آواگون اور میں ۔ ۔ ۔

awa gawanمجھے "آواگون "کی تقریبِ رُونمائی اور جائے رونمائی و پذیرائی کا قطعاً کوئی علم نہیں اور نہ ہی میں جانتا ہوں کہ کن صاحب کو اس تقریب دل پذیر کی صدارت کا شرف حاصل ہوا، کون صاحب مہمان خصوصی تھے اور کن اصحاب نے پرمغز مقالے پڑھ کر قارئین اور سامعین کے علم میں اضافہ کیا۔ عید الفطر کے بعد شاہین ماڈل کالج چھتر دومیل کی پرنسپل محترمہ نوشین افتخار کے توسط سے آواگون میرے ہاتھوں میں پہنچی تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔پہلا صفحہ پلٹا تو خط شکستہ میں ایک مسکراتی تحریر میری منتظر تھی:
"صاحبِ دل دوست عبد المنان وانی کے ذوق مطالعہ کی نذر”
اورنیچے رقم فرمایا گیا تھا:
"حسب سفارش راجا شوکت اقبال مصور”
مجھے اس تحریر میں صرف ایک بات ہی قابل اعتراض نظرآئی وہ تھا مجھے دیا جانے والا لقب”صاحب دل”۔۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے جب سینے میں بائیں جانب دل کی موجودگی کا احساس ہوا تھا تو اسی وقت میں نے اس نگر کو میر تقی میر کی طرح سو مرتبہ لٹوانے کا تہیہ کر لیا تھا۔ اب تو کیفیت یہ ہے کہ جہاں پہلے دل تھا اب وہاں درد ہے۔ یار لوگوں میں راقم آثم صاحب درد کے نام سے لکھا اور پکارا جاتا ہے۔آواگون کے تخلیق کار واحد اعجاز میر سے ملنے ہمراہ ایک دوست عابد افضل جانے کا اتفاق ہوا۔ جلد ہی باریابی ہوئی اور انہوں نے ازراہِ تلطّف آواگون کا ایک اور نسخہ عنایت فرمایا اور اوپر یہ رقم فرما کر میری ’’عزت افزائی‘‘ فرمائی "خالصتاًمنان کے لیے”۔شوکت اقبال مصور صاحب کی بے پایاں محبت اور واحد اعجاز میر کی بے پایاں تکریم نے اس بات پر اُکسایا کہ آواگون پر کچھ نہ کچھ خامہ فرسائی کی جائے۔

awa2

واحد اعجاز کی جس شخصی خوبی کا میں بطور خاص قتیل ہوں وہ اس کی محبت اور حلم ہے۔ اور جس شاعرانہ خوبی کا میں معترف ہوں وہ اس کی تشبیہات پر دسترس اور بین السطور اپنے نظریات کے ابلاغ کی مہارت ہے۔اگر واحد کی تازہ ترین شاعرانہ بدعات سے تھوڑی دیر کے لیے صرف نظر کر کے کتاب کے محاسن ڈھونڈنے کی "مہم جوئی "کی جائے تو جگہ جگہ واحد آپ کو چونکا دیتا ہے۔ کبھی کسی انکشاف، کبھی کسی تشبیہہ یا تخیل آفرینی اور کبھی کسی ترکیب کے ذریعے۔بات کو بالکل منفر د انداز میں کہنے کا ڈھنگ واحد کی شاعرانہ چابکدستی کا مظہر ہے۔مثلاً
کلائی پر باندھی جانے والی گھڑی کے لیے کیا ہی خوبصور ت پیرایۂ اظہار اختیار کیا ہے۔
’’ابھی وقت کو ہم نے بازو پہ باندھا نہ تھا، نبض آزاد تھی ‘‘ قطع نظراس بات سے کہ گھڑی بازو پر نہیں کلائی پر باندھی جاتی ہے لیکن اچھا لگا۔
ذرا اس نادر تشبیہ پر بھی غور کی ضرورت ہے:
’’اگلے وقتوں کی چنچل حسین لڑکیوں کی قمیصوں کے دامن پہ ٹانکے ہوئے آئینوں سی ندی بہتی تھی‘‘
فرہاد کے پاس تو لوہے کا تیشہ تھا لیکن واحد ہاتھوں کو تیشہ بنا کر پہاڑوں سے لڑنے کا قائل ہے۔کہیں کہیں ا س کی’’نثری شاعری‘‘یا ’’شاعری نما نثر‘‘میں ’’کچھ ناآسودہ امنگوں‘‘کی للک اور ہمک بھی بدرجہ اتم نظر آتی ہے۔واحد کہتاہے”اپنے ہونٹوں سے تمہارے ذائقے کی تصدیق کروں گا۔ نمک اور شکر الگ الگ کر کے چکھوں گا”۔ مجھے اس ضمن میں شرف الدین مضمونؔ کا ایک شعر یا د آ رہاہے:
کریں کیوں نہ شکر لبوں کو مرید
کہ دادا ہمارا ہے بابا فرید
انور مسعود صاحب کا بھی کیا خوب شعرہے:
پابندیِ راشن نہیں پھر بھی وہ شکر لب
مجھ کو مرے حصے کی مٹھائی نہیں دیتا
جہاں تک واحد کا تعلق ہے اس کی شاعرانہ و عاشقانہ انتہا پسندی اسے لبِ محبو ب کی حلاوت تک ہی محدود نہیں رکھتی بلکہ عاشقانہ حق کی وصولی کے لیے شکر اور نمک کے ذائقے کی تفریق کے چکر میں لبوں سے زینہ بہ زینہ اپنی انتہائی”میچور”قوتِ لامسہ و ذائقہ سمیت نیچے اُتر کر نمک(جس کا کریڈٹ بجا طور پر پسینے کو جاتا ہے ) کوبھی چکھتی ہے اور واحدسے دادِ ذائقہ دلواتی ہے۔واحد اپنی پہلی کتاب”راستہ مت بدل”کے برعکس یہاں بوسے کا بطور وصول کنندہ یا دہندہ قتیل و متقاضی نظر آتاہے۔ وہ محبوب کو لپ اسٹک کے نیچے اپنا بوسہ محفوظ یا حنوط کر دینے کا مشورہ دیتا ہے تا کہ تنہائی میں محبوب اس بوسے کو عریاں کر کے لطف اندوز ہو اور میٹھی نیند سو جائے۔ واحد جہاں ہمیں پتھر کے دور کی بھی سیر کراتا ہے وہیں ہمیں اس دور میں بھی لے جاتاہے جہاں شہر کی عافیت کا دار ومدار صرف ایک کلک پر ہے۔ وہ ہمیں غار کا دور بھی دکھاتا ہے اور سیکڑوں منزلوں والی عمارات کی غلام گردشوں کی بھی سیر کراتا ہے۔
واحد کے نزدیک دنیا کا سب سے قیمتی رشتہ ماں ہے۔ اس کے نزدیک ماں ستار العیوب بھی ہے اور سریع الرضا بھی۔ زمین کا نظام ایک طرح ہی درست ہو سکتا ہے اگر اسے ماؤں کے حوالے کر دیا جائے۔ماں صرف اس لیے عظیم نہیں کہ وہ تخلیق کا سبب ہے بلکہ اس لیے بھی عظیم ہے کہ وہ سب سے زیادہ خدمت کرتی ہے۔
ڈاکٹر علی شریعتی اپنی کتاب چہار زنداں میں انسان کو چار زندانوں کا قیدی کہتے ہیں۔ جس میں زندان ذات، زندان معاشرہ کے علاوہ زندان تاریخ بھی ہے۔ انسان آباؤ اجداد کی پالی ہوئی دشمنی نبھانے کے لیے صدیوں سے کٹتا، مرتا چلا آرہاہے۔ اور یہاں واحد بھی یہی رونا روتا ہے کہ آدم کے بیٹے اپنے باپ کی پالی ہوئی دشمنی نبھا رہے ہیں۔ واحد جیسا فطرت پسند اور حساس دل شخص اس بار پر بھی کڑھتاہے کہ دور جدید نے زمین پر سیمنٹ، مرمر اور تارکول کا میک اپ کر دیا ہے اور اس کے پاؤں گھاس اور مٹی کے لمس کو ترس گئے ہیں۔واحد کی نظر اتنی گھاگ اور مشاہدہ اتنا عمیق ہے کہ وہ محبوب کے گالوں سے رنگوں کی صورت میں نشر ہونے والے پیغام سے اپنی سرخ ہوتی ہوئی کانوں کی لووں پر گدگدی محسوس کرتا ہے۔ واحد کے جس جملے (میں مصرعہ نہیں کہوں گا) پر میں بطور خاص پھڑک اٹھاوہ یہ ہے:
’’خیال میں کیے گئے گناہ چہرے سے ظاہر ہونے لگ جائیں تو توبہ واجب ہو جاتی ہے‘‘
واحد کے نزدیک غالب اور شیکسپیئر کا منکر اتنا ہی بڑا کافر ہے جتنا ایک پیغمبر کا منکر۔اس کے نزدیک ایدھی اور مدر ٹریسا ایک ہی ڈالی کے دو پھول ہیں۔ ان کا شجرۂ نسب ایک ہی ہے۔واحد شاعرانہ وہابیت میں اس قدر غرق ہے کہ اس کے نزدیک دوسروں کے قافیے، ردیف اور زمین استعمال کرنے والے شعراء اور لینڈ مافیا کے گماشتوں میں کوئی فرق نہیں۔کتاب کے صفحہ 140پر مرقوم ایک نظم بے اختیار دل کو اداس کرتی ہے اور پڑھنے والا دل میں ایک میٹھی سی چبھن محسوس کرتا ہے۔ واحد کمپیوٹر کو دورِ جدید کی ایک عبادت گاہ کہتا ہے۔واحد کی یہ بات بھی درست ہے کہ وجدان کی اعلیٰ سطح رکھنے والوں کو شیزوفرینیا کا مریض کہنے والوں کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ ہونا چاہیے۔ واحد کے جن اشعار سے میں نے لطف اُٹھایا انہیں یہاں درج کر کے آپ کو اپنے لطف میں شریک کرنا چاہوں گا۔
رندو پرہیزگار زندہ باد
جس پر جو آشکار زندہ باد
ایک دم بے نیاز و بے پرواہ
ایک دم ہوشیار زندہ باد
۔۔۔۔۔
عجیب حال محبت نے کیا ہوا ہے
کہیں بھی درد نہیں اور کراہے جاتے ہیں
کئی چراغ سر شام آنکھ کھولتے ہیں
کئی چراغ سحر کو جگائے جاتے ہیں
۔۔۔۔۔
مقدس سر زمینیں روندتے ہیں
کچھ ایسے بے لگام ہوتے ہیں شاعر
جہاں واعظ کی سانسیں پھولتی ہیں
وہاں محو کلام ہوتے ہیں شاعر
رسولوں کا ادب کرتے ہیں شاعر
جو کہتے ہیں وہ کب کرتے ہیں شاعر
۔۔۔۔۔
کتنے عجیب لوگ ہیں مجھ کو بتا رہے ہیں جو
میرا جنون کچھ نہیں تیرا جمال کچھ نہیں
۔۔۔۔۔
تیرے ہونے سے ہو رہی ہے مہک
پھول گلدان میں پڑے ہوئے ہیں
چل رہاں ہوں جو احتیاط کے ساتھ
خواب سامان میں پڑے ہوئے ہیں
اب ذرا اس کتاب کا دوسرا پہلو دیکھتے ہیں
"آواگون "کا آغازِ تخلیق اماں حوّا سے ہوتا ہے۔واحد نے بحرِ متقارب سے آغاز کیا ہے۔میں نے جب کتاب پڑھنے کاآغاز کیا تو مجھے اشتباہ ہوا کہ یہ کتاب نہیں بلکہ آنے والے زمانوں کی ساری شاعری کے ماتھے کا جھومر ہے۔ میرا خیال تھا واحد ہابیل قابیل سے ہوتا ہوا ہر اس دور کو زمانی ترتیب کا خیال رکھتے ہوئے اپنے خامہء معجز بیاں سے ایسے زیب قرطاس کرے گا کہ الفاظ دست بستہ خدامِ بہر گام کی طرح سر جھکائے تاریخ انسانی کے ایسے حقیقی بیانیے میں ڈھل جائیں گے کہ جس کو آج تک صرف چشم فلک نے دیکھا ہے یا مقدس صحیفوں کے اوراق نے اپنے سینے سے لگایا ہے۔لیکن یہ میری صریح غلط فہمی تھی۔
آواگون کا تقاضا یہ تھا کہ واحد نے اگر بطور آدم اپنے پہلو کو شق کر کے ایک لڑکی کو باہر نکالا تھا تو ہر دور میں بطور فاعل، مفعول، مبصر اور محاسب کا مرکزی کردار نبھاتا ہوااورتاریخ انسانی کو اس کی تمام سچائیوں کے ساتھ بیان کرتا ہوا آنے والے زمانوں کی طرف نکل جاتا۔لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ کچھ صفحات تک واحد نے زمانی ترتیب کاخیال رکھا پھر وہ بھی بھول گیا۔اگر زمانی ترتیب کا خیال نہیں رکھا گیا تو کتاب کا نام آواگون نہیں ہونا چاہیے۔دوسرے صفحے پر ہی واحد نے بحر اور وزن کے ساتھ اندھا بھینسا کھیلنا شروع کردیا۔ کئی جگہ پر فاعلن اور فعولن کا انتہائی بے دردی سے قیمہ بنایا گیاہے۔ واحد نے کئی جگہ بحر اتنی بے دردی سے تبدیل کی ہے جیسے پھوہڑ ڈرائیور گیئر تبدیل کرتے ہیں۔
واحد کہتا ہے’’مجھے اپنے باپ پر حیرت ہوتی ہے، جیسے جیسے بوڑھا ہوتا جاتا ہے اس کا سایہ گہرا ہوتا جاتا ہے‘‘۔یہ نظم واحد اپنی پہلی کتاب ’’راستہ مت بدل ‘‘میں بھی شامل کر چکاہے۔یہاں دوبارہ شامل کرنے کی وجہ صرف واحد ہی جانتا ہے۔ایک انتہائی اہم سوال ہمیشہ واحد کی کتاب کے ساتھ لف ہذا کی طرح چپکا رہے گا وہ یہ کہ یہ شاعری کی کتاب ہے یا نثر کی؟ اس کتاب پر کسی ایک صنف ادب کی ہر گز تہمت نہیں لگائی جا سکتی۔ واحد کے تخیل اور لفاظی کو سلام کرنے کو جی چاہتا ہے لیکن قابل افسوس بات یہ ہے کہ واحدنے مقدس الفاظ کی روحوں کو بے وزن اور تجریدی شاعری کے میلے کپڑوں میں لپیٹ کر آسمانِ تخیل سے زمیں پر پٹخا ہے۔واحد نے کہیں شاعری میں نثر ٹانک دی ہے اور کہیں نثر میں شاعری۔ ہر ذی عقل بخوبی آگاہ ہے کہ پیوند کتنا بیش قیمت کیوں نہ ہو بُرا لگتا ہے۔شامل کتاب نثر کو نہ نثرِ مقفع کہا جا سکتاہے اور نہ ہی مسجع۔ اگر واحد نے بھیانک لسانی تجربات نہ کیے ہوتے: مثلاً گھوڑے کے ہنہنانے کی بجائے چیخنا وغیرہ، تو میں اس کی نثر کو نثر مصفیٰ کہہ کہ اعلیٰ ادبی ذوق رکھنے والے دوستوں کے سامنے معتوب، مغضوب اور مطعون ہونے کو تیار تھا۔
مجھے اس بات کا قلق ہمیشہ رہے گا کہ کاش واحد کی ساری کتاب منظوم ہوتی۔ اگر وہ کتاب کے ہر باب کی بحر "اپنی فنی مجبوری و معذوری” کے پیش نظر تبدیل بھی کر دیتا تو بھی یہ کتاب امر ہو جاتی اور الفاظ کی مقدس روحیں برہنہ نہ رہتیں بلکہ اوزان و بحور کا مقدس لبادہ اوڑھ کر آسمانِ ہنر سے سینہ ءِ قرطاس پر اترتیں۔ نجانے کیوں واحد نے الفاظ و تخیل کی عریانی صرف اس وجہ سے گوارا کر لی کہ وہ شاعری میں ایک نیا تجربہ کرنے جا رہا تھا۔اب ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ تجربہ اہلِ فن اور آنے والی ادبی نسلوں کی لیے قابل قبول یا قابل تقلید ہو گا؟ شاید نہیں۔ فرض کرتے ہیں کہ یہ تجربہ مستحسن اور قابل تقلید ہے تو اس تجربے کے اُصول وضوابط کیا ہیں۔شاعری کی ہر صنف کے اصول و ضوابط ہیں، قطعہ، غزل، نظم، رباعی، آزاد نظم، مخمس، مسدس، قصیدہ، مثنوی ، شہر آشوب اور واسوخت کسی نہ کسی کی ایجادیں ہیں اور یہ سب کچھ بین ضوابط کی پابند ہیں اور انہیں قبول عام بھی حاصل ہے۔اگر کوئی شخص آواگون کی فنی نزاکتوں کو سمجھ کر ویسی تخلیق کرنا چاہے تو اسے کون سے ضوابط کا خیال رکھنا پڑے گا۔ انہی ضوابط کا کہ جہاں چاہا نظم یا نظم نما لکھ دی اور جہاں جی چاہا نثر یا نثر نما لکھ دی۔مجھے یقین ہے کہ موجودہ اور آئندہ زمانوں کا حقیقت پسند نقاد آواگون کی ناکامی کا ذمہ دار واحد کی سست مزاجی اور شاعری کی دنیا میں اک عجیب و غریب صنف ایجاد کر کے منفرد بننے کی خواہش کو ٹھہرائے گا۔
واحد مقدس زمینیں روندنے والے شعرا کو برا بھلا کہتا ہے لیکن آواگون میں شاعری اور نثر کے تمام مسلمہ قوانین کو توڑ اور بھنبھوڑ کر خود بری الذمہ ہو جاتاہے۔واحد کشمیر کے نمائندہ شعراء میں سے ایک ہے لیکن اگرآواگون کو ہی اس کی نمائندہ تخلیق کہہ کراس کی شخصیت پر مضمون لکھا جائے تو اس کی تلخیص صرف اتنی ہو گی کہ واحد اسیر ذات ہے۔ اپنی ذات کے زنداں میں مقید رہ رہ کر واحد کو اسی کی صحبت نے خراب کر دیا ہے۔ واحد ویسے بھی اپنی ذات کو مرکز مان کر کائنات کی پیمائش کرنے کے حق میں ہے۔ اور یہاں اس نے اپنی پسند کو مرکز مان کر ہمارے ذوق کا امتحان لیا ہے۔واحد کے لیے اشد ضروری تھا کہ وہ کتاب کے ساتھ ایک مفصل رہنماء کتابچہ بھی لف کر دیتا جس سے اس تجریدی کتاب کو فنی اعتبار سے سمجھنے میں مدد ملتی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے