیتوں کے سبب اس خطے کے بہت سے عظیم رہنماؤں کی آواز تھے ۔ ان میں اینی بیسنٹ ، مہاتما گاندھی ، سرجنی نائیڈو ، موتی لعل نہرو اور ہمارے اپنے قائد محمد علی جناح شامل ہیں ۔ جوزف نے 26 اخبارات کی بنیاد رکھی اور انہیں شائع کیا ۔ ان میں سر فہرست ہندوستان ٹائمز ، انڈین ایکسپریس اور دکن ہیرالڈ ہیں ۔ 1941 میں جب بابائے قوم نے ڈیلی ڈان کی بنیاد رکھی تو انہوں نے جوزف کو ہی اس کا پہلا مدیر بنایا ۔ جی ہاں ! برصغیر کے مسلمانوں کے واحد نمائندے نے قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد مسلمانوں کے حقوق اور پاکستان کے نظریے کی تشہیر کے لئے ایک مسیحی مدیر کو اپنے کلام کی اشاعت کا ذریعہ بنایا ۔

کیا یہ بہت زیادہ حیران کن نہیں ہے ؟شائد نہیں ۔ کیونکہ یہ اس رہنما کا فیصلہ تھا جو اپنے اصولوں پر مستقل قائم رہا اور چھ برس بعد یہ تاریخی کلمات ادا کیے ۔ ” تم اپنے گرجوں میں جانے کے لئے آزاد ہو۔” ان کا تقرر نہ صرف قائد کے مستقل رویے کا غماز تھا بلکہ یہ ہندوستان کی مسیحی آبادی کے سیاسی فیصلے کا تسلسل تھا جس سے جوزف کا تعلق تھا ۔

اب مجھے اپنے پڑھنے والوں کو ایک اور مسیحی رہنماء سے متعارف کروانا ہے جن کانام ممکنہ طور پر آپ کے لیے اجنبی ہو۔ دیوان ایس۔ پی سنگھا جو تقسیم سے قبل متحدہ پنجاب کے مسیحیوں کے رہنما تھے ۔ پسرور ، سیالکوٹ ان کا آبائی شہر تھا اور وہ لاہور میں منتقل ہوئے تھے ۔ عملی سیاست میں قدم رکھنے سے پہلے وہ پنجاب یونیورسٹی کے رجسٹرار کے عہدے پہ فائز رہے ۔ 1937 میں پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہونے والے ایس ۔پی سنگھا بعد ازاں تحریک پاکستان کے بڑے حامی کے طور پر سیاست میں ابھرے ۔ انہوں نے پنجاب اسمبلی کے اسپیکر کی حیثیت میں پاکستان کا مقصد بہت بلند ہمت اور حوصلہ مندی سے واضح کیا ۔ ہم ،جو اب اس ملک میں رہتے ہیں ،انہیں اس عہد کے تناظر میں یہ سمجھنا بہت لازم ہے کہ جب خود ساختہ علماء تحریک پاکستان کی دل و جان سے مخالفت کررہے تھے، تب مسلم لیگ اور پنجاب کے مسیحی پورے زور و شور سے قائد کے مقصد سے جڑے ہوئے تھے ۔

1942 میں آل انڈیا کرسچیئن ایسوسی ایشن نے بانی پاکستان کو اپنی غیر مشروط حمایت کا مکمل یقین دلایا۔ پنجاب کے گرجا گھروں کے رہنماؤں نے اپنے مسیحی بھائیوں کو یہ پیغام بروقت پہنچا دیا کہ وہ اپنی ہمدردیاں پاکستان سے وابستہ رکھیں اور جب بھی پاکستان وجود میں آئے وہاں ہجرت کر جائیں ۔ تصور پاکستان کے ارتقاء میں جوشوا فضل الدین جیسے دانشوران کا بہت حصہ ہے جو روزنامہ انقلاب میں لکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں بیان کیا کہ پاکستان جس کا زمینی تعلق وسط ایشیاء سے ہے اور جو اپنی علیحدہ تاریخ کا حامل ہے ، جغرافیائی طور پر ہندوستان سے منفرد خطہ ہے ۔ فضل الدین نے اپنے آپ کو چوہدری رحمت علی کا ہم خیال سمجھا جنہوں نے پاکستان کا نام تجویز کیا تھا ۔ وہ اس امر سے متفق تھے کہ یہ خطہ ارضی ہندوستان سے علیحدہ ہے اور اس کا قیام خدائی فیصلہ ہے ۔

