یہ ہمیشہ منتخب ہونے والے اصل میں کون ہیں ؟

گزشتہ کئی انتخابات میں الیکٹبلز کا ہماری سیاست میں کردار سیاسی تبصروں کا موضوع ہوتا ہے لیکن جتنا شور و غلغلہ اس انتخاب میں الیکٹبلز کے حوالے سے اٹھا وہ منفرد ہے عمران خان کا کہنا ہے کہ انتخابات میں کامیابی پیسے اور الیکٹبلز کے بغیر ممکن نہیں۔

ڈاکٹر خلیل راجن پور سے تعلق رکھتے ہیں ان کی ایک تحریر نے اس حوالے سے کافی شہرت پائی ان کا کہنا ھے کہ جب وہ لڑکپن میں تھے تو سردار جعفر خان لغاری جنرل ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ کے رکن نامزد ھوئے ڈاکٹر خلیل کو جب اعلیٰ تعلیم کے دوران سیاسی شعور حاصل ہوا تو وہ محترمہ بینظیر بھٹو کی جمہوری جدوجہد کے حامی ہوئے ۔

1988 کے انتخابات میں جب مقابلہ جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں کے درمیان برپا تھا تو سردار جعفر لغاری پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر امیدوار تھے لہذا ووٹ ان کے پلڑے میں گیا اس کے بعد کئی جمہوری اور غیر جمہوری حکومتیں آئیں لیکن ان میں ایک قدر مشترک تھی کہ بر دفعہ امیدوار جعفر لغاری ھی ہوتا تھا خواہ ٹکٹ آئی جے آئی کا ہو ن لیگ کا ہو قاف لیگ کا ہو یا پیپلز پارٹی کا ڈاکٹر خلیل عمر کے اس حصے میں اچھی طرز حکمرانی اور اداروں کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں وہ تحریک انصاف کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں لیکن اس دفعہ بھی ھمیشہ کی طرح راجن پور سے تحریک انصاف کے امیدوار سردار جعفر لغاری ہی ہیں ۔

جمہوریت انتخابات کے ذریعے مسابقت کی فضا قائم کرتی ہے اور اس طرح نئے طبقات سیاسی نظام میں داخل ہوتے ہیں لیکن پاکستان کی سیاست میں الیکٹبلز خاندانی سیاست کا راج اور تسلط بجائے کمزور ہونے کہ مزید پختہ ہو رہا بے
الیکٹبلز سے مراد وہ افراد یا خاندان ہیں جو ذاتی اثر و رسوخ رکھتے ہیں ان کا ذاتی ووٹ بنک کسی سیاسی جماعت کا محتاج نہیں ھوتا گذشتہ کئی انتخابات کے نتائج ان کے اس تاثر کو تقویت پہنچاتے ہیں پارٹی کوئی بھی ہو ان کا ذاتی خاندانی سماجی اثر و رسوخ انہیں پارلیمنٹ اور اقتدار کی راہدایوں میں لا پہنچاتا ہے ۔

قیام پاکستان سے قبل نوآبادیاتی دور میں ان اثر و رسوخ رکھنے والے افراد کو انگریز سرکار کی حمائت کے بدلےزرعی زمین وظائف اور القابات بھی دیئے گئے برطانوی راج نے نمبرداری اور ذیلدادی کا نظام قائم کیا جس کے ذریعے سے اس طبقے کا مقامی سیاست میں اہم کردار ہوگیا حکومت شہریوں سے براہ راست رابطے استوار کرنے کے بجائے ان لوگوں کے ذریعے مخاطب ھوتی بہت سی جگہوں پر ان لوگوں کو مجسٹریسی کے اختیارات بھی دئیے گئے ان کے خاندانوں پر سرکاری ملازمتوں کے دروازے کھولے گئے اور یوں یہ طبقہ لائل محمدن کہلایا ۔

قیام پاکستان کے دوران آخری لمحات میں جب پاکستان کا قیام واضح حقیقت بن گیا تو یہ یونینسٹ جاگیردار مسلم لیگ میں شامل ہوگئے ایسے ھی ایک موقع پر علامہ اقبال نے ان کی مسلم لیگ میں جوق در جوق شمولیت پر قائد اعظم کو خط میں لکھا کہ کہیں اتنی بڑی تعداد میں ان کی مسلم لیگ میں شمولیت سے مسلم لیگ زمیندارہ لیگ تو نہیں بن جائے گی ۔

آج لاھور میں تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے علامہ اقبال کے پوتے الیکشن کی سائنس نہ جاننے اور الیکٹبلز کی تعریف پر پورا نہ اترنے کے باعث ٹکٹ سے محروم ھیں قیام پاکستان کے بعد جب قائدِ اعظم کی رحلت اور لیاقت علی خان کی شہادت ہوئی تو پنجاب کے دو جاگیرداروں دولتانہ اور ممدوٹ کے درمیان پارٹی قیادت اور اقتدار کی رسہ کشی شروع ہوئی جو بالآخر جنرل ایوب خان کے پہلے مارشل لاء پر منتمج ہوئی ۔

جنرل ایوب جنرل ضیا جنرل مشرف کے آمرانہ ادوار ہوں یا ذوالفقار علی بھٹو بینظیر بھٹو نواز شریف کی جمہوری حکومتیں الیکٹبلز مقامی انتخابی سیاست پر حاوی رہے اور اہم عہدوں پر فائز تھے ملتان کے قریشی خاندان سے تعلق رکھنے والے شاہ محمود قریشی 1947 کے انتخابات میں یونینسٹ پارٹی کے ٹکٹ پر مسلم لیگ کے امیدوار کے مقابلے میں میدان میں اترے اور آج انہی کے پوتے شاہ محمود قریشی ملتان سے تحریک انصاف کے امیدوار ہیں بھٹو دور میں شاہ محمود قریشی کے چچا نواب صادق حسن قریشی وزیر اعلیٰ پنجاب تھے ۔

جنرل ضیاء الحق کے دور میں شاہ محمود قریشی گورنر پنجاب تھے شاہ محمود قریشی وزیر نوے کی دھائی میں وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف کی کابینہ میں وزیر خزانہ تھے پھر وہ پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر بنے پیپلز پارٹی کی حکومت میں وزیر خارجہ بنے ۔

جہاں اس اثر و رسوخ کی وجوہات میں سے ایک پیری مریدی ھے مزارات گدی نشینی نے ان کے سیاسی اثر و رسوخ کے ساتھ ساتھ روحانی اور مذھبی اثر ورسوخ بھی قائم کیا مریدین اندھی تقلید کے ذریعے ان سے اظہار عقیدت کرتے ہیں ان کے مریدین نہ صرف انہیں ووٹ دیتے ہیں بلکہ دوسرے حلقوں سے تعلق رکھنے والے مریدین بھی ان کی ہدایت پر ووٹ دیتے ہیں یہی وجہ ہے شاہ محمود قریشی کو ان کی پارٹی نے سندھ کے جن حلقوں سے انتخابات میں اتارا بے وہاں ان کے مریدین کی خاطر خواہ تعداد پائی جاتی ہے۔

پیروں کے علاؤہ جاگیرداروں پر مشتمل سیاسی اشرافیہ زمین کے ذریعے ووٹرز پر اپنا تسلط قائم رکھتی ہے جنوبی پنجاب سے لے کر اندرون سندھ تک بہت سے حلقوں میں یہ مقابلہ دو بااثر زمینداروں میں ہوتا ہے اور ان کے مزارعے ان کی حمائت پر مجبور ہوتے ہیں ان کے حلقوں میں قصبات میں پارٹی ووٹ بھی پایا جاتا ہے جو پارٹی ٹکٹ کے ذریعے ان کی جیت کو یقینی بنا دیتا ہے مختلف سرداروں جاگیرداروں میں موثر انتخابی دھڑے بندیاں بھی ہوتی ہیں جیسے راجن پور میں مزاری دریشک کھوسہ قبائل کا اتحاد اس سلسے میں ذات برادری بھی اھم کردار ادا کرتی ہے

ریاست کمزور ہے قومیت کا پہلو بھی مضبوط نہیں لہذا ان دیہی علاقوں کے ووٹر اپنی ذات برادری کے سماجی روابط کے زیر اثر ووٹ دیتے ھیں اکثر اوقات مخالف امیدوار دوسری برادری یا قبیلہ سے تعلق رکھتا ہے تو ایسے میں ذات برادری اور قبائلی تفاخر کے جذبات ابھارے جاتے ہیں ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کی سیاسی شخصیات قبائلی تمن دار کا ٹائٹل بھی رکھتی ھیں لہذا ایک لغاری یا مزاری کے لئے اپنے تمن دار سردار کو ووٹ دینا معمولی بات ہے ۔

عموماً بلدیاتی انتخابات اور ادارے سیاست میں نئے طبقات کی شمولیت کا باعث بنتے ھیں لیکن پاکستان میں بدقسمتی سے زیادہ تر بلدیاتی انتخابات دور آمریت میں ہوئے وہ جنرل ایوب کا بنیادی جمہوریتوں کا نظام ہو ضیا الحق کی مجلس شوریٰ یا جنرل مشرف کا ڈسٹرکٹ ناظم کا بلدیاتی نظام کیونکہ یہ الیکٹبلز آمریتوں کے ہم رکاب ھوتے ھیں ۔

مقامی سیاست پر ان خاندانوں کا تسلط بلدیاتی نظام کے ذریعے مزید گہرا ہوا جنرل مشرف کے دور میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں شاہ محمود قریشی نے قومی سیاست کے بجائے ملتان کا ضلع ناظم بننا پسند کیا اسی طرح دیگر بہت سے اراکین اسمبلی نے اسمبلیوں کی رکنیت سے استعفی دے کر ضلعی ناظم منتخب ہونے کو ترجیح دی جو خود اس میدان میں نہ اتر سکے انہوں نے اپنے بھائی بیٹے بھتیجے کے ذریعے مقامی سیاست پر بالادستی قائم رکھی۔

رشتہ داریاں بھی الیکٹبلز کے اثر و رسوخ کے پھیلاؤ میں مددگار ثابت ہوتا ہے اس ضمن میں ایک تو وراثتی رشتے ہیں جن کے ذریعے آپ کے خاندانی سیاسی اثر و رسوخ کو تقویت ملتی ہے اور دوسرے دوسرے خاندانوں میں شادی کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے ملتان سے تعلق رکھنے والے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی رشتہ داریاں کئی اضلاع اور کئی صوبوں تک محیط ہیں۔

سابق گورنر مخدوم احمد محمود ان کے ہم زلف ہیں جہانگیر ترین مخدوم احمد محمود کے بہنوئی ہیں سندھ کا پیر پگارا خاندان بھی کئی رشتوں سے یوسف رضا گیلانی کا قریبی رشتے دار ھے یوسف رضا گیلانی کے ماموں اوکاڑہ حجرہ شاہ مقیم کے پیر ہیں ان کے خاندان کی رشتہ داریاں ملتان کے قریشی خاندان سے بھی ہیں یہی وجہ تھی کہ محترمہ بینظیر بھٹو نے صدر کے عہدے کے لئے کسی نظریاتی راہنما کے بجائے سردار فاروق لغاری اور پھر آصف علی زرداری نے 2008 میں یوسف رضا گیلانی کو بطور وزیراعظم نامزد کیا ۔

تحریک انصاف میں بھی شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے درمیان مقابلہ آرائی اور دھڑے بندی پارٹی میں اثر و رسوخ حاصل کرنے کے حوالے سے بے دونوں شخصیات پارٹی میں الیکٹبلز کو شامل کروانے کی دوڑ میں مصروف تھے جو الیکٹبلز جس کے ذریعے سے پارٹی میں شامل ہوں گے وہ اس کی لابی اور دھڑے کا حصہ بن جاتے ہیں ۔

ان با اثر شخصیات کی رشتہ داریاں صرف بااثر سیاسی اشرافیہ تک محدود نہیں بلکہ اعلیٰ افسر شاھی عسکری حکام اور کاروباری شخصیات بھی اس فہرست میں شامل ہیں رحیم یار خان کی کاروباری سیاسی شخصیت چودھری منیر کی شریف خاندان اور بااثر لوگوں سے رشتہ داریوں نے اس خاندان کے سیاسی اثر و رسوخ میں بھی اضافہ کیا گجرات کا چوھدری خاندان اس ضمن میں بہت مشہور اور باثر بے ۔

ان کے خاندان کی رشتہ داریاں اٹک کے کھٹر خاندان سرگودھا کے چیمہ خاندان منڈی بہاوالدین کے وڑائچ خاندان سیالکوٹ کے چیمہ خاندان وزیر آباد کے چھٹہ خاندان میانوالی کے روکھڑی خاندان اور ھری پور کی گوھر ایوب خاندان کے ساتھ جڑی ہوئی بے اس کے علاؤہ بہت سے اعلیٰ سول اور عسکری حکام سے ان کی قریبی رشتہ داریاں ھیں اس کے علاؤہ اشرافیہ کے اعلی تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم رھنے کی وجہ سے ان لوگوں کے سیاسی اور سماجی روابط میں اضافہ ہوتا ہے۔

ایچی سن کالج گورنمنٹ کالج لاہور ایف سی کالج لارنس کالج وغیرہ سے وابستگی ان لوگوں کے سیاسی اور سماجی روابط میں اضافہ کرتی ہے اور ایک لابی کی حیثیت اختیار کرتی ہے پاکستان کے اعلی افسر شاہی سیاستدان ان اداروں سے تعلق رکھتے ہیں۔

عمران خان چودھری نثار اور سابق وزیر اعلی کے پی کے پرویز خٹک ایچی سن کالج میں کلاس فیلو رہے یہی وجہ ہے کہ 2013 کے انتخابات میں کے پی کے اسمبلی کے انتخابات میں بہت سے نوجوان اور پہلی دفعہ رکن اسمبلی منتخب ہونے والے لوگ اسمبلیوں میں پہنچے لیکن تبدیلی کے دعویدار عمران خان نے اپنے کلاس فیلو اور دوست عمران خان کو وزیر اعلی کے لئے نامزد کیا چودھری شجاعت حسین کے ایف سی کالج میں کلاس فیلو جنرل مشرف کے دوست اور پرنسپل سیکرٹری طارق عزیز نے دونوں کے درمیان رابطے استوار کئے اور جنرل مشرف کے اقتدار میں چودھری خاندان کی گنجائش پیدا کی اور یوں چودھری پرویز الٰہی کا وزیر اعلیٰ بننے کا خواب پورا ہوا اور چوھدری شجاعت وزیراعظم بنے ۔

آج تمام سیاسی جماعتیں ان الیکٹبلز کے ہاتھوں یرغمال ہیں آصف علی زرداری پنجاب میں پیپلز پارٹی کا احیا الیکٹبلز کے ذریعے کرنا چاہتے تھے جنہوں نے آخری وقت پر جنوبی پنجاب صوبہ محاذ میں شمولیت اختیار کرلی اور منظور وٹو جیسے دوستوں نے آزاد الیکشن لڑنے پر ترجیح دی اور مسلم لیگ ن نے جن بہت سے الیکٹبلز کو مخلص اور درمیانے طبقے کے نظریاتی کارکنوں پر ترجیح دی۔

انہوں نے جیپ کے نشان پر الیکشن لڑنے کو ترجیح دی جب تک سیاسی جماعتیں عوام کی جڑوں میں اور نچلی سطح تک منظم نہ ہوں گی بلدیاتی ادارے نچلی سطح تک مضبوط نہ ہوں گے سیاست نظریات اور ایشوز کے گرد نہیں گھومے گی ہماری سیاست پر الیکٹبلز کا تسلط قائم رہے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے