خیبر پختونخوا میں سرکاری اساتذہ کے بچوں کو اب نجی نہیں سرکاری سکولوں میں پڑھنا ہو گا

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں حکام کے مطابق اب سرکاری سکولوں کے اساتذہ کے بچے نجی سکولوں میں نہیں پڑھیں گے بلکہ انھیں بھی سرکاری سکولوں میں پڑھنا ہو گا۔

صوبائی حکومت نے اس حوالے سے کام شروع کر دیا ہے جبکہ اساتذہ کا کہنا ہے کہ حکومت کا یہ اقدام بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔

وزیراعلی کے مشیر برائے تعلیم ضیاء اللہ بنگش نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے اس بارے میں ایک کمیٹی قائم کی ہے جو یہ معلوم کرے گی کہ کتنے ایسے اساتذہ ہیں جن کے بچے نجی تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ یہ کمیٹی ڈائریکٹر ایجوکیشن فرید خٹک کی سربراہی میں قائم کی گئی ہے اور یہ اساتذہ کے بارے میں تمام اعداد و شمار حاصل کرے گی۔

ضیاء اللہ بنگش نے کہا کہ اب اساتذہ کو خود پر اعتماد کرنا ہو گا کیونکہ جب والدین ان اساتذہ پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجتے ہیں تو اساتذہ خود اپنے آپ پر اعتماد کیوں نہیں کرتے اور بچوں کو نجی تعلیمی اداروں میں پڑھنے کے لیے کیوں بھیجتے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے سابق دور میں سرکاری تعلیمی اداروں کے معیار کو بہتر کرنے کے لیے متعدد اقدامات کیے تھے جن کے نتیجے میں یہ کہا گیا تھا کہ بڑی تعداد میں نجی تعلیمی اداروں سے طلباء اور طالبات اب سرکاری سکولوں میں داخل ہو رہے ہیں۔

ضیاء اللہ بنگش نے کہا کہ انھوں نے خود اپنی بیٹی کو نجی تعلیمی ادارے سے اب سرکاری سکول میں داخل کیا ہے اور اب سب کو مل کر ان سرکاری تعلیمی اداروں پر اعتماد کرنا ہوگا تاکہ ان تعلیمی اداروں کے معیار کو بہتر بنایا جا سکے۔

خیبر پختونخوا میں اس وقت کوئی ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ اساتذہ ہیں۔ حکام کے مطابق اب تک یہ معلوم نہیں ہے کہ کتنے اساتذہ کے بچے سرکاری اور کتنے اساتذہ کے بچے نجی تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہیں۔

اس بارے میں تنظیم اساتذہ کے سربراہ خیراللہ حواری نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر اساتذہ کے بچوں کو سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کا پابند کیا جاتا ہے تو یہ اقدام بنیادی حقوق کے خلاف ہے اور طالب علم حکومت کے اس اقدام کے خلاف عدالتوں میں جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی انسان کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ جہاں چاہے تعلیم حاصل کرے۔

ان سے جب کہا کہ کیا سرکاری سکولوں کے اساتذہ کو خود پر اعتماد نہیں ہے تو ان کا کہنا تھا کہ اس کے لیے تمام حکمرانوں، وزراء، سیکریٹریز اور ڈائریکٹرز سمیت تمام اعلی افسران کو بھی اپنے بچے سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھنے کے لیے بھیجنے ہوں گے۔

اس بارے میں سرکاری سکول کے استاد سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ان اعلیٰ افسران کی جانب سے زبانی احکامات ملے ہیں کہ اساتذہ کی تعداد اور ان کے بچوں کے اعداد و شمار بھیجے جائیں لیکن انھوں نے اس پر اب تک عمل درآمد نہیں کیا کیونکہ انھیں اب تک تحریری طور پر کوئی حکم نامہ موصول نہیں ہوا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے