پاکستان کی نئی حکومت ابھی تک نان ایشوز میں الجھی ہوئی محسوس ہو رہی ہے ۔ ناقدین مسلسل یہی سوال دہرا رہے ہیں کہ الیکشن کے دوران اپنے100روزہ پلان کااعلان کرنے والے عمران خان نے اس منصوبہ پر عمل شروع کیا یا نہیں ۔وزیراعظم عمران خان نے پہلے مرحلے میں 20 رکنی کابینہ کا اعلان کیا تھا ۔ اس کے بعد مزید چھ وزرا کابینہ کا حصہ بنے ۔ اس کے بعدچاروں صوبوں میں گورنروں کے انتخاب کا مرحلہ طے ہو چکا۔صدر مملکت کے عہدے پر کراچی سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے دیرینہ رہنما ڈاکٹر عارف علوی متمکن ہو چکے ہیں۔ اب ملک کے چند ایک حلقوں میں ضمنی انتخابات معمولی وقفوں سے ہور رہے جن میں مختلف وجوہات کی بناپر خالی ہو جانے والی نشستوں کو پُر کیا جائے گا۔ مجموعی طور پر اس وقت ملک میں وزیراعظم عمران خان اور ان کی سیاسی ٹیم بست و کشاد کی مالک ہے ۔
عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد میڈیا نے سب سے پہلے ان کی رہائش گاہ بنی گالا سے وزیراعظم ہاؤس کے درمیان ہیلی کاپٹر استعمال کرنے پر خوب دھول اڑائی ۔حکومت کا دفاع ناقص اور بچگانہ تھا۔اس کے بعد امریکی سیکریٹری برائے امور خارجہ مائیک پومپیو کی عمران خان سے ٹیلی فونک گفتگو کے بعد اسلام آباد اور واشنگٹن کی الگ الگ تشریحات نے حکومتی اہل کاروں کے سطحی رویے کو عیاں کیا ۔ بعد ازاں مائیک پومپیو اور اپنے چیف آف اسٹاف کے ساتھ پاکستان آئے ، جہاں ان کا ائیر پورٹ پر سرد قسم کا استقبال کیا گیا ۔ پومپیونے وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف سے ملاقات کی لیکن اس کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور پومپیو نے حسب دستور مشترکہ پریس کانفرنس نہیں کی بلکہ شاہ محمود قریشی اکیلے ہی صحافیوں کے سوالات کے بوکھلاہٹ کے ساتھ جواب دیتے پائے گئے ۔
مائیک پومپیو چند گھنٹے پاکستان میں رکنے کے بعد بھارت چلے گئے جہاں ان کا ائیرپورٹ پر وزیرخارجہ سشما سوراج کی سربراہی میں استقبال کیا گیا ۔ اعلیٰ حکام سے ملاقاتوں کے بعد سشما سوراج اور مائیک پومپیو نے مشترکہ پریس کانفرنس بھی کی ۔ اس سارے منظر نامے میں یہ سمجھنا دشوار نہیں کہ خطے میں بننے والے نئے سفارتی اور معاشی ربط و ضبط میں کس کا جھکاؤ کس جانب ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے حکومت کو معاشی صلاح دینے کے لیے ایک مشاورتی کونسل بھی بنائی جن میں ان ماہرین معاشیات کو رکھا گیا ، جن کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں پر عمران خان اعتماد کرتے ہیں ۔ عمران خان نے اپنے 2013ء کے مشہور حکومت مخالف دھرنے میں ایک پاکستانی نژادامریکی ماہر معیشت عاطف میاں کا نام لے کر کہا تھا کہ وہ انہیں اپنا وزیرخزانہ بنائیں گے ۔ وزیرِ خزانہ تو خیر وہ نہ بن سکے لیکن ان کا نام اس ایڈوائزری کونسل میں شامل کر دیا گیا جو معیشت کے مسائل کے حل تجویز کرنے کے لیے تشکیل دی گئی تھی ۔ اس کونسل میں عاطف میاں کی شمولیت کو لے کر پاکستان کے دائیں بازو کے دانشوروں اور مذہبی جماعتوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ سوشل میڈیا پر حکومت کے خلاف سخت مہم چلائی گئی ۔ اعتراض کرنے والوں کا کہنا تھا کہ عاطف میاں احمدی عقیدے سے تعلق رکھتے ہیں اور احمدیوں کو پاکستان کے آئین میں غیر مسلم اقلیت قراردیا جا چکا ہے لہٰذا اس عہدے کے لیے ایسے شخص پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ۔پہلے تو حکومت نے اس پر خاموشی اختیار کیے رکھی ۔ پھر وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے چُپ کا روزہ توڑتے ہوئے عاطف میاں کی کونسل میں شمولیت کا دفاع کیااورکہاکہ ’’کیا ہم اقلیتوں کو اٹھا کر بحیرۂ عرب میں پھینک دیں‘‘ ۔ لبرل مبصروں نے اس ردعمل کو سراہا حالانکہ وہ تحریک انصاف کی حکومت اور وزیراعظم عمران خان کو پسند نہیں کرتے ۔حکومت البتہ دباؤ کا سامنا نہ کر سکی اور پھر اطلاع دی گئی کہ عاطف میاں کو ایڈوائزی کونسل سے الگ ہوجانے کے لیے کہہ دیا گیا ہے ۔
ادھر عاطف میاں نے بھی اپنی ٹویٹس میں اس کی تصدیق کی اور کونسل سے استعفا کا اعلان کر دیا ۔ اس کے بعد بطور احتجاج یکے بعد دیگرے کونسل کے دوارکان عاصم اعجاز خواجہ اورعمران رسول نے بھی استعفا دے دیا۔ اس سارے معاملے کو ہینڈل ل کرنے میں حکومت بری طرح ناکام ہوئی ۔ حکومت کواس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ احمدیوں کے معاملے میں پاکستا ن میں کس قدر حساسیت پائی جاتی ہے ۔ اس قسم کے فیصلے جن کا دفاع مشکل ہو، ایسی کمزور حکومتوں کو نہیں کرنے چاہییں۔
اس کے علاوہ حکومت پر بجلی اور گیس کے نرخ بڑھانے کے حوالے سے بھی کافی تنقید ہو رہی ہے ۔ حکومت کے رویے سے بظاہر یہی لگتا ہے کہ وہ عوام کو ابتدائی دنوں میں کئی بار ’’کڑوے گھونٹ ‘‘ لینے پر مجبور کرے گی ۔ ماضی کی حکومتوں کا طریقہ یہ رہا ہے کہ وہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے سبسڈی کا سہارا لیتی تھیں ۔ اس طرح فوری طور پر عوام پر معاشی دباؤ نہیں آتا تھا، وزیراعظم عمران خان نے حکومت ملنے سے پہلے کشکول توڑنے کے دعوے کیے تھے جو اب ان کے گلے پڑ چکے ہیں۔ ابھی تک حکومت کہہ رہی ہے کہ وہ مزید مالی مدد لینے آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائے گی لیکن تلخ حقائق دیکھ کر لگتا یہ ہے کہ حکومت کو بیل آؤٹ پیکج لینے کے لیے پھر اسی ’’در‘‘ پر جانا ہوگا ۔ ممکن ہے ’’یوٹرن‘‘ لینے کی شہرت رکھنے والے عمران خان اُس وقت کوئی جواز پیش کر دیں ۔ جہاں تک تعلق بیرون ملک منتقل کی گئی دولت واپس پاکستان میں لانے کا دعویٰ ہے تو اس کے لیے ابھی تک پاکستان کا کسی بھی ملک کے ساتھ کوئی ایسا معائدہ نہیں ہے ۔ اس ’’لوٹی ہوئی دولت‘‘ کی واپسی کے ساتھ ملک کی ہر لمحہ زوال پذیر معیشت کو استحکام بخشنے کا وعدہ بظاہر سراب ہی معلوم ہوتا ہے ۔
اس وقت حکومتی سطح پر پانی کے وسائل کو محفوظ بنانے کے لیے کافی پرزور مہم چلائی جا رہی ہے ۔ سب سے پہلے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثارنے اپنی نگرانی میں دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے ہنگامی بنیادوں پر فنڈ کا اعلان کیا تھا اور لوگوں سے چندہ دینے کی اپیل کی تھی ۔ اس فنڈ میں ایک سو اسی کروڑ روپے جمع ہو چکے تھے، پھر وزیراعظم عمران خان نے قوم کے نام ایک ویڈیو پیغام جاری کیا جس میں انہوں نے چیف جسٹس کا فنڈ حکومت کی جانب سے شروع کئے گئے ڈیم فنڈ میں ضم کرنے کا اعلان کیا ۔ انہوں نے بیرون ملک خاص طور پر امریکا اور یورپ میں مقیم پاکستانیوں سے فی کس کم سے کم ایک ہزار ڈالرچندہ دینے کی اپیل کی ۔ اب بعض میڈیا چینلز اس فنڈ کی مہم میں کافی سرگرم ہیں ۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں شمالی علاقوں میں بنائے جانے والے اس دیامر بھاشا ڈیم پر2013ء کے ایک اندازے کے مطابق 14سو ارب ڈالرسے زائدکے اخراجات آئیں گے ۔ لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ آیا عوامی چندے سے اس قسم کے میگا پراجیکٹس بن سکتے ہیں ؟
پاکستان میں ڈیموں کی تعمیر کی باتیں ماضی میں بھی ہوتی رہیں ہیں ۔ اس خدشے کا اظہار باربار کیا جاتا رہا ہے کہ بھارت سندھ طاس معائدے کی خلاف ورزی کر تے ہوئے پاکستان کے حصے کے دریاؤں پر ڈیم بنا رہا ہے لٰہذا ہمیں بھی پانی کو محفوظ کرنے کے اقدامات اٹھانا ہوں گے ۔ کالا باغ ڈیم کا تنازع ابھی تک حل نہیں ہو سکا۔اس پر سیاسی قیادت مستقل طور پر منقسم ہے ۔ دیامر بھاشا ڈیم کے بارے میں حکومت تو کافی پرجوش ہے لیکن صوبہ سندھ کی حکومت کو اس منصوبے پر تکنیکی بنیادوں پر کچھ اعتراضات ہیں ، جن کی جانب اشارہ صوبہ سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ کر چکے ہیں ۔ حکومت کوایسے میگا پراجیکٹس پر کام شروع کرنے کے لیے جہاں مالی اسباب کی ضرورت ہے وہیں ان منصوبوں پر قومی اتفاق رائے بھی درکار ہے۔
ابھی اسی سال پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں لگائے گئے بجلی کے ایک منصوبے نیلم جہلم ہایڈرو پاور پراجیکٹ (969میگاواٹ) کے ایک یونٹ نے کام شروع کیا ہے ۔ اس منصوبے کے لیے دریائے نیلم(کشن گنگا) اور جہلم کے پانی کو پہاڑوں کے نیچے بنائی گئی طویل سرنگوں کے ذریعے ڈیموں میں ڈالا گیا ہے ۔ دریاؤں کے بہاؤ میں کمی آنے سے پاکستانی کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کوپانی کی کمی اور درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافے جیسے سنگین ماحولیاتی خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ مظفرآباد کے شہریوں نے ماحول کو انسان دوست بنانے کے لیے متبادل نظام کی عدم فراہمی کے خلاف احتجاج بھی کیا ہے لیکن ابھی تک مقامی حکومت اور اسلام آباد سرکاراس مسئلے کاکوئی حتمی حل پیش نہیں کر سکی ۔ پانی کے ڈیم ہوں یا دیگر میگا پراجیکٹس ، ان کے ماحول پر پڑنے والے منفی اثرات کو کم سے کم کرنے کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ بصورت دیگر عوام میں بڑھتی ہوئی بے چینی بالآخر انارکی کی راہ کھولتی ہے ، جس کی متحمل حکومتیں نہیں ہو سکتی۔
وزیراعظم عمران خان نے کچھ دن قبل ملک کے چند نمایاں ٹی وی اینکرز اور صحافیوں سے خصوصی ملاقات میں کہا تھا کہ انہیں کم از کم تین ماہ کی چھوٹ دی جائے ۔ اگر کارکردگی تسلی بخش نہ ہو تو پھر تنقید کی جائے۔میڈیا اور حزب اختلاف ظاہر ہے اس خواہش کا ایک حد سے زیادہ احترام نہیں کر سکتے ۔ تنقید ساتھ ساتھ چلتی ہے ۔ یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر اپنی کارکردگی بہتر کرے ۔ ایک چیزالبتہ منفرد دیکھی جا رہی ہے اور وہ ہے وزیراعظم عمران خان اور فوج کا ایک پیج پر ہونا۔ عمران خان کے پیش رو نواز شریف کی فوج کی قیادت کے ساتھ سرد جنگ چلتی رہی جو بالآخر ان کی وزارت عظمیٰ کے خاتمے پر منتج ہوئی۔اب نئی حکومت کے قیام کے بعدآرمی چیف کے مختلف موقعوں پر دیے گئے ’’جمہوریت دوست بیانات ‘‘ اور عمران خان کا ان کو جمہوریت پسند قرار دینا ممکن ہے ملک کو کسی واضح سمت گامزن کر سکے ، امید رکھنے میں کیا حرج ہے!