ایسی ہی دیگر مثالوں میں چوہدری چندولعل ، فضل الہیٰ ، صحافی ایلمر چوہدری (آخر الذکر سن 65 کی جنگ کے ہیرو اور نامور ماہر تعلیم اسکوارڈن لیڈر سیسل چوہدری کے والد ہیں ) اور بی ۔ایل رلیارام شامل ہیں ۔ لاہورکی مسیحی آبادی نے قائد عظم کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اور تحریک پاکستان میں اپنی حمایت کا یقین دلانے کے لیے قائد کے لئے بہت سی استقبالیہ تقریبات سجائیں ۔ 1942 میں کنگز گارڈن لائل پور ( موجودہ فیصل آباد) میں ایک عظیم استقبالیہ رکھا گیا ۔ اس تقریب کےاگلے روز لاہور میں لورنگزان کے بڑے ہال میں ایک عظیم استقبالیہ رکھا گیا جس میں محترمہ فاطمہ جناح ، سر سکندر حیات اور نواب ممدوٹ بھی شریک تھے ۔ اس موقع پربابائے قوم نے فرمایا ۔

” ہم آپ لوگوں کی اس حمایت کو کبھی نہیں بھولیں گے “۔

اب ذرا دیوان ایس ۔پی سنگھا اور ان کے تاریخی کرادر کی طرف واپس آئیں ۔ 3 جون سن 47 کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی جانب سے تقسیم ہند کے منصوبے کے اعلان کے بعد پنجاب کی مسیحی آبادی اور دیوان ایس ۔پی سنگھا نے تقسیم پنجاب کی شدید مخالفت کی اور یہ تقاضا کیا کہ پورے پنجاب کو پاکستان میں شامل کیا جائے ۔ جوشوا فضل الدین نے اپنے اخباری بیان میں کانگریس کو خبردار کیا کہ اگر یہ صوبہ تقسیم ہوا تو شدید انسانی بحران جنم لے گا ۔

پنجاب کی قانون ساز اسمبلی نے 23 جون 1947 کو ایک اجلاس بلایا جس میں غیر تقسیم شدہ پنجاب کے متعلق ارکان کی رائے لی گئی کہ کیا اسے ہندوستان میں شامل کیا جائے یا پاکستان میں ؟ اسمبلی میں موجود تین مسیحی ارکان اس اجلاس سے پہلے ڈیوس روڈ پر واقع دیوان ایس۔پی سنگھا کی رہائش گاہ پہ اکٹھے ہوئے اور یہ متفقہ فیصلہ کیا کہ وہ پورے پنجاب کو پاکستان میں شامل کیے جانے کے حق میں اپنا ووٹ دیں گے ۔ اجلاس کے روز صبح کے وقت ماسٹر تارا سنگھ جو کہ ایک مسلح سکھ گروہ اکالی دل پارٹی کے سربراہ تھے پنجاب اسمبلی کی سیڑھیوں پہ کھڑے ہوگئے اور اپنی کرپان نکال کر یہ دھمکی دی کہ جو ممبر بھی پنجاب کو پاکستان میں شامل کرنے کے حق میں ووٹ دے گا وہ اس کی جان لے لیں گے۔ اسی اثناء میں دیوان ایس ۔پی سنگھا اسمبلی کی سیڑھیاں چڑھے اور ماسٹر تارا سنگھ سے کہا کہ وہ پاکستان کے حق میں ووٹ دیں گے جو کچھ کرنا ہے کرلو۔ دنگا شروع ہوگیا مگر جلد ہی دوسرے اراکین نے بیچ بچاؤ کروا دیا ۔ رائے شماری کے بعد نتیجہ یہ تھا کہ 88 اراکین نے پنجاب کو ہندوستان میں شامل کرنے کے حق میں رائے دی جبکہ 91 ووٹ پاکستان کے حق میں تھے ۔ جو تین ووٹ پاکستان کے حق میں زائد تھے درحقیقت چار ووٹ ، وہ ان مسیحی اراکین کے تھے ۔ دیوان بہادر ایس ۔پی سنگھا ، جناب سیسل گبن اور جناب فضل الہیٰ ، دیوان صاحب نے دوسرا ووٹ اسمبلی اسپیکر کی حیثیت میں بھی پاکستان کے لیے استعمال کیا ۔ اس طرح یہ فیصلہ ہوا کہ پنجاب کو پاکستان میں شامل کیا جائے گا ۔

