شدت پسندی اور عدم برداشت کا نیا محاذ

دور حاضر میں سوشل میڈیا کا استعمال ہر خاص و عام کرتا دکھائی دیتا ہے۔ دراصل سوشل میڈیا اس وقت بحث ومباحثے، بات چیت، مکالموں اور رابطے میں رہنے کا سب سے بڑا اور آسان ذریعہ بن چکا ہے۔ ماضی میں رابطے اور مباحثوں کیلئے خصوصاً ملاقات اور محفلیں منعقد کی جاتی تھیں جس میں یار دوست ، رشتے دار مل بیٹھتے تھے۔ پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں کام کی زیادتی اور وقت کی کمی ہونے لگی ،معاشی حالات بھی ایسی محفلوں اور میل ملاقاتوں میں کمی کی بڑی وجہ بنے۔ وہیں سوشل میڈیا نے اس مسئلے کا حل دیکر لوگوں کے درمیان رابطے آسان کر دیے ہیں۔ سوشل میڈیا کا ایک منفی پہلو بھی سامنے آیا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کے بے جا استعمال سے نوجوانوں میں تمیز اور تہذیب کا عنصر کم ہو گیا ہے۔

جب یہ تمام ذرائع نہیں ہوتے تھے تب لوگوں میں زیادہ رواداری اور مروت پائی جاتی تھی۔ دن بدن اس چیٹنگ، ٹوئٹنگ، فیس بکنگ اور اپنے غائبانہ دوستوں کے ساتھ تعلقات میں اضافے کے باعث ہم اپنی ارد گرد کی حقیقی دنیا سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر جو باتیں کی جاتی ہیں اس میں لوگ زبان کی اہمیت کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور ایسے الفاظ چنتے ہیں جن کا لفظی مطلب نہایت کرخت اور چبھنے والا ہوتا ہے۔ میسجز اور کمنٹس کے درمیان لہجے کی بھی سمجھ نہیں آتی اور معمولی انداز سے کی گئی بات بھی کبھی کبھی ایسی معلوم ہوتی ہے جیسے کسی نے طنز کیا ہو۔

ڈیجیٹل اور ٹیکنالوجی کے دور میں ہر شخص اپنے گیجٹس کے ساتھ مصروف نظر آتا ہے، کسی بھی ریسٹورنٹ میں جائیں تو آپ کو تنہا بیٹھا ہر شخص اپنے فون، لیپ ٹاپ یا ٹیبلیٹ پر مصروف نظر آئے گا۔ ہر شخص اس جگہ داخل ہوکر 3g کا استعمال شروع کر دیتا ہے۔کسی کے پاس فرصت نہیں ہوگی کہ وہ ادھر ادھر نظر دوڑا کے جائزہ لے کہ وہاں کون بیٹھا ہے اور کیا کر رہا ہے۔ ٹیکنالوجی نے جیتے جاگتے انسانوں کی اہمیت کو کم کر دیا ہے اور ان غائبانہ دوستوں کو ترجیح دے دی ہے جنہیں وہ کبھی ملے بھی نہیں ہیں۔

لوگوں میں اردگرد بیٹھے لوگوں سے بات کرنے کے رجحان میں کمی آ رہی ہے اور ایسا بیشتر دفعہ دیکھا گیا ہے کہ دو لوگ ساتھ ایک ہی ٹیبل پر بیٹھے تو ہوتے ہیں لیکن اپنے اپنے فون پر میسجنگ، فیس بکنگ یا ٹوئٹس کر رہے ہوتے ہیں ،۔

صرف یہ ہی نہیں بلکہ بچے والدین کے پاس بیٹھ کر بھی ان کو ان دیکھا کر دیتے اور ان کی باتوں کو ان سنا کر دیتے ہیں اور اپنے گیجٹس میں محو ہوتے۔اس بے رخی، لاپرواہی اور بد تہذیبی کی بڑی وجہ سوشل میڈیا کا بے جا استعمال اور ہماری زندگیوں میں ضرورت سے زیادہ مداخلت ہے۔

سوشل میڈیا پر کوئی کسی کے سامنے نہیں ہوتا لہٰذا کسی کے لیے بھی غیر واجبی، بدتمیزی اور غیر اخلاقی بات کرنا آسان ہوتا ہے۔سوشل میڈیا ان منفی خیالات کو جنم نہیں دے رہا بس وہ ان خیالات کے اظہار کا ذریعہ بن گیا ہے ،جو ہر شخص کی پہنچ میں ہے۔ والدین کے ساتھ تو بچے بدتمیزی کرتے ہی ہیں لیکن اپنے اردگرد افراد کے ساتھ بھی ان کا رویہ خراب ہوتا جا رہا ہے جن سے وہ روز ملتے ہیں۔ جہاں سوشل میڈیا نے بدتمیزی کے رجحان میں اضافہ کیا ہے وہاں اس کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ لوگوں کے مابین مباحثے اور بحث کرنے کے دروازے کھلے ہیں۔

لوگوں نے سیاسی، سماجی مسائل پر بات کرنا چھوڑ دیا تھا اور اب سوشل میڈیا کے ذریعے سیاستدانوں سمیت ایسے لوگ بھی جواب دے رہے ہوتے ہیں جن سے کسی عام آدمی کا شاید کبھی ملنا بھی ممکن نہیں ہے۔ تو اب مسئلہ صرف اتنا ہے کہ سوشل میڈیا کا استعمال منفی طریقے سے ہو رہا ہے یا اس کے مثبت پہلو اجاگر نہیں ہو رہے ہیں۔

انسانی زندگی میں اس کی مداخلت کس حد تک ہے اور بچوں کو اس حوالے سے کیا تعلیم دی جا رہی ہے۔ اگر نوجوانوں کو خاص طور پر اس کے استعمال کے حوالے سے باقاعدہ اخلاقی اور فارمل تعلیم دی جائے تو یہ ہی سوشل میڈیا ان کے کردار اور سوچ میں پختگی پیدا کر سکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے