راولاکوٹ ضمنی الیکشن:اصل شکست کسے ہوئی؟

آج 30 دسمبر 2018 کو ہونے والے ضمنی انتخاب میں جموں کشمیر پیپلز پارٹی کے حسن ابراہیم 814 ووٹوں سے فاتح قرار پائے۔ حسن ابراہیم کے کل ووٹ 17590ہیں ۔ پیپلزپارٹی کے سردار یعقوب خان نے 16776 ووٹ لیے اور دوسرے نمبر پر رہے ۔ حکومتی امیدوار(مسلم لیگ ن) طاہر انور 10225 ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے۔ سردار یعقوب خان نے زبرست مقابلہ کیا جبکہ حکومتی امیدوار طاہر انور کی وزیراعظم ریاست اور ان کی کابینہ کی جانب سے مسلسل کمپین کے باجود ناکامی نے سوال کی کافی گنجائش پیدا کی۔

جموں کشمیر پیپلز پارٹی کے حسن ابراہیم 17590 ووٹ لے کر فاتح قرار پائے

اطلاعات یہ ہیں کہ مقامی سطح پر مسلم لیگ میں تقسیم تھی اور اس جماعت کے کچھ اہم لوگوں نے پارٹی امیدوار کی مہم میں دلچسپی نہیں دکھائی۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ کمپین کے دوران بعض جگہوں پر وزیراعظم ریاست کی موجودگی میں ڈیڑھ درجن لوگ بھی اکھٹے نہیں ہو سکے۔ گویا انہیں بہت شاندار انداز میں ویلکم کم ہی کیا گیا ۔یہ قابل غور پہلو ہے.

پیپلزپارٹی کے سردار یعقوب خان نے 16776 ووٹ لیے اور دوسرے نمبر پر رہے

یہ حقیقت بھی اپنی جگہ کسی حد تک مستحکم ہوئی کہ راولاکوٹ کے اس حلقے میں لوگ سردار ابراہیم خان مرحوم اور سردار خالد ابراہیم خان مرحوم کے لیے پسندیدگی کا رجحان رکھتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سردار یعقوب نے مجموعی طور پر تن تنہا کمپین کی، ان کی پارٹی نے بھی ان کی مہم چلانے میں زیادہ دلچسپی نہیں لی ، بلکہ شروع میں تو ان کی پارٹی کی مقامی قیادت اس الیکشن میں اترنے کے لیے تیار ہی نہیں تھی لیکن انہیں بہت کم مارجن سے شکست ہوئی، سمجھا جا سکتا ہے کہ حاجی یعقوب اپنی مخصوص افتاد طبع اور علاقائی سیاست کی سائنس جانتے ہیں۔ ان کی پارٹی حزب مخالف میں ہے ، اس کے باوجود حکومتی امیدوار پر 6 ہزار 5 سو 21 ووٹ کی برتری حاصل کر لینا اور محض 8 سو 14 ووٹوں سے ہار جانا بہت کچھ کہتا ہے ۔

یہ مقابلہ بنیادی طور پر تین امیدواروں کے مابین تھا ، جس میں واضح شکست آزادکشمیر میں برسراقتدار مسلم لیگ نواز کے امیدوار کو ہوئی ہے۔

خیال رہے کہ حلقہ ایل اے 19 پونچھ 03 کی یہ نشست سردار خالد ابراہیم خان کی وفات (4 نومبر 2018)کی وجہ سے خالی ہو گئی تھی اور یہاں سے فاتح قرار پانے والے امیدوار حسن ابراہیم، مرحوم خالد ابراہیم کے بیٹے ہیں ۔ حسن ابراہیم کو شاندار سیاسی سفر کی ابتدا مبارک ہو ۔

مسلم لیگ نواز کے امیدوار طاہر انور خان نے 10225 ووٹ حاصل کیے

پارلیمانی سیاست پر گہری نگاہ رکھنے والے صحافی حارث قدیر کی دو دن قبل شائع ہوئی ایک رپورٹ کے مطابق اس حلقے میں 92427 ووٹرز ہیں جن میں 49455 مرد رائے دہندگان جبکہ 42972 خواتین رائے دہندگان شامل ہیں ، 169 پولنگ اسٹیشنز قائم کیے گئے تھے ۔گزشتہ عام انتخابات میں جموں کشمیر پیپلز پارٹی کے نامزد امیدوار سردار خالد ابراہیم 25299 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے جبکہ پیپلزپارٹی کی فرزانہ یعقوب 16116 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہی تھیں۔

آج مجموعی طور پر ڈالے گئے ووٹوں میں سے شمار کے قابل قرار دیے گئے ووٹوں(جو حتمی نتائج میں درج ہوئے) کی تعداد 47803 ہے۔ ضمنی الیکشن میں لوگوں کی دلچسپی قدرے کم ہوتی ہے ، اس پہلو کو دیکھتے ہوئے مجموعی ٹرن آوٹ مناسب رہا ۔ اس نشست پر سے 17590 ووٹ لینے والے حسن ابراہیم کے والد مرحوم خالد ابراہیم نے گزشتہ عام انتخابات میں25299 ووٹ لیے تھے ۔ گویا فتح کے باجود جموں کشمیر پیپلز پارٹی کو پہلے کی نسبت 7709 ووٹ کم پڑے ہیں، عام انتخابات 2016 میں سردار خالد ابراہیم کو 9183 ووٹوں کی برتری تھی جو اب سمٹ کر محض 814 ووٹوں پر پہنچ گئی۔

ضمنی الیکشن کے حتمی نتائج

فتح کے مارجن میں کمی کی وجوہات میں الیکشن کا ضمنی ہونا اور ووٹر کا عام انتخابات کی نسبت کم موٹیویٹ ہونا بھی شامل ہے۔ موسم کا فیکٹر بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایک اور عنصر یہ بھی ہے کہ اس انتخاب میں وہ ووٹ بینک تقسیم ہو گیا جو عام انتخابات (2016)میں جموں کشمیر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے اکٹھ سے تشکیل پایا تھا۔ اب کی بار مسلم لیگ نواز نے اپنا شیئر لے لیا اور جموں کشمیر پیپلزپارٹی کا اس وجہ سے مارجن کم رہا مگر جیت اس کے نام ہو گئی۔

چوتھا نمبر کے جے کے نیشنل عوامی پارٹی امیدوار لیاقت حیات کا ہے ،انہوں نے 2083 ووٹ حاصل کیے

ایک اور دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اس حلقے سے انتخاب میں شامل آزاد امیدوار اجمل افسر نے 761 ووٹ لیے جن میں سے 757 ووٹ ایسے ہیں جو پیپلزپارٹی کے حاجی یعقوب خان کے آبائی علاقے کے پولنگ اسٹینشوں سے اجمل افسر کو ملے ۔ یعنی یوں کہا جا سکتا ہے کہ اگر یہ آزاد امیدوار حاجی یعقوب کے 757 ووٹ نہ توڑتا تو حاجی یعقوب کی شکست کا مارجن مزید کم ہو کر صرف 57 ووٹ رہ جاتا ۔ جہاں تک تعلق چوتھے نمبر کے جے کے نیشنل عوامی پارٹی امیدوار لیاقت حیات کا ہے تو انہوں نے 2083 ووٹ حاصل کیے ۔ وہ اسی کے لگ بھگ ووٹ پہلے بھی لے چکے ہیں ۔ ایک قوم پرست پارٹی جس کی اس علاقے میں حقیقی فالونگ سینکڑوں میں بھی نہیں ، اس کا دو ہزار کا ہندسہ ٹچ کرنا دلچسپ ہے۔بتایا جاتا ہے کہ اس ووٹ کی بنیادی وجہ امیدوار لیاقت حیات کا ذاتی ربط و ضبط اور اثر رسوخ ہے۔ چھٹا نمبر مذہبی شناخت کی حامل راہ حق پارٹی کے امیدوار نوید اصغرکا ہے، ان کے ووٹ 338 ہیں جو لگتا یہ ہے کہ ان کے ساتھ مذہبی طور پر کمیٹڈ لوگوں ہی نے ڈالے ہیں ، جنرل گراونڈز پر اس پارٹی کی Footing نہ ہونے کے برابر ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے