خواجہ سرا کیا محض تفنن طبع کا عنوان اور فحاشی کا استعارہ ہیں یا وہ ایک انسانی وجود رکھتے ہیں جو احترام کا حقدار بھی ہے اور بطور شہری جس کے کچھ حقوق بھی ہیں؟ کیا ہمارے سماج ، اہلِ مذہب اور ریاست کے پاس اس سادہ سے سوال کا کوئی جواب ہے ؟
سماج کا ہم سب حصہ ہیں اور خواجہ سراؤں کے ساتھ اس کا جو رویہ ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ، امر واقع یہ ہے کہ بد ترین سلوک ہے جو اس سماج میں ان سے روا رکھا جاتا ہے ۔ معاشرے نے انہیں ایک انسانی وجود کے طور پر قابل احترام نہیں سمجھا ۔ احترام تو کیا وہ کسی ہمدردی کے مستحق بھی کم ہی سمجھے گئے ۔ اب وہ تفنن طبع کا عنوان ہیں یا نفرت کا نشانہ ۔ معاشرے نے انہیں اس قابل نہیں چھوڑا کہ وہ ایک عام انسان کے طور پر معمول کی زندگی گزارنا چاہیں تو گزار سکیں ۔ یہ سارے راستے ان کے لیے بند کر دیے گئے ہیں ۔ ان سے سماجی تعلقات تک رکھنا کسی کے لیے ممکن نہیں رہنے دیا گیا ۔
کیا کبھی آپ نے سوچا کہ یہ کیسا معاشرہ ہے جو کتوں بلیوں تک کے حقوق کی باتیں تو خوب اہتمام سے کرتا ہے لیکن زندہ انسانوں کو انسان سمجھ کر ان سے سماجی تعلقات قائم نہیں کر پاتا ۔ چنانچہ ایک ایسی خوفناک بے گانگی جنم لے چکی ہے کہ کسی خواجہ سرا سے اجتماعی زیادتی کی خبر اخبارات میں چھپ جاتی ہے لیکن کہیں سے کوئی ایک مذمتی بیان تک نہیں آتا ۔ کیا کبھی آپ نے سوچا کہ یہ بھی تو مر جاتے ہوں گے پھر ان کا جنازہ اٹھتے ہم نے کبھی کیوں نہیں دیکھا ؟ ان کی نماز جنازہ کا اعلان ہوتے ہم نے کبھی کیوں نہیں سنا ؟ کیا اللہ کی مخلوق کی نماز جنازہ میں شرکت کرنے سے بھی پدر سری معاشرے کی ’ مردانگی‘ خطرے میں پڑ جاتی ہے ؟ یہ مرتے ہیں تو انہیں رات کی تاریکی میں قبر میں اتار دیا جاتا ہے ، کیا کبھی کسی نے سوچا کہ کیوں؟ کیا کبھی اس معاشرے نے ان سے کسی بھی سطح پر کوئی سماجی تعلق رکھا ؟ اگر نہیں تو اس کی وجہ کیا ہے؟
اہل مذہب کا معاملہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ سماج انہیں تفنن طبع کا عنوان سمجھتا ہے تو اہل مذہب کے نزدیک بالعموم وہ بدی اور فحاشی کا استعارہ ہیں ۔ معاشرے میں اگر کوئی غلط رجحان پیدا ہو چکا ہے تو اہل مذہب اس رجحان کی حوصلہ شکنی کر سکتے ہیں اور سماج کی تہذیب بھی ۔ لیکن اس معاملے میں اہل مذہب کا عمومی رویہ بھی وہی ہے جو ناتراشیدہ سماج کا ہے ۔ ان کو دیکھتے ہی اہل حق کا تقوی خطرے میں پڑ جاتا ہے اور وہ منہ نفرت سے منہ دوسری طرف پھیر لیتے ہیں ۔ خیر اور شر ہر جگہ موجود ہے اور نیکی اور بدی کا رجحان بھی ۔ خواجہ سراؤں میں ایسے بھی ہیں جو دین کی طرف رجحان رکھتے ہیں ۔ لیکن ہم نے اسلام آباد میں دیکھا کہ ان میں سے کچھ نے مسجد میں جا کر نماز پڑھنے کی کوشش کی تو انہیں اس سے روک دیا گیا ۔ خدا کے بندوں پر خدا کے گھر کے دروازے بند دیے گئے اور کسی نے اس پر احتجاج تک نہ کیا ۔
اب آ کر تبلیغی جماعت نے اس طلسم کو توڑا ہے اور اس سماج نے حیرت سے پھٹی آنکھوں سے دیکھا اور سنا کہ تبلیغی اجتماع میں خواجہ سرا بھی موجود ہیں ۔تبلیغی جماعت اگر اس کام کو تسلسل سے آگے بڑھائے تو یہ بہت بڑا کام ہو گااور اس سے معاشرے کی بیمار نفسیات میں بھی فرق پڑے گا ۔ اسلامی نظریاتی کونسل لایعنی اور عجیب و غریب قسم کے معاملات پر قوم کی رہنمائی مسلسل فرماتی آتی ہے ، اب جب وہاں برادر مکرم خورشید ندیم اور جناب ڈاکٹر قبلہ ایاز جیسے لوگ موجود ہیں تو مطالبہ اور توقع کی جانی چاہیے کہ کونسل اس سنجیدہ معاملے پر بھی کوئی رہنما اصول وضع فرما دے ۔ بلکہ میں تو یہ بھی کہوں گا کہ تبلیغی جماعت کی کوششوں سے اگرخواجہ سراؤں میں سے دین کا کوئی سنجیدہ طالب علم سامنے آتا ہے تو اسے اسلامی نظریاتی کونسل کا رکن بنا دینے میں کوئی حرج نہیں ۔ بلکہ صرف اسی ادارے میں نہیں اہلیت کی بنیاد پر ہر ادارے کے دروازے ان پر کھلے ہونے چاہییں ۔ جہاں مرد و خواتین بیٹھ سکتے ہیں وہاں اگر قابلیت ہے تو خواجہ سرا کیوں نہیں بیٹھ سکتے؟
مسلمان سماج کا کبھی یہ رویہ نہیں رہا جس کا مظاہرہ ہم کر رہے ہیں ۔ مغلیہ عہد میں انہیں محلات میں اہم ذمہ داریاں دی گئیں تھیں اور ان کی عزت کی جاتی تھی ۔ترکوں کی خلافت عثمانیہ میں تو ان کی قدرومنزلت کا یہ عالم تھا کہ مساجد کی خدمت پر یہ لوگ مامور تھے۔ مسلمان معاشرے نے کبھی انہیں اس نفرت اور حقارت سے نہیں دیکھا جس کا انہیں اب سامنا ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ فکری تبدیلی پھر کیسے واقع ہوئی؟
روشن خیال احباب بد مزہ تو ہوں گے لیکن اس بدترین رویے کا ذمہ دار برطانیہ ہے۔ برطانیہ نے جب برصغیر پر قبضہ کیا تو 1871 میں یہاں ” Criminal Tribes Act” نافذ کر دیا اور پوری کی پوری خواجہ سرا برادری کو ’’ مجرم قبیلہ‘‘ قرار دے دیا ۔ کھڑے کھڑے یہ لوگ معاشرے سے کاٹ کر پرے پھینک دیے گئے۔ قانون سازی کے ساتھ ایک سماجی رویے نے بھی جنم لیا اور آج نتائج آپ کے سامنے ہیں۔ 2009میں سپریم کورٹ نے اس ضمن میں کچھ احکام جاری کیے جو ایک قابل تحسین کوشش ہے لیکن اس کے باوجود ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
سب سے پہلے تو ہمیں خواجہ سراؤں کے بارے میں اپنے سماجی رویے بدلنے ہیں۔یہ کام ریاست اور اہل مذہب کی معاونت کے بغیر نہیں ہو سکتا ۔ خطبات جمعہ میں اس معاشرتی المیے کو موضوع بنا لیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ۔
بنیادی کام مگر ریاست کا ہے۔ خواجہ سراوں کی تعلیم و تربیت اور ان کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اول تو اسے یقینی بنایا جانا چاہیے کہ کوئی بچہ اپنے گھر سے نہ نکالا جائے ، لیکن اگر یہ حادثہ ہو جائے تو بجائے اس کے وہ بچہ کسی گرو کے ٹھکانے پر گھنگھرو باندھ کر پیسے کمائے ریاست اسے تعلیم دے۔ ان کی بحالی کا کوئی منصوبہ سامنے لایا جانا چاہیے۔ ابھی تو یہ حالت ہے کہ ایک زخمی خواجہ سرا پشاور کے ہسپتال میں اس لیے مر گیا کہ ڈاکٹر کئی گھنٹے یہ تعین نہ کر سکے کہ اسے مردانہ وارڈ میں رکھا جائے یا زنانہ وارڈ میں۔ اس وقت خواجہ سرا ؤں کے لیے سماج نے سارے دروازے بند کر رکھے ہیں۔ کتنا بڑا المیہ ہے کوئی راستہ ایسا باقی نہیں کہ وہ باعزت روزگار کما سکیں ۔ کچھ ملازمتیں ان کے لیے مختص ہونی چاہییں ا و ر ایسا ممکن نہ ہو تو ان میں کچھ کوٹہ تو لازمی ہونا چاہیے۔ اسی طرح وراثت میں ان کو حصہ دلوانے کے لیے ریاست کو سخت قانون سازی کرنا ہو گی ۔
پارلیمان میں جہاں خواتین کے لیے مخصوص نشستیں ہیں وہیں خواجہ سراؤں کی آبادی کے تناسب سے ان کی مخصوص نشستیں بھی ہونی چاہییں۔ یہ اس سماجی گرہ کو کھولنے کا باعث بنے گاجو خواجہ سراؤں کے بارے میں ہمیں اپنی گرفت میں لے چکی ہے۔
آپ اس انسانی المیے سے ہماری بے نیازی دیکھیے، 19جنوری 2016کو سینیٹ میں بابر اعوان نے سینیٹ میں خوااجہ سراؤں کے لیے ایک بل پیش کیا اسے قائمہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا ۔ وہ آج تک وہیں لٹکا ہوا ہے۔ 21اگست 2017 کو سینیٹر روبینہ خالد نے خواجہ سراؤں کے لیے بل پیش کیا اسے بھی قائمی کمیٹی کو بھیج دیا، یہ ابھی تک وہیں پڑا ہے۔ اسی روز ان کے حقوق کے لیے سینیٹر کریم خواجہ نے ایک بل پیش کیا وہ بھی قائمہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا اور وہ ابھی تک وہاں آرام فرما رہا ہے۔ روبینہ خالد نے فوجداری قانون میں ترمیم کا ایک بل بھی خواجہ سراؤں کے مفادات کے تحفظ کے لیے پیش کیا وہ بھی آج تک قائمہ کمیٹی کے سرد خانے میں پڑا ہے۔ 8 اگست 2017 کو نعیمہ کشور نے قومی اسمبلی میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک بل پیش کیا وہ بھی قائمہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا ۔ کوئی ایک بھی بل قانون کی شکل اختیار نہ کر سکا۔ ایک طرف تو یہ بے نیازی اوردوسری جانب ہماری حساسیت کا یہ عالم ہے کہ حکمران خاندان کے مفادات کے تحفظ کا معاملہ ہو تو فوری طور پر قانون میں تبدیلی کر دی جاتی ہے۔