تاہم تقسیم پنجاب کا المیہ ابھی سامنے آنا تھا ۔ جب باؤنڈری کمیشن کے معاملات ہورہے تھے تو دیوان بہادر سنگھا نے مسیحی برادری کی نمائندگی کرتے ہوئے پرزور اصرا ر کے ساتھ کہا کہ مسیحی آبادیوں کو بھی مسلم آبادیوں میں شمار کیا جائے اور تقسیم کے وقت ان کے علاقوں کو پاکستان میں شامل کیا جائے ۔ چوہدری چندولعل نے مسیحی برادری کے وکیل کی حیثیت سے کام کیا ۔ انہوں نے پٹھانکوٹ اور گرداسپور کے مسیحیوں کو جا جاکر یہ تلقین کی کہ وہ پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ کریں ۔ جناب سیسل گبن نے باؤنڈری کمیشن کے سامنے یہ مقدمہ رکھا کہ لاہور شہر کو مغربی پنجا ب میں شامل کیا جانا چاہیئے ۔ ( چند پڑھنے والوں کے لئے شائد یہ حیرت کا باعث ہو کہ کیا اس تاریخی شہر کے لئے بھی ایسا کوئی معاملہ پیش آیا تھا ؟جی ہاں، یہ ایسا ہی تھا ) ۔ جناب سیسل گبن نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ پنجاب میں رہنے والے اینگلو انڈینز مسیحیوں کو پاکستان منتقل کیا جائے ۔

جب پنجاب باؤنڈری کمیشن کی جانب سے تقسیم کے کچھ ہی دن بعد تقسیم پنجاب کی لکیر واضح ہوئی تو جس آواز نے سب سے پہلے اس پر تنقید کی وہ دیوان بہادر سنگھا کی آواز تھی ۔ انہوں نے کہا کہ یہ تقسیم پاکستان کی معیشت پہ حملہ ہے کیونکہ اس کے سبب کشمیر تک ہندوستان کے قبضے کو ممکن بنایا گیا ہے ۔

واضح طور پر ظاہر ہے کہ مسیحی برادری نے پاکستان کے مقصد اور قیام کے حق میں جدوجہد کی کیونکہ انہیں یقین تھا کہ برابری اور انصاف پر مبنی پاکستانی سماج میں ان کے لئے امان ہوگی جبکہ ذات پات پر تقسیم ہندوستانی سماج ان کے لئے معاون نہیں ہوگا۔ انہیں یقین تھا کہ پاکستان اقلیتوں کے لئے ایک محفوظ ملک ہوگا ۔ موجودہ ہندوستان میں ہندوتوا کے متشدد نظریات پر قائم ہوئے جتھوں کی جانب سے اقلیتی برادریوں پر ہونے والے مظالم سے یہ خدشات کسی حد تک درست معلوم ہوتے ہیں ۔

لیکن اس تصویر کا دوسرا حصہ دیکھتے ہیں ۔ تقسیم ہند کے بعد کی پنجاب اسمبلی میں دیوان بہادر ایس۔پی سنگھا نے پنجاب اسمبلی کے سپیکر کی حیثیت میں اپنی ذمہ داری بہت اعزاز سے نبھائی تاہم قرارداد مقاصد کی منظوری کے بعد انہیں یہ عہدہ چھوڑنا پڑا کیونکہ ایک مسلم ہاؤس میں ایک غیر مسلم اسپیکر کی موجودگی شائد کچھ عناصر کو قبول نہیں تھی ۔

لیکن آج کیا ہے ؟ آج مسیحیوں کو ذات پات جیسا بلکہ اس سے زیادہ امتیازی رویہ دیکھنا پڑتا ہے اور یہ سب ذات پات کو ماننے والے ہندو نہیں بلکہ مسلمانوں کے ہاتھوں ہورہا ہے ۔ تعلیم یافتہ گوانز اور اینگلو انڈینز اسی امتیازی رویئے اور چھوت چھات کے سبب ملک چھوڑ کر جاچکے ہیں ۔ ایک خوبصورت ثقافت جس کی بنیاد تکثیریت تھی اب ختم ہوچکی ہے ۔

اس سے بھی بدتر یہ کہ مسیحیوں کے خلاف تشدد اب روزمرہ کا معمول بن چکا ہے ۔ گرجوں پر حملے ہوتے ہیں ۔ مسیحیوں کے گھروں کو جلادیا جاتا ہے ۔ معصو م لوگ قتل کردیئے جاتے ہیں ۔ پنجاب ایسا صوبہ ہے جہاں مسیحیوں کے خلاف زیادتیوں کے واقعات کی تعداد سب سے زیادہ ہے ۔ یہ وہی صوبہ ہے جسے پاکستان میں شامل کروانے کے لئے مسیحیوں کے رہنماء دیوان بہادر ایس ۔پی سنگھا نے انتھک محنت کی تھی ۔

ترجمہ : شوذب عسکری بشکریہ : فرائیڈے ٹائمز

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے