آزادی اظہار،چینی سنسرشپ انڈسٹری اور پاکستان

یہ ذہن میں رکھتے ہوئے کہ امریکا اور چین کے مابین ایک خاص قسم کی پروپیگنڈہ وار جاری ہے ، میں رات نیو یارک ٹائمز (گلوبل ورژن)کی ایک فیچر رپورٹ پڑھ رہا تھا ، جو چین موجود سینسرشپ انڈسٹری سے متعلق تھی ۔

رپورٹ میں اس انڈسٹری سے وابستہ کچھ لوگوں کی گفتگو بھی شامل کی گئی ہے اور سینسر شپ کے طریقہ کار اور تکنیکوں پر بھی تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔ سینسر شپ انڈسٹری سے وابستہ ایک شخص کا کہنا ہے کہ ہم اپنے ادارے میں مسلسل 24گھنٹے یعنی چار شفٹوں میں کام کرتے ہیں ۔ ہمارے پاس ہزاروں الفاظ ایسے الفاظ خودکار نظام میں فیڈ ہیں جو حساس یا بالقوہ(potentially) حساس ہو سکتے ہیں ۔ حساس سے مراد چینی حکومت یا کمیونمسٹ پارٹی آف چائینہ کی پالیسی یا لیڈرز کے خلاف تنقید ، طنز یا تلخ سوالات وغیرہ ہیں ۔

اس انڈسٹری سے وابستہ اداروں کا کام ہی یہی ہے کہ وہ چین میں چلنے والی ویب سائٹس ، ایپلی کیشنز ، سوشل میڈیا سائٹس ، تصاویر ، کارٹوں اور بلاگز پر نگاہ رکھیں اور ’’حساس‘‘ خیالات کی ترجمانی کرتے مواد کو فلٹر آؤٹ کرکے کہ عوام تک خاص قسم کی ’’تعمیری‘‘ اور ’’مثبت ‘‘ معلومات پہنچائیں۔ گویا یہ ایسی چھلنیاں ہیں جن کی خدمات حکومت باقاعدہ معاوضہ ادا کر کے لیتی ہیں۔

رپورٹ میں شامل ایک عہدے دارکی گفتگو کے مطابق سنسر شپ انڈسٹری میں ملازمت کے خواہش مند لوگوں کوٹریننگ دی جاتی ہے اور نامناسب اور ممکنہ طور پر نامناسب الفاظ ، اصطلاحات، تصاویر اور استعاروں کے بارے میں انہیں آگاہی دی جاتی ہے ۔ پھر ایک کڑے امتحانی عمل سے گزرنے کے بعد وہ اس انڈسٹری کا حصہ بنتے ہیں۔

پاکستان میں بھی گزشتہ چند برس سے میڈیا کے لوگو ں کا ایک قابل ذکر حصہ سنسر شپ کی شکایت کرتاآ رہا ہے ۔ سیلف سنسر شپ تویہاں ہمیشہ کسی نہ کسی شکل میں رہتی ہی ہے لیکن ریاستی قوت کے زور پر سنسر شپ کے ادوار آتے جاتے رہتے ہیں ۔ اس میں چھوٹے چھوٹے وقفے بھی آتے رہے ہیں ۔

اب پاکستان میں 5th جنریشن وار فیئر نامی ’جنگ ‘کی بات ذرا زیادہ کی جانے لگی ہے۔ میرے کئی دوست یہ سوال پوچھ چکے ہیں 5th جنریشن وار کیا بلا ہے؟ جس قدر ممکن ہوا ، میں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی ، لیکن امید ہے کچھ عرصے میں وہ خود اچھی طرح سمجھ جائیں گے۔

کچھ عرصہ سے حکومتی عناصر اور ادارے سوشل میڈیا کی کڑی نگرانی کے عندیے ظاہر کررہے ہیں۔وفاقی وزیرااطلاعات اور فوج کے اطلاعاتی شعبے کے سربراہ بھی سوشل میڈیا پر پھیلنے والی ’’آزادخیالی‘‘ کے بارے میں قوم کو بار بار آگاہ کرتے رہتے ہیں ۔ آزادی اظہار کے حق میں بولنے والے لوگ حکومت پر تنقید کرتے ہیں کہ وہ اظہار کے باب میں ’’چینی ماڈل‘‘ قائم کرنا چاہتے ہیں ۔

اگر یہ تشویش بھرا اندیشہ درست ہے تو جلد پاکستان کی سرکار کو بھی چین کی طرح سنسر شپ انڈسٹری کی خدمات لینی پڑیں گے اور ملک میں اظہار کے مواقع محدود ہو جائیں گے ، لیکن سنسر شپ انڈسٹری میں بہت سے نوجوانوں کو روزگار مل جائے گا۔ جہاں تک رہا یہ سوال کی اظہار کی آزادی زیادہ قیمتی ہے یا سنسر شپ انڈسٹری کی نوکری ، یہ فیصلہ بھی کبھی نہ کبھی ہو ہی جائے گا.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے