فارسی زبان کی فراموشی کا خوف

افغانستان میں سنہ 1980 میں روسی جنگ کے دوران افغان آبادی کی ایک بڑی تعداد نے کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ کا رخ کیا اور یہاں آنے والے افغان پناہ گزین نے ال آصف سکوائر کا انتخاب کیاـ

یہاں رہنے والے زیادہ تر لوگ مزدوری پیشہ اور دیہاڑی پر کام کرنے والے ہیں جس میں افغان خواتین نے بھی بڑھ چڑھ کر کام کیا۔

لیکن پچھلے دورِ حکومت میں بننے والے قومی ایکشن پلان کے تحت 14 لاکھ افغان پناہ گزین کو واپس بھیجنے کا اعلان کیا گیا جس کے بعد اس غیر یقینی صورت حال سے نمٹنے کے لیے یہاں رہنے والوں نے اپنی آبائی زبان لکھنے اور پڑھنے کو دوبارہ سے ترجیح دی۔

افغان پناہ گزین کے کمپاؤنڈ کے اندر موجود جمال الدین افغانی سکول میں حال ہی میں ایک بڑی تعداد میں داخلے ہوئے ہیں۔ اس کی ایک اہم وجہ افغان والدین کا خوف ہے کہ ان کی آنے والی نسل فارسی زبان کو فراموش کر دے گی۔

ذِکر اللہ یونسی بھی اسی آبادی کا حصہ ہیں۔ افغانستان کے ضلع بدخشان سے تعلق رکھنے والے ذکر اللہ نے اپنی پرائمری تعلیم پشاور سے حاصل کی اور سنہ 1999 میں کراچی کے علاقے منگھوپیر میں رہے اور پھر ال آصف سکوائر آ گئےـ

ذکر اللہ صبح آٹھ بجے سے شام پانچ بجے تک ال آصف سکوائر کے اس کمپاؤنڈ میں بچوں کو فارسی پڑھاتے ہیں۔ یہ سکول تین کمروں پر مشتمل ہے اور یہاں پڑھنے والے تمام بچے افغان پناہ گزین ہیں۔ کلاسیں اتنی تنگ ہیں کے ایک وقت میں ایک ہی شخص تختۂ سیاہ کے ساتھ کھڑا ہو کر باقی جماعت کے لیے کتاب کا سطر پڑھ سکتا ہےـ

ذکر اللہ کے مطابق اس سکول کی بنیاد سنہ 1971 میں فارسی زبان کے فروغ کے لیے رکھی گئی تھی لیکن گذشتہ 28 سالوں میں جمال الدین افعانی سکول میں فارسی کے علاوہ 13 مضامین پڑھائے جاتے ہیں جن میں انگریزی، جیالوجی اور ریاضی بھی شامل ہیں۔ یہاں پر موجود زیادہ تر لڑکے فارسی سیکھنے آتے ہیں جبکہ لڑکیاں جیالوجی اور ریاضی کو ترجیح دیتی ہیں۔

ذکر اللہ پچھلے 15 سالوں سے اس سکول کے پرنسپل ہیں۔ بچوں میں فارسی سیکھنے کے رجحان پر بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ افغان پناہ گزین کی نئی نسل فارسی پڑھ لکھ نہیں سکتی۔

’جو افغان آبادی کی پرانی نسل ہے وہ اب بھی اردو سمجھ نہیں سکتی لیکن جو نئی نسل ہے وہ فارسی نہیں سمجھ سکتی۔ وہ بول سکتی ہے لیکن جو کتابی لکھائی ہے وہ ان کو صحیح نہیں آتی۔ جو اب کی نسل ہے ان کا اردو کی طرف رجحان بہت ہےـ ممکن ہے کہ تقریباً 10، 20 سال کے بعد یہ سب فارسی زبان کو بھول جائیں گےـ‘

افغان آبادی میں کئی والدین نے بتایا کہ 10 سے 25 برس کے بچوں میں اردو بولنے کا رجحان زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ بچے جب اپنے وطن جاتے ہیں تو خود کو وہاں ’گونگا‘ محسوس کرتے ہیں کیونکہ وہ فارسی اور پشتو نہیں بول سکتےـ

ذکر اللہ نے کہا ’فارسی زبان سیکھنے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ افغانستان جانے پر معاشی مواقع کے حصول کے لیے زیادہ تگ و دہ نہیں کرنی پڑتی۔ اس وقت ہمارے لوگ اس لیے بھی پریشان ہیں کہ اگر افغانستان واپس جائیں تو ان کو فارسی اور پشتو بولنے میں تکلیف کا سامنا ہو گا۔ اس وجہ سے ادھر داخلہ لیتے ہیں۔‘

قندوز، بدخشاں اور کابل سے آنے والی فارسی دان آبادی کے لیے کراچی میں رہتے ہوئے کوئی بھی کام چھوٹا یا بڑا نہیں ہے۔ ال آصف سکوائر کے کمپاؤنڈ میں موجود ایک چھوٹے سے کمرے میں بلقیس اپنے والد اور تین بچوں کے ہمراہ رہتی ہیں۔ یہاں رہتے ہوئے وہ روز 50 کلو آلو چھیل کر آس پاس کے دکانوں میں صرف 100 روپے میں بیچتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فارسی سیکھنے سے کام ملنے میں مدد ملتی ہے لیکن ان کے لیے پاکستان میں رہنا بہتر ہے۔

’فارسی زبان سیکھنے سے یہ ہوتا ہے کہ وہاں جانے پر کام جلدی مل جاتا ہے جس سے دیہاڑی لگ جاتی ہے اور گھر چلانے میں مشکل پیش نہیں آتی۔ یہی بھی وجہ ہے کہ ہمارے بچے اپنی مادری زبان نہ بھول جائیں اس لیے ان کو سکول سے ہی دری اور فارسی کا درس دیا جاتا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں ’لیکن میں دو ماہ پہلے قندوز گئی تھی، وہاں کچھ کام نہیں ہےـ الٹا ان لوگوں نے ہمیں کہا کہ کچھ ہے تو لے آؤ۔‘

پاکستان میں افغان پناہ گزین کب تک رہیں گے یہ تو واضح نہیں ہے لیکن ان کے لیے فارسی زبان کا فروغ اپنی قومی شناخت بچانے کا واحد حل ہےـ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے