خدا پاکستان کو ان کی ”ذہانتوں” سے محفوظ رکھے

منیر اکرم نام کے ایک محترم ہیں۔ مجھے ان سے ملاقات کا شرف کبھی حاصل نہیں ہوا۔ خارجہ امور پر رپورٹنگ کے دنوں سے مگر سنتا آرہا ہوں کہ موصوف بہت دھانسو قسم کے سفارت کار ہیں۔ ان کی خاص مہارت بین الاقوامی معاہدوں کی روشنی میں پاکستان کا مؤقف اسی زبان میں لکھنا اور بیان کرنا ہے جو ہمارے دشمنوں اور بدخواہوں کے اوسان خطا کردیتی ہے۔

دشمن ہمارے ذہین لوگوں کے چونکہ بہت ہی دشمن ہوتے ہیں، اس لئے ان صاحب کو بھی ایک سکینڈل کا نشانہ بنانے کی کوشش ہوئی۔ میں اس سکینڈل کی تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا۔ بس اتنا یاد دلاکر آگے بڑھ جاتا ہوں کہ جب یہ معاملہ اچھلاتو ان دنوں پاکستان کے خارجہ سیکرٹری ریاض کھوکھر نے اس پر چودھری شجاعت حسین والی مٹی ڈال دی تھی اور سفارت کاروں کو میسر Immunityبھی اس ضمن میں بہت کام آئی۔

منیر اکرم کا تذکرہ میں نے 2008ء کے ان ایام میں بھی تواتر سے سنا جب عام انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد پیپلز پارٹی حکومت سازی میں مصروف تھی۔ کئی لوگوں کو یقین تھا کہ منیر اکرم کسی ’’سندھی کنکشن‘‘ کی وجہ سے نئی حکومت کے مشیر برائے امور قومی سلامتی تعینات کردئیے جائیں گے۔ آصف علی زرداری کی مجبوری مگر یہ تھی کہ انہیں یوسف رضا گیلانی کو وزارت عظمیٰ سونپ دینے کے بعد ملتان ہی کے شاہ محمود قریشی کو بھی کسی تگڑی وزارت میں Adjustکرنا تھا۔ ان کے ہونہار فرزند-زین- ان دنوں سینیٹر جان کیری کے دفتر میں سفارت کاری کی باریکیاں سمجھ رہے تھے۔ والدِ محترم کو پاکستان کی وزارتِ خارجہ مل گئی۔

پھر ایک صاحب تھے جنرل (ریٹائرڈ) محمود درانی۔ مشرف نے انہیں واشنگٹن میں پاکستان کا سفیر بنارکھا تھا۔ بہت سے لوگ انہیں پاکستانی اور امریکی Establishmentکے درمیان روابط کا اہم ترین ذریعہ سمجھتے تھے۔ زرداری نے انہیں اسلام آباد بلوالیا۔ ان ہی کے ذریعے جنرل مشرف کا واضح پیغام ملا کہ امریکہ اب انہیں ایوانِ صدر میں نہیں دیکھنا چاہتا۔ مؤثر پیام بری کی بدولت درانی صاحب بالآخر مشیر برائے امور قومی سلامتی تعینات ہوگئے۔ ان کا انجام کیوں اور کیسے ہوا۔ یہ کہانی پھر سہی۔ فی الوقت موضوع ہیں محترم جناب منیر اکرم صاحب۔

موصوف پاکستان کے ایک مؤثر انگریزی روزنامے میں خارجہ امور پر ہفتہ وار کالم لکھتے ہیں۔ میری انگریزی بہت کمزور ہے اور خارجہ امور کی نزاکتوں کے بارے میں قطعی نابلد بھی ہوں۔ ہماری قسمتوں کے مالک بنے طاقت ور افراد اور ان سے ملنے ملانے والے مگر اصرار کرتے ہیں کہ میں منیر اکرم کے لکھے مضامین غور سے پڑھنے کی صلاحیت حاصل کروں۔ ان کا مضمون چھپتا ہے تو چائے کا تازہ کپ منگواکر ڈکشنری کو ڈھونڈ کر اپنے پہلو میں رکھتا ہوں اور پھر ان کا مضمون اسی لگن کے ساتھ پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں جو ایک نالائق طالب علم نصاب کی کتابوں کے بارے میں اختیار کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔
اتوار کی صبح محترم جناب منیر اکرم صاحب کا لکھا مضمون پڑھنا ویسے ہی ضروری تھا۔ اس کی سرخی بڑی زوردار تھی: "The Washington Challenge”۔ذیلی سرخی میں بتایا یہ بھی گیا تھا کہ پاک-امریکہ تعلقات ’’ایک اور شوڈائون‘‘ کی طرف بڑھتے نظر آرہے ہیں۔ دل میں اللہ خیر کرے کہتا ہوا یہ مضمون پڑھنے پر مجبور ہوگیا۔

محترم جناب منیر اکرم صاحب کی رسائی باخبر حلقوں تک ہے۔ وہ کہتے ہیں تو ٹھیک ہی کہتے ہوں گے کہ 2011ء کے بعد پاک-امریکہ تعلقات ایک بار پھر تنائو کا شکار ہورہے ہیں۔ تنائو کی حقیقت واہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے محترم جناب منیر اکرم صاحب نے چند ہفتے قبل امریکی مشیر برائے امور قومی سلامتی-سوزن رائس- کے دورئہ پاکستان کا حوالہ دیا۔

اس دور ے کے دوران، محترم جناب منیر اکرم صاحب کے بقول، سوزن رائس پاکستان کو متنبہ کرتی رہیں کہ پاکستان کو افغان طالبان کے حقانی نیٹ ورک اور لشکر طیبہ کے خلاف فیصلہ کن اقدامات لینا ہوں گے۔ یہ اقدامات نہ لئے گئے تو ’’ورنہ‘‘ ہوگا جس کا آغاز ان رقوم کی ترسیل روکنے سے ہوسکتا ہے جو واشنگٹن دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر پاکستان کو ادا کرنے کا پابند ہے۔

سوزن رائس کی دھمکیوں سے کہیں زیادہ چونکا دینے والی اطلاع محترم جناب منیر اکرم صاحب نے یہ دی کہ گزشتہ ماہ جب وزیر اعظم نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے گئے تو ایک ملاقات ان کی امریکی وزیر خارجہ سے بھی ہوئی۔ اس ملاقات میں ایک مہذب اور نرم گو شخص کی شہرت کے حامل جان کیری نے پاکستانی وزیر اعظم کو عمران خان کے لہجے میں ’’نواز‘‘ کہہ کر پکارا اور میز پر گھونسے مارکر امریکی مطالبات کا اعادہ کرتے رہے۔

ہمارے ایٹمی پروگرام اور افغانستان کے حوالے سے پاکستان پر بڑھتے ہوئے امریکی دبائو کے تفصیلی اور چونکا دینے والے ذکر کے بعد محترم جناب منیر اکرم صاحب جیسے دھانسو سفارت کارکو مجھ ایسے بزدل جاہلوں کے لئے کوئی ایسی حکمت عملی بھی بیان کردینا چاہیے تھی جسے اپناکر ہم اس دبائو کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔

محترم جناب منیر اکرم صاحب نے اس ضمن میں اپنی ذہانت اور فطانت کے موتی بکھیرنے کی زحمت ہی گوارانہ کی۔ بہت اکتاہٹ سے فرمایا بھی تو صرف اتنا کہ :’’ موجودہ حالات میں زیادہ دانشمندانہ (قدم) یہ ہوتا کہ وزیر اعظم (پاکستان) اپنا دورئہ واشنگٹن مؤخر کردیتے‘‘۔ نواز شریف کو ’’طوطیامن موتیا توں اوس گلی نہ جائیں‘‘ والا مشورہ دینے سے قبل محترم جناب منیر اکرم صاحب نے افسرانہ رعونت کے ساتھ اطلاع یہ بھی دی کہ امریکہ پاکستان کے اوپر دبائو اس لئے بھی بڑھا رہا ہے کیونکہ اسے خبر ہے کہ پاکستان کی ’’سول قیادت‘‘ وہاں کی فوج کے مقابلے میں امریکی دبائو کے سامنے زیادہ آسانی سے جھک جاتی ہے۔

محترم جناب منیر اکرم صاحب کا سادہ ترین الفاظ میں بتایا نسخہ یہ ہے کہ چونکہ نواز شریف پاکستان کے منتخب وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی امریکی دبائو کا سامنا نہیں کرسکتے، اس لئے امریکی حکام سے ملنے جلنے سے پرہیز کریں۔ خارجہ امور میں پنگے نہ لیں۔ اسلام آباد میں مقیم رہا کریں اور لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات کے لئے بھاگ دوڑ کیا کریں۔

محترم جناب منیر اکرم صاحب کوشاید یاد نہیں رہا کہ ایک ’’سول قیادت‘‘ ذو الفقار علی بھٹو کی بھی تھی۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا آغاز اس ’’سول قیادت‘‘ ہی نے کیا تھا۔ ڈاکٹر کسنجر کے ذریعے اسے دھمکی دی گئی۔ وہ ڈٹا رہا۔ اس کے ساتھ جو ہوا یہ مگر بات ہم یاد نہیں رکھتے۔
محترم جناب منیر اکرم صاحب کو شاید یہ بھی یاد نہیں رہا کہ مئی 1998ء میں جب بھارت نے ایٹمی دھماکے کئے تو اس وقت کی ’’سول قیادت‘‘ بھی نواز شریف نام کے ایک شخص کی تھی۔ تمام تر دبائو کے باوجود اس وزیر اعظم نے جوابی دھماکے کرکے دکھائے۔

ان دو حضرات کو یاد کرتے ہوئے میں محترم جناب منیر اکرم صاحب کو ہرگز وہ واقعات یاد دلانا نہیں چاہتا۔ جو 9/11کے بعد پاکستان پر مسلط ہوئے۔ ہر وقت نوکری کے طلب گار نام نہاد ’’ٹیکنوکریٹس‘‘ کو تاریخ کے تلخ ایام یاد دلانے کا ہرگز کوئی فائدہ نہیں۔ ان کی رعونت پر غصہ نہیں ندامت محسوس ہوتی ہے۔ خدا پاکستان کو ان کی ’’ذہانتوں‘‘ سے محفوظ رکھے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے