’’دی پرائم منسٹرسلیکٹ!وِش یُوگُڈ لَک‘‘

آج پارلیمنٹ میں عجیب و غریب ماحول بنا رہا۔وزیراعظم کے انتخاب کے لیے منعقد اجلاس دیر سے شروع ہوا ۔ پہلے پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں نے مہمانوں کی گیلری میں ہڑبونگ مچائی ۔ صحافیوں کو بھی پریشان کیا ۔اس کے بعد پولنگ کا عمل پرسکون طریقے سے مکمل ہوا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی اپنی نشستوں پر لاتعلق بیٹھے رہے ۔انہوں نے کسی بھی امیدوار کی حمایت یا مخالفت نہیں کی۔

عمران خان نے 176ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے مدمقابل شہباز شریف نے 96ووٹ حاصل کر سکے ۔ عمران خان فتح کے بعد کافی سنجیدہ دکھائی دیے ، انہوں نے آج سفید کرتے پر سیاہ واسکٹ پہن رکھی تھی ۔ان ہاتھ میں موٹے دانوں والی تسبیح بھی دکھائی دے رہی تھی ۔
ابھی اسپیکر اسد قیصر نے عمران خان کی تقریر کی دعوت نہیں دی تھی کہ مسلم لیگ نواز کے کارکنوں نے ایوان میں شدید ہنگامہ آرائی اور نعرے بازی شروع کر دی ۔رانا ثناء اللہ نعرے لگانے والوں کو لیڈ کر رہے تھے۔ اسپیکر باربار ان سے خاموش رہنے کی اپیل کرتے رہے ، جب ان کی نہ سنی گئی تو اسپیکر نے پندرہ منٹ کے وقفے کا اعلان کردیا۔ اس دوران اسپیکرچیمبر میں تمام نمایاں سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ وہ اجلاس کو پر امن طریقے چلنے دیں گے ۔ جب دوبارہ اجلاس شروع ہوا تو ہنگامہ آرائی اور نعرے بازی بدستور جاری رہی۔اسی شور شرابے میں عمران خان نے تقریر شروع کر دی ۔

عمران خان نے اپنی تقریب میں کافی سخت لب ولہجہ اختیار کیا ۔ انہوں بات ہی ’’کڑے احتساب‘‘ سے شروع کی ۔ قوم کا لوٹا گیا پیسہ واپس لانے کے عزم کا اظہار کیا ۔ انہوں نے شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن کو چیلنج کیا کہ اگر وہ دھرنا دینا چاہتے ہیں تو کنٹینرز میں انہیں دوں گا ۔ انہوں نے کہا کہ وہ کسی بھی ڈاکو کو این آر او نہیں دیں گے ۔ پارلیمنٹ میں ہر ماہ میں دو بار سوالوں کے جواب دیں گے ۔ عمرا ن خان نے یہ پھبتی بھی کسی کہ وہ کسی ڈکٹیٹر کے پالے ہوئے نہیں ہیں اور نہ ہی ان کا والد کوئی سیاست دان تھا ۔ انہوں نے یہ بات بھی دہرائی کہ وہ کرکٹ کی اڑھائی سو سالہ تاریخ کے پہلے کپتان ہیں جن کی وجہ سے نیوٹرل امپائر لایا گیا ،اسی طرح وہ سسٹم بھی ٹھیک کریں گے۔ انہوں نے نوجوانوں کو بہتر مستقبل کی نوید سنائی ۔ شور شرابے میں وہ اس سے زیادہ بات نہیں کر سکے ۔خطاب کے دوران عمران خان کو ان کی پارٹی کے اراکین نے اپنے حصار میں لے رکھا تھا ۔عمران خان سے جس قسم کی تقریر متوقع تھی وہ نہیں ہوئی ۔ ان کا لب ولہجہ وہی تھا جو ان کے ماضی قریب کے جلسوں میں مشاہدے میں آتا رہا ہے ۔ بعد میں ان ہی کی ہارٹی کے شاہ محمود قریشی نے وضاحت کی کہ عمران خان جو تقریر کرنا چاہتے تھے ، انہیں (قریشی کو)اس کا لفظ لفظ معلوم ہے لیکن مسلم لیگ نواز کے اراکین نے تحمل سے کام نہیں لیا ۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ عمران خان آج سب سے پہلے خود کو احتساب کے لیے پیش کرنے کا اعلان کرنا چاہتے تھے ۔ وہ جمہوریت کی بالادستی پر گفتگو کرنا چاہتے تھے لیکن ایسا ماحول بنایا گیا کہ وہ اپنی تقریرنہ کر سکے ۔

شہباز شریف کی تقریر کے دورا ن تحریک انصاف کے گیلری میں موجود کارکنوں نے وہی کیا جو مسلم لیگ کے اراکین اور کارکنوں نے عمران خان کی تقریر کے دوران کیا ۔شدید نعرے بازی اور شور شرابا ۔ شہباز شریف نے اپنی گفتگو میں حالیہ الیکشن کو پاکستان کی تاریخ کے متنازع ترین اوردھاندلی زدہ الیکشن قرار دیا ۔ انہوں نے کہا کہ وہ بطور احتجاج پارلیمنٹ میں آئے ہیں ۔ الیکشن کے عمل میں ہونے والی مبینہ بے اعتدالیوں ، پولنگ ایجنٹس کو اسٹیشنز سے نکال باہر کرنے ، نتائج کو 48 گھنٹے سے زیادہ مؤخر کرنے، آر ٹی ایس کی خرابی ۔ پولنگ کے عمل کودانستہ سست کرنے جیسی شکایات انہوں نے دہرائیں۔ انہوں نے دھاندلی کے الزامات کی تحقیق کے لیے ایک پارلیمانی کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا جو 30دن میں اپنی رپورٹ پیش کرے ۔ شہباز شریف نے عمران خان پر طنز کرتے ہوئے کہا ہم اپنا حق مانگیں گے لیکن ایوان پر لعنت نہیں بھیجیں گے ، پارلیمنٹ پر حملہ نہیں کریں گے ، ہم ججوں کو راستہ بدلنے پر مجبور نہیں کریں گے ، ہم لوگوں کو ہنڈی کے ذریعے پیسا بھجوانے کی ترغیب نہیں دیں گے۔ ہم غیر ملکی مہمانوں کو دھرنوں کے ذریعے پاکستان کے دورے ملتوی کرنے پر مجبور نہیں کریں گے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے ترقیاتیکارنامے گنوانا شروع کر دیے اور نواز شریف کے ادوار حکومت میں اٹھائے گئے چند اقدامات ایٹمی دھماکے ،امن کی بحالی ، بجلی کی پیداوار اور سی پیک وغیرہ کا ذکر کیا ۔ یہ تقریر کافی لمبی ہو رہی تھی ، اسپیکر نے بالآخر ان کا مائیک بند کرا دیا ۔ شہباز شریف کا خطاب قدرے بہتر تھا لیکن یہ احساس ضرور ہوا کہ ابھی تک وہ ایک ایسے سیاست دان ہیں جن کے دماغ کی سوئی منصوبوں اور انفراسٹرکچر ہی پر رُکی ہوئی ہے ۔ ان کی گفتگو میں ویسا کچھ نہیں تھا جو کہ ایک قومی سطح کے لیڈر سے متوقع ہوتا ہے ۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے خطاب کے دوران پارلیمنٹ میں سکون تھا ، شہباز شریف اپنے ساتھیوں سمیت احتجاجاً جا چکے تھے ۔ بلاول نے کہاکہ ایوان میں موجود دوبڑی جماعتوں نے جو تماشا کیا اس سے قوم مایوس ہوئی ہے۔ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے، اس کا رکن بننے پر خوشی ہے، احتجاج کسی بھی جماعت کا حق ہوتا ہے جبکہ آج سرکاری بنچوں سے بھی احتجاج ہوا ہے۔بلاول بھٹو نے عمران خان کو وزیراعظم بننے پر مبارک باد پیش کی اور کہا کہ عمران خان کسی مخصوص جماعت کے وزیراعظم نہیں بلکہ ملک کے وزیراعظم ہیں، امید ہے خان صاحب نفرت انگیز سیاست کو دفن کرکے آگے چلیں گے۔بلاول بھٹو نے مستونگ حملے کے شہدا ، ہارون بلور ، سراج رئیسانی ، اوراکرام اللہ گنڈاپور کو بھی خراج عقیدت بھی پیش کیا۔ان کا کہنا تھا کہ انتخابات سے قبل اوربعد میں دھاندلی کی گئی، ملک بھرمیں پولنگ اسٹیشنز سے پولنگ ایجنٹس کو باہر نکالا گیا، ہم نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا جبکہ یہ ایوان سپریم ہے اور تمام اداروں کی ماں ہے، میں امید کرتا ہوں کہ اسپیکر تمام جماعتوں کے ساتھ مل کر ہاؤس کو چلائیں گے۔انہوں نے عمران خان کو کرپشن کا خاتمے،پانی کے مسائل حل کرنے کا، لوگوں کو ایک کروڑ نوکریاں اور 50 لاکھ گھر دینے وعدہ بھی یاد دلایا۔بلاول نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان ان پاکستانیوں کے بھی وزیراعظم ہیں جن کو انہوں نے زندہ لاشیں اور گدھے کہا تھا تاہم قوم عمران خان کی طرف دیکھ رہی ہے کہ وہ ان کے مسائل حل کریں گے۔بلاول نے اپنی تقریر میں آزادی اظہار کو تحفظ دینے کی بات بھی کی۔بلاول بھٹو کی تقریر انگریزی اور اردو کا حسین امتزاج تھی ۔ انہوں نے زیادہ گفتگو تو انگریزی میں کی لیکن آخر میں اردو زبان میں بھی بات کی ۔ ان کے تقریر کے دورا ن ایوان میں خاموشی تھی ، وقفوں وقفوں سے تالیاں البتہ بجتی رہیں۔آخر میں انہوں نے عمران خان کو مخاطب کرے کہا : ’’دی پرائم منسٹر سلیکٹ! وِش یو گُڈ لَک‘‘

مجموعی طور پر آج کی ایوان کی کارروائی میں بلاول بھٹو نے سب سے بہتر تقریر کی ۔ ان کی تقریر مندرجات محتاط اور مرتب تھے ۔ الفاظ کا چناؤ بھی بہترین تھا ۔ بلاول پہلی بار انتخابی سیاست میں شامل ہوکر قومی اسمبلی کے رکن بنے ہیں ۔ انہوں نے اپنی پہلی ہی تقریر سے اپنے بارے میں یہ پیشین گوئی ممکن بنا دی ہے کہ اگر وہ یونہی آگے بڑھتے رہے تو مستقبل قریب میں ان کا شمار پاکستان کے نمایاں سیاست کاروں میں ہو گا۔ شہباز شریف کافی حد تک ردعمل کا شکار دکھائی دیے ۔ دوسری جانب عمران خان کی تقریر نے کافی منفی تأثر چھوڑا ۔ احتساب کا نعرہ ان کی تقریر کو محیط تھا جو کئی دہائیوں سے اس ملک میں لگایا جا رہا ہے اور اس کے نتائج کبھی بھی مثبت نہیں دیکھے گئے ۔ اگر شاہ محمود قریشی کی یہ منطق مان لی جائے کہ عمران خان کوئی اور تقریر کرنا چاہتے تھے تو بھی فوری تأثر کو زائل نہیں کیا جا سکتا ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان کل اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد اپنی تقریر یا پھر فوری اقدامات کے ذریعے اس تأثر کو زائل کر سکتے ہیں جو آج کی تقریر کے بعد قائم ہوا ہے یا نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے