سرکاری یکجہتی کا شوراور’کشمیری مہاجرین‘کا دُکھ

حکومت پاکستان ہرسال پانچ فروری کو کشمیریوں سے یکجہتی کا اظہار کرتی ہے۔ اس یکجہتی کا اظہار پاکستان کے شہروں، قصبوں اور گلی کوچوں میں ریلیوں کی صورت میں کیا جاتا ہے۔دن سے شام تک سرد موسم میں ریلیاں ہوتی ہیں۔ سیاسی اور مذہبی رہنما وادی کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم کا ذکر کرتے نہیں تھکتے۔ سرکاری سطح پر تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے، پاکستان کے صدر یا وزیر اعظم کی مظفرآباد آمد ہوتی ہے اوروہاں اسمبلی سیشن سے خطاب کے بعد یکجہتی کا یہ سلسلہ ختم ہو جاتا ہے۔

یوم یکجہتی کشمیر کی بنیاد قاضی حسین احمد کی اپیل پر 1990 میں پڑی ،جب انہوں نے کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف کشمیریوں کی حمایت کیلئے پاکستان بھر میں ریلیاں نکالیں اور بعد ازاں اس دن کو سرکاری حیثیت دے دی گئی۔ یہ دن تسلسل سے منایا جا رہا ہے تاہم ایک دن کی یکجہتی سے مسئلہ کشمیر پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ مقبوضہ کشمیر میں جاری جد وجہد پر اس دن کے منانے کے کیا اثرات پڑتے ہیں؟ عالمی سطح پر اس دن کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ یہ سوالات ذہن میں ابھرتے ہیں۔

1989 میں جب عسکری تحریک شروع ہوئی تو کشمیر کے کئی خاندان اس تحریک سے منسلک ہوئے اور انہیں ہجرت کرکے آزاد کشمیر آنا پڑا۔ آزاد حکومت کے ریکارڈ کے مطابق ہجرت کرنے والے ساڑھے 7ہزار خاندان تقریباً 42 ہزار نفوس کی آبادی پر مشتمل ہیں۔یہ لوگ جہاد سے منسلک ہونے پر آزادی کی تڑپ لئے ایک خواب کے ساتھ آزاد کشمیر ہجرت کرکے آئے اور اپنے خاندانوں سے بچھڑ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔25 سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود مہاجرین کے مسائل ہنوز برقرار ہیں۔ آزاد کشمیر میں مہاجرین کی آباد کاری کیلئے مہاجرین کیمپ بنائے گئے لیکن مطلوبہ سہولیات میسر نہ ہونے کے باعث ابھی تک یہ مہاجرین عارضی کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں، حکومت کی جانب سے کئی بار مستقل گھر بنانے کیلئے جگہ مختص کی گئی لیکن تاحال تعمیر نہ ہو سکی۔ یوں ان کا سب سے بڑا مسئلہ ابھی تک سیٹلمنٹ کا ہے ، جو خواب لے کر ہجرت کرنے والے آئے تھے اس کی تکمیل تو دور کی بات رہی ان کو بنیادی سہولیات بھی میسر نہ آ سکیں اور تاحال کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

آزاد حکومت کے ریکارڈ کے مطابق ہجرت کرنے والے ساڑھے 7ہزار خاندان تقریباً 42 ہزار نفوس کی آبادی پر مشتمل ہیں

ہجرت کرنے والوں کو اس دور میں بھی 66 روپے فی کس یومیہ کے حساب سے روزگار الاؤنس دیا جاتا ہے جو ان کو زندگی کے لوازمات پورے کرنے کیلئے شاید ہی کافی ہو۔ اس کے ساتھ آزاد کشمیر میں سرکاری نوکریوں کیلئے نوے کی دہائی کے مہاجرین کیلئے سرکاری نوکریوں میں 6 فیصد کوٹہ مختص کیا گیا ہے لیکن اس پر بھی عملدرآمد نہیں ہو رہا، گریڈ 17 یا اس سے اوپر کی پوسٹوں کیلئے تو اس پر کسی حد تک عملدرآمد ہوتا ہے تاہم سیاسی مداخلت کے باعث گریڈ 16 یا اس سے کم گریڈ کی جابز کیلئے اس کوٹے کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے کیونکہ مہاجرین کے پاس سیاسی اثر رسوخ نہیں ہے۔اس کے ساتھ بنیادی سہولیات خصوصی طور پر صحت اور تعلیم کی سہولیات کا شدید فقدان ہے اور 2005 کے زلزلے کے بعد ان کیمپوں کی حالت زیادہ ابتر ہوچکی ہے۔ ان مسائل کے ساتھ ساتھ ایک بڑا انسانی مسئلہ بھی درپیش ہے۔

نوے کی دہائی میں آنے والے کئی خاندان تقسیم کا شکار ہوئے، کچھ حصہ مقبوضہ کشمیر رہ گیا اور کچھ سیز فائر لائن عبور کر کے آزاد کشمیر پہنچ گئے۔ اب تین دہائیاں گزرنے کو ہیں ان خاندانوں کوملنے کا کوئی راستہ نہیں سامنے آ رہا ۔ 2003 میں شروع ہونے والی آر پار بس سروس کے ذریعے کچھ خاندانوں کو ملنے کا موقع ملا تاہم نوے فیصد خاندانوں کو ادھر سے ادھر نقل و حمل کی اجازت نہ مل سکی۔

آزاد کشمیر میں مقیم مہاجرین کیلئے سالانہ تقریبا 35 کروڑ روپے مختص کیے جاتے ہیں جس میں گزارا الاؤنس بھی شامل ہے لیکن گزارا لاؤنس کے علاوہ ان کی فلاح و بہبود کیلئے کچھ بھی خرچ نہیں کیا جاتا۔ امور بحالیات کا انچارج(جو ممبر اسمبلی بھی ہوتا ہے)وہ بھی بحالیات کے فنڈز کو زیادہ تر سیاسی رشوت کے طور پر استعمال کرتا ہے اور کچھ خاص لوگوں کو نوازنے کے سوا کوئی کام نہیں کروایا جاتا۔ بحالیات کمیٹی کی موجودہ چئیرپرسن اور ممبر قانون ساز اسمبلی نسیمہ وانی سے جب مہاجرین کے مسائل اور محکمہ بحالیات کے فنڈز کے استعمال کے حوالے سے استفسار کیا تو ان کا کہنا تھا کہ فنڈز کی رقم کا ان کو علم نہیں ۔ حالانکہ حال ہی میں انہوں نے اپنے کچھ منظورِ نظر لوگوں کو نوازتے ہوئے کئی سکیمیں سیاسی کارکنوں کو دیں۔ اس کے علاوہ مہاجرین کی فلاح و بہبود کیلئے ایک اور ادارہ ریفیوجیز منیجمنٹ سیل (RMC) بھی قائم ہے ۔ سرکار کی جانب سے ان اداروں کے قیام کے باوجود مہاجرین کے مسائل جوں کے توں ہیں۔

آر پار بس سروس کے ذریعے کچھ خاندانوں کو ملنے کا موقع ملا تاہم نوے فیصد خاندانوں کو ادھر سے ادھر نقل و حمل کی اجازت نہ مل سکی

مہاجرین کی دیکھ بھال ریاستی حکومت کی بڑی ذمہ داری تو ہے مگر متنازع ریاست کے باشندے ہونے کے ناطے انہیں آزاد کشمیر میں مہاجرین کا اسٹیٹس دینا از خود بہت بڑا سوال ہے۔ جب ہمارا دعوی یہ ہے کہ آرپار کشمیر بشمول گلگت بلتستان ایک ہے تو ایسے میں ریاست کے باشندوں کو مہاجر کہنا خود بڑاسوالیہ نشان ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ اقدام از خود ہمارے موقف کی نفی ہے۔

اس صورت حال میں کشمیریوں سے اصل یکجہتی اسی دن ہو سکے گی جب اب تقسیم شدہ خاندانوں کو آپس میں ملوانے کی عملی کوشش کی جائے گی،لائن آف کنٹرول کے اس پار سے آئے کشمیریوں کو ان کے بنیادی حقوق دئے جائیں گے۔ مستقل رہائش گاہوں کے ساتھ سرکاری جابز میں ان کیلئے مختص کوٹے پر عملدرآمد کیا جائے اور صحت اور تعلیم کی سہولیات مہیا کی جائیں۔یہی اصل یکجہتی ہو گی وگرنہ تو سری نگر والوں کو شاید ہماری یکجہتی کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کی قربانیاں بولتی ہیں۔ ان کی قربانیاں عالمی خبر رساں اداروں کی شہ سرخیاں ہوتی ہیں ان کی قربانیوں کو دنیا کے سامنے لانے تک ہمیں شاید ریلیوں کی ضرورت نہیں ہے ۔

اصل یکجہتی اسی دن ہو سکے گی جب اب تقسیم شدہ خاندانوں کو آپس میں ملوانے کی عملی کوشش کی جائے گی

ہمیں ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مقصد کیلئے جو لوگ اپنا گھر بار اور کارو بار زندگی چھوڑ کر آئے ان کے مسائل کو حل کیا جائے۔ ان کو سہولیات فراہم کی جائیں اور آزاد کشمیر کو ایک ماڈل اسٹیٹ بنایا جائے تاکہ اس خطے کے مسائل کو لے کر کہیں منفی پروپیگنڈہ نہ کیا جا سکے اور یہاں آنے والوں کیلئے مثبت تاثر ابھرے اور یہ کام شہروں اور گلی محلوں میں ریلیاں نکالنے سے نہیں بلکہ حکومت کی جانب سے عملی کام کرنے سے ممکن ہو گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے