سعودی عرب: حکومتی پالیسی کے خلاف ‘بیان’ پر امامِ کعبہ گرفتار

سعودی عرب نے امامِ کعبہ شیخ ڈاکٹر صالح الطالب کو مبینہ طور پر حکومتی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنانے پر گرفتار کرلیا۔

قطر کے نشریاتی ادارے الجزیرہ نے امامِ کعبہ کی حراست کی تصدیق کے لیے سعودی عرب میں قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ کی جانب سے جاری بیان کا حوالہ دیا ہے۔

پریزنر آف کنسائینس نامی یہ گروپ سعودی عرب میں مذہبی شخصیات، علما اور مبلغین کی گرفتاری کی نگرانی کرتا ہے اور اس حوالے سے دستاویزات مرتب کرتا ہے۔

مذکورہ گروپ نے امامِ کعبہ کی حراست کے پیچھے موجود وجوہات کے بارے میں بتایا گیا کہ انہیں عام طور پر رائج برائیوں کے خلاف عوامی سطح پر آواز بلند کرنے کی اسلامی ذمہ داری کے حوالے سے دیے گئے ایک وعظ کے باعث گرفتار کیا گیا۔

اس حوالے سے ایک اور عرب ویب سائٹ خلیج آن لائن نے رپورٹ کیا کہ شیخ ڈاکٹر صالح الطالب، جو مکہ میں جج کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں، نے اپنی تقریر میں کنسرٹس اور تفریحاتی تقریبات میں نامحرم مرد و خواتین کے گھلنے ملنے کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

تاہم انہوں نے براہِ راست سعودی حکام پر کوئی تنقید نہیں کی تھی، خیال رہے کہ ان کی گرفتاری کے چند گھنٹوں بعد ہی ان کا انگریزی اور عربی ٹوئٹر اکاؤنٹ بھی ڈی ایکٹِویٹ ہوگیا تھا۔

اس حوالے سے ایک اور عرب ویب سائٹ مڈل ایسٹ مانیٹر نے لکھا ہے کہ ان کے اکاؤنٹس سے کی جانے والی آخری ٹوئٹس حج کے حوالے سے تھیں، تاہم اس بارے میں قطعی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ یہ انہوں نے خود کی تھیں۔

یاد رہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی سربراہی میں سعودی عرب کے قدامت پسند معاشرے میں کئی جدید اصلاحات متعارف کروائی گئیں ہیں، جس کے تحت خواتین کو عوامی اجتماعات میں شرکت کی اجازت کے لیے قوانین میں نرمی بھی کی گئی۔

اس ضمن میں برطانیہ میں موجود سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے کارکن یحیٰی اسری کا الجزیرہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سعودی عرب کے حکام ہر اس شخص پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں جو بااثر ہو اور سماجی اہمیت رکھتا ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ اس میں وہ بھی شامل ہیں، جو خاموش ہیں یا جنہوں نے حکومتی سے وفاداری کا عہد کیا ہوا ہے اور وہ بھی ہیں جو حکومت اور اس کے اقدامات کو سراہتے ہیں، کوئی بھی محفوظ نہیں۔

خیال رہے کہ سعودی فرماں رواں شاہ سلمان کے بیٹے محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے کے بعد سے جون 2017 سے اب تک درجنوں مساجد کے اماموں، خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے رضاکاروں اور شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔

[pullquote]اس سے قبل جولائی میں بھی ایک سعودی عالم بچوں سمیت گرفتار کیا گیا تھا .[/pullquote]

سعودی حکام نے جولائی کے مہینے میں بھی ایک معروف مذہبی عالم کو گرفتار کیا، جسے مذکورہ اقدام کو سخت گیری مذہبی علماء کے خلاف ملک گیر کریک ڈاؤن کی کڑی سمجھا جارہا ہے۔

واضح رہے کہ سعودی عرب کے فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز متعدد مرتبہ اعتدال پسند مذہبی علماء پر زور دے چکے ہیں جو کہ ان کے معاشی اور اقتصادی اصلاحاتی پروگرام کی روشنی میں ہے۔

فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق لندن میں قائم سعودی عرب انسانی حقوق کے گروپ (اے ایل کیو ایس ٹی) کے مطابق سنی مکتبہ فکر کے عالم سفر الحوالی کو ان کے تین بچوں سمیت گرفتار کیا گیا۔

گرفتاری سے متعلق مزید تفصیلات فراہم نہی کی گئی تاہم ان کے حوالے سے مشہور ہے کہ انہوں نے امریکا مخالف اور اسلامی رہنماؤں کے درمیان تفریق کے حوالے سے کام کیا۔

سعودی عرب کے سیکیورٹی اداروں نے مبینہ طور پر بیرونی عناصر کے ساتھ کام کرنے کے الزام میں 7 خواتین کو قید کرلیا جبکہ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا تھا کہ جن خواتین کارکنان کو گرفتار کیا گیا ہے وہ خواتین کے مسائل کے حوالے سے بہت سرگرم تھیں۔

سعودی عرب میں خواتین پر ڈرائیونگ کی پابندی اٹھانے سے ایک ہفتے قبل یہ پیش رفت سامنے آئی جہاں سعودی عرب کی سرکاری نیوز ایجنسی نے ان افراد کو غدار قرار دے کر ان کی تصاویر آن لائن اور اخبارات میں شائع کردیں۔

تیل کی دولت سے مالا مال سعودی عرب کے 32 سالہ ولی عہد محمد بن سلمان نے اپنا منصب سنبھالنے کے فوری بعد قدامت پسندی کی شکار سلطنت میں معاشی، سماجی اور مذہبی اصلاحات کے لیے اقدامات شروع کیے۔

نوجوان ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے ثقافتی اور معاشی طور پر جو تبدیلیاں کی گئی ہیں وہ خلیجی ریاست کی تاریخ میں کبھی دیکھنے میں نہیں آئیں۔

واضح رہے کہ 3 کروڑ 10 لاکھ آبادی والے سعودی عرب میں آدھی آبادی کی عمر 25 سال سے کم ہے۔

اصلاحات کے سلسلے میں شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ایک کریک ڈاؤن کیا جس میں ولی عہد کے مقاصد کو روکنے والے علماء اور کچھ لبرل کو بھی گرفتار کیا گیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے