سیکھنا کیسے سکھایا جائے؟

ہماری تعلیم و تربیت، ہماری شخصیت و معاشرے کی تعمیر و ترقی ہمارے سیکھنے پر منحصر ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام اور اداروں کا ایک اہم اور بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ تعلیم و تربیت اور سیکھنے کے حوالے سے ان سے وابستہ ہماری توقعات پوری نہیں ہو رہی ہیں۔ مجھے بطور ٹرینر پاکستان کے مختلف شہروں کے مختلف تعلیمی اداروں میں ایک ہزار سے زائد اساتذہ کے ساتھ تربیتی نشست کرنے کا موقع ملا ، چنانچہ میں نے اس کی ضرورت بہت زیادہ محسوس کی۔ اس بنیادی مسئلے کے بارے میں آگاہی کے لیے یہ مضمون لکھا گیا ہے جو طلبہ اور اساتذہ کے خصوصی اور عام قارئین کے لیے بھی اہمیت اور افادیت کا حامل ہے۔

سیکھنا کیا نہیں ہے؟
ہم میں سے اکثر لوگوں کے نزدیک تعلم یعنی سیکھنےکا مطلب زیادہ سے زیادہ دیر تک یاد رکھ سکنا ہے۔ حساب اور سائنس کے نئے اصول یا پھرکسی غیر ملکی زبان کو سیکھنے یا لوگوں کے نام یاد رکھنے کے لیے ہمارے دماغ کو یہ ساری معلومات ایک خاص طرح محفوظ رکھنا ہوتی ہیں تا کہ بوقت ضرورت ان سے کام لیا جا سکے۔ اگر آپ نے سکول کے زمانہ سے ہی عام اشیاء یا معاملات کو یاد رکھنے کی مہارت نہ سیکھی ہو تو آپ کے لیے ہمیشہ ان کی تفصیلات کو یاد رکھنا مشکل ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی دماغ پر کام کرنے والے ماہرین کے نزدیک سیکھنے اور اسے یاد رکھنے میں فرق ہوتا ہے۔ وہ ایک دوسرے سے بہت قریبی طور پر منسلک ہونے کے باوجود دو الگ الگ چیزیں ہیں۔

پھرسیکھنے سے کیا مراد ہے؟
عموماً سیکھنے کے عمل کا مطلب رویہ میں تبدیلی کو کہا جاتا ہے۔ جس کا مظاہرہ لوگ علم، مہارت یا تعلیم سے سیکھے گئے طریقوں پرعملدرآمد سے کرتے ہیں۔ یہ دراصل علم، رویوں، مہارت، اقدار، ترجیحات اور فہم کے حصول کا نام ہے، اس سے مراد مختلف معلومات کی روشنی میں کوئی نتیجہ اخذ کرنا بھی ہو سکتا ہے۔ تجربہ کی روشنی میں اپنے رویہ کے بدلنے کے رجحان کو بھی سیکھنا کہا جا سکتا ہے۔ یہ ماحول اور ایک خاص ذہنی تربیت سے بھی ممکن ہے جس کا مظاہرہ انسانوں اور عموماًکئی جانوروں میں دیکھنے میں آتا ہے۔ نسبتاً ذہین جانوروں میں یہ مختلف پیچیدہ سرگرمیوں سے بھی وقوع پذیر ہو سکتا ہے ۔

سیکھنے کے انداز (Learning Styles):
مختلف افراد کے سیکھنے کا انداز مختلف ہو سکتاہے۔ سیکھنے والے تین طرح کے ہوتے ہیں اور وہ تین طریقوں سے سیکھتے ہیں۔ ایک آدمی ان میں سے کسی ایک یا ایک سے زائد طریقوں کو بیک وقت بھی استعمال کر سکتا ہے۔ کسی شخص کے سیکھنے کے طریقہ کا ر کا اندازہ بالعموم اس کی ابتدائی عمرکے رویوں سے ہو جاتا ہے۔ سیکھنے کے تین مختلف طریقے:
بصری طالب علم: اس طریقہ سے سیکھنے والے افراد چیزوں کواپنی آنکھوں سے دیکھ کر، ملاحظہ کر کے سیکھتے ہیں۔ کمرہ جماعت میں بہت سے طلبہ یا زیر تربیت افراد بصری انداز سے سیکھتے ہیں۔ وہ نقشوں، ماڈلز، خارجی اشیا، بورڈ اور کتاب وغیرہ کو دیکھ کر سیکھتے ہیں۔ پیشہ کے لحاظ دیکھا جائے تو انجینئر، معمار، ڈیزائنر اور ڈاکٹر وغیرہ اس کی چند مثالیں ہیں۔

سمعی طالب علم: سمعی انداز میں سیکھنے والے افراد کے اندر بات سن کر سیکھنے کی بہت اچھی صلاحیت ہوتی ہے۔ وہ مختلف آوازوں، میوزک، بات چیت اور تدریس کے ذریعہ سیکھتے ہیں۔ کمرہ جماعت میں بعض طلبہ سمعی انداز میں زیادہ بہتر سیکھتے ہیں۔ پیشہ کے اعتبار سے سمعی افراد میں اساتذہ، دانشور، شاعر، لکھاری، وکلاء، سیاستدان ،ترجمہ نگار ، ریڈیو سننے والے، ٹیلی کمیونیکیشن کے افراد وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔
حرکی طالب علم: ہم میں سے زیادہ تر افراد حرکی انداز میں بہتر سیکھتے ہیں۔ ایسے افراد عملی سرکرمیوں، ماڈلنگ، عملی مشق، بھاگ دوڑ، کام کاج اور چھونے وغیرہ کے ذریعہ سیکھتے ہیں۔ کمرہ جماعت میں حرکی طلبہ کی تعداد نسبتاً زیادہ ہوتے ہیں۔ عمل کے ذریعے انسان بہتر انداز میں سیکھ سکتا ہے۔ پیشہ کے لحاظ سے حرکی انداز میں سیکھنے والوں میں کھلاڑی، برتن ساز، بڑھئی، کسان، ہنرمند اور ڈرائیور وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔

سیکھنے کے چار سالیب (Learning Approaches)
انسان عام طور پر چار اسالیب یا اپروچز سے سیکھتا ہے:

منتقلی: ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعہ معلومات، علم، نظریات اور مہارت کو دوسرے افراد تک بامقصد طریقہ سے پڑھا کر، واضح انداز میں بتاکر، دکھا کر یا رہنمائی فراہم کر کے پہنچایا جاتا ہے۔ تدریس اور ذرائع ابلاغ کی مدد سے سیکھنے والے اس اپروچ کے تحت سیکھتے ہیں۔

اخذ: اس سے مراد پورے شعور کے ساتھ کسی چیز کو سیکھنا ہے۔ یہ چیز سیکھنے والے کے لیے اہم ہوتی ہے۔ اس طریقہ میں کھوج لگانا، خود تلاش کرنا، تجربہ کرنا، اپنی رہنمائی آپ کرنا، پوچھنااور تجسس کرنا شامل ہیں۔ محقق اور سائنسدان وغیرہ عام طور پر تحقیق اور تجربہ کر کے اپنے نتائج اور نظریات خود سے اخذ کرتے ہیں۔

ظہور: ظہور سے مراد کسی مخصوص طریقہ سے ان نئے نظریات اور مفاہیم کا ادراک حاصل کرنا ہے جو اس سے قبل وجود نہیں رکھتے تھے۔ یہ غوروفکر، تدبر، تخلیقی بیان، مکالمے، مشاہدات اور تجربات سے سامنے آتے ہیں۔

غیر شعوری تجربہ: غیر محسوس طریقہ سے سیکھنا تدریجی اور عموماً غیر شعوری ہوتا ہے۔ اس طریقہ سے ہم کسی نئی زبان، ثقافت، عادات، تعصبات، سماجی ضابطوں اور رویوں کے بارے میں سیکھتے ہیں۔

سیکھنے کے مراحل:( Learning Stages)
انسان کے سیکھنے کا عمل سرسری معلومات سے شروع ہوتا ہے اور جانچنے کی صلاحیت تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ مدرس کی تدریس کے کمال مہارت پر منحصر ہے کہ وہ طلبہ کو سیکھنے کے عمل میں کتنی پختگی تک لے کر جانے میں مدد کرتا ہے۔ سیکھنے کے چھ اہم مراحل مندرجہ ذیل ہیں:
جاننا: کوائف یا معلومات کو دوہرانا

سمجھنا: مطلب سمجھنا، ترجمہ، ہدایات اور مسائل کی ترجمانی کرنا، کسی مسئلہ کو اپنے الفاظ میں بیان کرنا

استعما ل : کسی اصول کو کسی نئی صورت حال میں یا اس کے کسی حصہ کو جگہ استعمال میں لانا، کمرہ جماعت ے حاصل کردہ علم کو عملی طور پر استعمال میں لانا

تجزیہ: تحریری مواد یا خیالات کو مختلف حصوں میں تقسیم کرنا تاکہ اس کی ترتیب کو درست انداز میں سمجھا جا سکے۔

ترکیب سازی: مختلف عناصرکے مجموعے سے کوئی نیا ڈھانچہ تیار کرنا، اجزاء کو اکھٹا کر کے کُل ترتیب دینا جو بامعنی اور نتیجہ خیز ہو۔

جانچنا: کسی نظریہ یا مواد پر اپنی رائے دینا۔ اپنی رائے کو مختلف پیمانوں پر جانچنا۔

سیکھنے کے اصول: (Learning Principles)
آمادگی: آمادگی کے بغیر کوئی چیز نہیں سیکھی جا سکتی ہے۔ لہذا کی بھی چیز کے سیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ آمادہ ہو۔

ٓزادی: کسی خوف، سخت پیاس و بھوک وغیرہ کی صورت میں تعلم کا عمل وقوع پذیر نہیں ہوگا۔

اثر انگیزی: سیکھنے کا اثر دکھائی دے تو سیکھنے کا عمل تیز ہو جاتا ہے۔ مثلاً حوصلہ افزائی ہو، تبدیلی واقع ہو، ٹیسٹ /امتحان میں پاس ہو۔

ضرورت: جس چیز کی ضرورت پڑے وہ جلد سیکھی جا سکتی ہے۔ لہذا موضوع کی ضرورت کو سب سے پہلے واضح کرنا اہم ہے۔

شوق: جس چیز کا شوق زیادہ ہوگا وہ زیادہ سیکھی جا سکتی ہے۔ متعلقہ افرا/طلبہ میں موضوع کے بارے میں شوق پیدا کیے بغیر وہ سیکھ نہیں پاتے۔

ٹھوس سے مجرد: انسان /بچہ پہلے ٹھوس چیزیں کے بارے میں سیکھتا ہے پھر مجرد خیالات و نظریات سیکھتا ہے۔

سہل سے مشکل: پہلے آسان چیزیں پھر مشکل چیزیں۔

اولیت : جس چیز سے سب سے پہلے واسطہ پڑے گا وہ زیادہ سیکھی جا سکتی ہے۔

تازگی: جو واقعہ/ چیز تازہ ہو گی وہ زیادہ سیکھی جا سکتی ہے۔

ربط: جس چیز سے جتنا ربط قائم کر پائے گا اسی حساب وہ سیکھی جا سکتی ہے۔ اسی لیے سیکھنے کے عمل میں دلچسپی اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب موضوع معاشرے کے روزمرہ مسائل، بامقصد مباحث اور ضروری امور کے بارے میں ہو۔

مشق و عمل: بار بار مشق و تمرین نیز عمل کے بغیر ت سیکھنے میں پختگی نہیں آتی ۔

گفتگو کا ماحصل
سیکھنے کے عمل میں انسان کا ذہن ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے ذہن ڈکشنری یا معلومات کا خزانہ بنانے کے لیے نہیں دیا ہے بلکہ تفہیم، تعبیر، تدبیر، تحقیق، تنقید اور تخلیق کے لیے دیا ہے۔

طالب علم کو صرف چند اصطلاحات کا منجمد رٹے باز بنانے کے بجائے ایک متفکر ، متبحر اور متحرک، متوزان، انسان بنایا جانا تعلیمی نظام کی بنیادی ذمہ داری ہے۔

اس اعتبار سے یہ بات نہایت اہم ہے کہ طلبہ کو کسی ایک خاص مضمون تک محدود رکھنے کے بجائے موضوع سے متعلق دیگر کتب اور ذرائع کی طرف رہنمائی فراہم کی جائے اور ان پر تحقیق و تنقید کر کے اپنی رائے اور نظریہ کی تشکیل کی رہنمائی و حوصلہ افزائی کی جائے۔

طلبہ تک مطالعہ، مباحثہ ،، مکالمہ، مذاکرہ، تحقیق، تنقید، تخلیق، تربیت ،ابلاغ و تبلیغ، تقریر و خطابت، قیادت و نظامت وغیرہ کی عملی مہارتیں اور صلاحیتیں منتقل کرنا بھی تعلیمی نظام ذمہ داری ہے۔

اس طرح تعلیمی نظام اپنے طلبہ کو علمی و عملی لحاظ سے اتنا مضبوط کرتا ہو کہ وہ زمانے کے تقاضوں اور عملی معیارات کے مطابق اپنے نظریات، تحقیقات اور قائدانہ کردار کے ذریعے انسانیت کی خدمات کرسکیں۔

تعلیمی نظام کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ علم و حکمت کو انسانوں کا مشترکہ ورثہ سمجھتا ہو اور طلبہ کو علم کی تحصیل میں کسی نسلی و لسانی ، مسلکی و مذہبی اور شخصی و تنظیمی حصار میں محدود نہ کرتا ہو۔

طلبہ کی خدا داد صلاحیتوں کو پہنچاننے کی کوشش کی جائے اور ان کی صلاحیتوں کو مزید نکھارنے کے لئے ان کی تنقیدی فکر کی صلاحیت کو پروان چڑھایا جائے، اُن کو سوال و جواب، اختلاف رائے، تنقید وتبصرہ کرنے ، مسائل کو حل کرنے اور قائدانہ کردار ادا کرنے کے مواقع دیے جائیں۔

تعلیم و تربیت کا نصاب و نظام ان صلاحیتوں کی پرورش میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ اسے عالمگیر تقاضوں سے ہم آہنگ، وسیع تر قومی مقاصد کے مطابق، دور رس اثرات کے پیش نظر اور واضح خطوط کےتحت ہی تعلیمی نظام کی تشکیل اور تعلیمی نصاب کی تدوین اور متعلقہ افراد کو جدید اور مؤثر خطوط پر تربیت فراہم کر کے تیار کرنا وقت کا اہم تقاضا ہے۔

انسان ایک متحرک اور متفکر مخلوق ہے۔ خالق کائنات کی جانب سے باقی تمام مخلوقات کی بہ نسبت انسان میں سیکھنے، سمجھنے، محسوس کرنے اور آگے بڑھنے کی غیر معمولی صلاحیت ودیعت کی گئی ہے۔

اس کے ذہنی ، جسمانی، جذباتی ، روحانی اور نفسیاتی توازن اور ترقی کی کلید سیکھنا ہے۔ انسان اپنی عقل کی بدولت ہی اشرف المخلوقات ہے۔ اسی عقل کی بدولت انسان سیکھتاہے۔

پس سیکھنا سیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ سیکھنے والا :
اپنے سیکھنے کا انداز (learning Style) اور رجحانات کو بخوبی جانچے۔
سیکھنے کے مختلف طریقوں کی مشق کرے۔
سیکھنے کی مختلف مہارتوں اور تیکنیک پر عبور حاصل کرے۔
ایک سے زائد انداز، طریقوں، مہارتوں سے سیکھنے کی عادت ڈالے۔

سیکھنے والوں کے انداز، رجحانات، مزاج، طور طریقوں، مہارتوں، عادات سے درست اور بہتر آگاہی ہی مدرس کو اس بات پر تیار کرے گی کہ وہ اپنی تدریس پر غور و فکر کے اور مناسب اور موثر ترین تدریسی طریقوں اور مہارتوں کو اپنی تدریس کا حصہ بنائیں۔

"آپ اپنے طالب علم کو ایک دن کوئی سبق پڑھا سکتے ہیں لیکن اگر آپ اس کے اندر سیکھنے کا تجسس بیدار کر دیں تو وہ زندگی کے آخری لمحے تک کچھ نہ کچھ سیکھتا رہے گا”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے