شیزوفرینیا… فریب کی چوٹی سے موت کی کھائی تک

تیزی سے بڑھتے گو نا گوں معاشی و سماجی مسائل نےمُلک بھر کے عوام کو ذہنی کرب و ابتلامیں مبتلا کر رکھا ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف نِت نئے نفسیاتی عوارض جنم لے رہے ہیں، بلکہ عدم آگہی اور علاج معالجے کی سنگین حد تک ناکافی سہولتوں کی وجہ سے یہ جان لیوا بھی ثابت ہو رہے ہیں۔ ایسے میں پاکستان بالخصوص کراچی کا المیہ یہ ہے کہ اس دو کروڑ سے زاید آبادی والے شہر کے بڑے سرکاری اسپتالوں میں بھی نہایت تیزی سے پھیلتے ایک مُہلک اور دائمی نفسیاتی عارضے،’’ شیزوفرینیا‘‘ میں مبتلا مریضوں کو داخل کرنے کی سہولت تک موجود نہیں، جب کہ نجی اسپتالوں کا معاوضہ اس قدر زیادہ ہے کہ ایک عام آدمی ان میں علاج کروانے کا تصوّر بھی نہیں کر سکتا۔ شیزو فرینیا کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس مرض میں مبتلا فرد نہ صرف خود کو نقصان پہنچاتا ہے، بلکہ دوسروں کے لیے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔ یہ الم ناک حقیقت ہم پر تب منکشف ہوئی کہ جب ہمیں اس مُہلک مرض میں مبتلا اپنے والد کے علاج معالجے کے لیے مختلف اسپتالوں، معالجین اور رفاہی اداروں سے رابطہ کرنا پڑا۔ تاہم، سب سے زیادہ افسوس ایدھی فاؤنڈیشن کے منتظم، انور کاظمی کی زبانی یہ جان کر ہوا کہ ان کا عالمی شُہرت یافتہ رفاہی ادارہ بھی ایسے مریضوں کو ایڈمٹ نہیں کرتا۔

[pullquote]شیزوفرینیا… فریب کی چوٹی سے موت کی کھائی تک[/pullquote]

شیزو فرینیا کے اسباب، علامات، طریقۂ علاج، مُلک بَھر میں موجود اس بیماری سے متاثرہ افراد کی تعداد اور انہیں دست یاب علاج معالجے کی سہولتوں پر تفصیلی روشنی ڈالنے سے پہلے ہم اپنی درد ناک داستان قارئین کو سنانا چاہتے ہیں کہ جسے پڑھنے کے بعد ہی تمام تر صورتِ حال کا بہ خوبی ادراک ممکن ہے۔ تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے کہ اپنے انتقال سے تقریباً ایک ماہ قبل ہمارے 80سالہ والد،سیّدمحمد صابر، جو کئی انگریزی اخبارات سے لائنو پال آپریٹر کے طور پر منسلک رہے، بات بات پر ضد کرنے لگے تھے۔ مثلاً، ضعف اور چکر آنے کی وجہ سے ہم انہیں زیادہ نہ چلنے کی تلقین کرتے تھے، مگر وہ کسی کی ایک نہیں سُنتے تھے۔ ایک رات جب سب اہلِ خانہ سو رہے تھے، تو اچانک ہمیں والد کی چیخ سنائی دی۔ اٹھ کر دیکھا، تو وہ فرش پہ پڑے کراہ رہے تھے۔

وہ اپنے بستر سے لاؤنج تک جاتے ہوئے راستے میں گر گئے تھے۔ ہم نے اپنے بیٹے کی مدد سے انہیں اُٹھایا، تو پتا چلا کہ نہ صرف اُن کے ایک کاندھے کی ہڈی ٹوٹ چُکی ہے، بلکہ بافتیں پَھٹنے کی وجہ سے دوسرے ہاتھ کی کلائی سےبھی ٹیسیں اُٹھ رہی ہیں۔ کافی تگ و دو کے بعد والد اسپتال جانے پر آمادہ ہوئے، تو ہم نے انہیں جناح اسپتال منتقل کیا۔ توقّع کے عین مطابق ہمیں کافی دیر تک ڈاکٹر کا انتظار کرنا پڑا اور اس دوران والد تکلیف کے مارے مستقل کراہتے رہے۔ بالآخر ایک ڈاکٹر کو اُن کی حالت پر رحم آ ہی گیا۔ معالج نے کاندھے پر پلستر چڑھانے اور کلائی پر مرہم پٹّی کرنے کے بعد ادویہ تجویز کرتے ہوئے انہیں گھر لے جانے کی ہدایت کی۔ تاہم،اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ منظر وہ تھا کہ جب ہم نے گھر پہنچنے کے بعد انہیں دوائیں کھلانا چاہیں ،تو انہوں نے صاف انکار کر دیا اور ہمارے اصرار پر خود کو مارنے پیٹنے لگے۔ اُس دن کے بعد سے والد کی اس کیفیت میں شدّت آنے لگی۔ وہ نہ سوتے تھے اور نہ ہی کسی کی کوئی بات مانتے تھے، بلکہ ہر وقت کوئی ایک بات پکڑ کر اس کی گردان کرتے اور اپنا سَر پیٹتے رہتے۔

[pullquote]25لاکھ پاکستانی خطرناک نفسیاتی عارضے میں مبتلا[/pullquote]

ایک اندازے کے مطابق، اس وقت پاکستان میں کم و بیش25لاکھ افراد کو یہ بیماری لاحق ہے۔ اگر اس بیماری پر قابو نہ پایا گیا، تو2050ء تک یہ پاکستان سمیت پوری دُنیا کے لیے ایک بڑا خطرہ بن جائے گی۔ ذہنی امراض کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت دُنیا بَھر میں 45کروڑ کے لگ بھگ افراد مختلف ذہنی امراض کا شکار ہیں، جب کہ تقریباً ایک کروڑ 50لاکھ پاکستانی ڈیپریشن میں مبتلا ہیں۔ شیزو فرینیا میں مبتلا افراد اپنی صحت کا خیال نہ رکھنے کی وجہ سے دیگر مختلف امراض کا شکار ہو جاتے ہیں اور عام افراد کے مقابلے میں ان کی زندگی کا دورانیہ بھی خاصا کم ہو جاتا ہے۔ تاہم، اس کا سب سے خوف ناک نتیجہ خود کُشی کی صورت سامنے آتا ہے اور یہی اس مرض میں اموات کا سب سے بڑا سبب ہے۔ اس مرض میں مبتلا افراد میں خود کُشی کرنے کا رجحان عام انسانوں کی نسبت50گُنا زیادہ ہوتا ہے اور 10سے 13فی صد مریض خود کُشی کرلیتے ہیں، جب کہ40فی صد افراد کم از کم ایک مرتبہ اپنی جان لینے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔

جب ہم نے مختلف معالجین کو اپنے والد کی اس حالت کے بارے میں بتایا، تو سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ والد کو شیزوفرینیا (Schizophrenia) نامی دائمی بیماری لاحق ہو گئی ہے اورا نہیں ایک لمبے عرصے کے لیے ذہنی امراض کے کسی اسپتال میں داخل کروانا ہوگا۔ ہم نے سب سے پہلے ایدھی فاؤنڈیشن سے رابطہ کیا، تو انہوں نے اپنی مجبوری بیان کر دی۔ والد کی بگڑتی ہوئی حالت کے پیشِ نظر زمزمہ میں بیٹھنے والے ایک نام وَر نفسیاتی معالج سے رابطہ کیا، تو اُنہوں نے مذکورہ بالا بیماری کی تصدیق کرتے ہوئے کافی مہنگے ڈراپس تجویز کیے۔ ان سے والد کو صرف دو روز افاقہ ہوا اور تیسرے روز جب حالت دوبارہ بگڑ گئی، تو ہم نے کسی کے ذریعے جناح اسپتال کے شعبۂ ذہنی امراض کے سربراہ سے رابطہ کیا۔ انہوں نے خود معائنہ کرنے کی بہ جائے مریض کو اپنے معاون کے حوالے کر دیا، جس نے یہ معلوم ہونے کے باوجود کہ مریض کسی بھی صورت دوا لینے پر آمادہ نہیں اور اصرار پر سخت مزاحمت کرتا ہے، ادویہ تجویز کر دیں اور پھر سربراہِ شعبہ نے والد کی کیفیت پوچھنے کے بعد گھر ہی میں اُن کے علاج کا مشورہ دیا۔ دریں اثنا، جب ہم نے ڈاکٹر روتھ فاؤ سول اسپتال کے ڈاکٹرز سے رابطہ کیا، تو اُن کا کہنا تھا کہ ’’اسپتال میں نفسیاتی مریضوں کا وارڈ تو موجود ہے، لیکن آئسولیشن وارڈ نہیں۔ لہٰذا، مریض کو گھر ہی میں رکھنا زیادہ بہتر ہے۔‘‘ اس دوران ایک دوست نے گلشنِ اقبال میں بیت المکرّم مسجد کے قریب واقع، شہر کے ایک مشہور خیراتی اسپتال کے سربراہ سے رابطے کا مشورہ دیا۔

ہماری مذکورہ شخصیت سے ملاقات ہوئی، تو انہوں نے بڑے تحمل سے ہماری دُکھ بَھری داستان سُننے کے بعد کہا کہ ’’کچھ دیر بعد اسپتال کے ایڈمنسٹریٹر آپ سے رابطہ کریں گے۔‘‘ چند منٹوں بعد ہی ہمیں ایڈمنسٹریٹر کی کال موصول ہوئی۔ ہماری کرب ناک کتھا سُننے کے بعد انہوں نے کچھ یوں جواب دیا کہ ’’مُجھے آپ کے درد کا اندازہ ہے، کیوں کہ میرے سگے بھائی کا انتقال بھی اسی مُہلک بیماری کے سبب ہوا اور اس کی فیملی نے بھی آپ کی طرح خاصی ذہنی اذیّت سہی ۔‘‘ لیکن ہم دردی کے چند بول ادا کرنے کے بعد انہوں نے بھی بڑے شائستہ انداز سے والد کو ایڈمٹ کرنے سے انکار کر دیا۔ ہر طرف سے انکار کے بعد ہم نے مجبوراً گھر ہی میں والد کے علاج کا فیصلہ کیا اور جناح اسپتال کے ڈاکٹر کی تجویز کردہ گولیاں سفوف کی شکل میں کھانے میں ملا کر انہیں کھلانے کی سَر توڑ کوشش کی، مگر ناکام رہے، جب کہ ڈراپس لینے کے بعد اُن پر غنودگی طاری ہو جاتی اور دوا کا اثر ختم ہوتے ہی وہ ایک بار پھر آپے سے باہر ہو جاتے۔ ہم نے والد کی تیمار داری کے لیے ایک کُل وقتی اٹینڈنٹ یا خدمت گار رکھنے کا ارادہ کیا، لیکن جب اس سلسلے میں معلومات حاصل کیں، تو پتا چلا کہ ایک عام مریض کی تیمار داری کے لیے تو 15سے 18ہزار روپے ماہانہ میں اٹینڈنٹ مل جاتا ہے، مگر شیزوفرینیا کے مریض کی دیکھ بھال کرنے والے کا معاوضہ 25سے 30ہزار روپے ماہانہ ہے، جس کی جیب نے اجازت نہ دی۔ سو، خود ہی والد کی دیکھ بھال کی ذمّے داری سنبھال لی۔ ہم رات بَھر انتہائی چوکنّا ہو کر والد کے سرہانے بیٹھے رہتے۔ وہ تھوڑے تھوڑے وقفے سے پانی مانگتے اور پھر صرف ایک گھونٹ پی کر گلاس واپس کر دیتے۔ پھر چُوں کہ وہ پیمپر پہنانے پر سخت مزاحمت کرتے تھے، اس لیے بڑی مشکل سے رفع حاجت پر آمادہ ہوتے۔ علاوہ ازیں، غنودگی کے عالم میں اچانک چِلاّنے لگتے اور جب ہم اُن سے پوچھتے کہ ’’پاپا! کیوں شور مچا رہے ہیں؟‘‘ تو وہ نہایت سکون سے جواب دیتے کہ ’’مَیں توشور نہیں مچا رہا۔‘‘ اس سارے عرصے میں ہم جس کرب، تکلیف اور پریشانی سے گزرے، اس کا اندازہ صرف وہی لگا سکتا ہے کہ جو خود ان حالات سے گزرا ہو۔

اتوار، مورخہ26نومبر2018ء… یہ دن اور تاریخ مُجھےزندگی بَھر یاد رہے گی۔ اُس روز والد کو شاید اندازہ ہو گیا تھا کہ اُن کا آخری وقت آن پہنچا ہے ۔ اُنہوں نے واش رُوم جانے کی خواہش ظاہر کی، تو مَیں نے کہا کہ ’’پاپا! آپ چل نہیں پائیں گے، مَیں پیمپر پہنا دیتا ہوں۔‘‘ خیال تھا کہ وہ ہمیشہ کی طرح انکار کر دیں گے، لیکن اُس وقت حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جب وہ بِلا چوں چراں پیمپر پہننے پر آمادہ ہو گئے۔ رفعِ احتیاج کے بعد مَیں نے انہیں چند پھلوں کے آمیزے میں، جو آخری دِنوں میں اُن کی خوراک ہوا کرتا تھا، دوا کے قطرے ملا کر کھلائے، جس کے بعد وہ سکون سے سو گئے۔ شام کو جب دوا کا اثر زائل ہونا شروع ہوا اور وہ دوبارہ چیخنےچِلاّنے لگے، تو مَیں نے ان کے پیروں کے انگوٹھے پکڑ کر کہا کہ ’’پاپا! لگتا ہے آپ نے مُجھے تنگ کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ آپ کیوں چیخ رہے ہیں؟‘‘ آواز سُن کر اُنہوں نے اپنی آنکھیں نیم وا کیں اور پھر اس انداز سے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے گال چھوئے، جیسے کہہ رہے ہوں، ’’ ہرگز نہیں بیٹا۔‘‘مَیں نے اُن کے تلوؤں پر گدگدی کی، تو زندگی میں پہلی بار گدگدی کی وجہ سے انہیں مسکراتے دیکھا۔ پھر مَیں اُن کے سرہانے بیٹھ گیا اور دِل گرفتگی کے عالم میں کہا کہ ’’پایا! اگر میری کسی بات سے آپ کو تکلیف پہنچی ہو، تو مَیں آپ سے معافی چاہتا ہوں۔ مُجھے معاف کر دیجیے گا۔‘‘ یہ سُن کر اُنہوں نے اپنا ہاتھ آسمان کی طرف یوں بلند کیا ، جیسے کہہ رہے ہوں، ’’بیٹا! مَیں نے تمہیں معاف کر دیا۔‘‘ والد کے اس عمل سے مُجھے جو ذہنی سکون ملا، وہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔ رات 10 بجے کے قریب مَیں نے پَھلوں کا آمیزہ کھلانے کی کوشش کی، تو صرف دو چمچ کھانے کے بعد وہ سو گئے۔ تقریباً 11:30 پر مُجھے والد کی قے کرنے کی آواز آئی۔ فوراً اُن کے کمرے کی جانب دوڑا اور ساتھ ہی بیٹے کو بھی پکارا۔ مَیں جیسے ہی اُن کے سرہانے پہنچا، تو اُنہوں نے ادھ کُھلی آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور ایک بڑی سی قے کردی۔ پھر مَیں نے جونہی انہیں اپنے بازوئوں میں اُٹھایا، تو اُن کا سَر ایک جانب ڈھلک گیا ۔ وہ خالقِ حقیقی سے جاملے۔

یہ دَرد بھری داستان قارئین تک پہنچانے کا پہلا مقصد تو یہ ہے کہ ہمارے یہاں صحافیوں کو بہت با اثر سمجھا جاتا ہے کہ جو طاقت وَر شخصیات تک رسائی رکھتے ہیں، مگر بعض حالات و واقعات ایک اثروروسوخ رکھنے والے صحافی کو بھی بے بس اور لاچار کر دیتے ہیں اور اس کے پیارے اس کی نظروں کے سامنے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مَر جاتے ہیں۔ اس کہانی کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ شاید اس سے متاثر ہو کر حُکّام اور مخیّر افراد شیزو فرینیا جیسے مُہلک اور دائمی مرض میں مبتلا افراد کے اسپتالوں یا فلاحی اداروں میں قیام کا بندوبست کرنے پر مجبور ہو جائیں، تاکہ ہماری طرح دوسروں کو اس اذیّت ناک کیفیت سے نہ گزرنا پڑے۔ یوں تو ہر مسلمان کی طرح ہمارا بھی اس بات پر ایمان ہے کہ موت کا ایک دن معیّن ہے، مگر یہ خلش دِل میں ہمیشہ باقی رہے گی کہ ہم اپنے والد کو کسی اسپتال میں داخل نہ کروا سکے کہ شایداس طرح مزید کچھ عرصے تک ہمارے سَر پہ اُن کا مہربان سایہ قائم رہتا۔ گرچہ والد کو ہم سے بچھڑے دو ماہ سے زاید کا عرصہ بیت چُکا ہے، مگر آج بھی اُن کی چیخیں کانوں میں گونجتی رہتی ہیں اور اکثر رات کو سوتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ ہمیں بلا رہے ہیں ۔ والد تو اس دُنیا سے رخصت ہو گئے، مگر کئی ایسی یادیں چھوڑ گئے ہیں کہ جنہیں دہرا کر آنسو رواں ہو جاتے ہیں۔ انتقال سے چند روز قبل مَیںانہیں لاؤنج میں بٹھا کر چمچے سے دلیا کھلارہا تھا، تو اُنہوں نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’بیٹا! قدرت کا بھی کیسا نظام ہے۔ برسوں پہلے مَیں آپ کو بالکل اسی طرح کِھلاتا، پلاتا تھا، جیسے آج آپ مُجھے کھلا رہے ہیں۔‘‘ اسی طرح جب وہ بسترِ علالت پر تھے، تو انہیں اندھیرے سے خوف آنے لگا تھا اور وہ اپنے کمرے کی لائٹ اور دروازہ بند نہیں کرنے دیتے تھے۔ ایک رات وہ بہت زیادہ چیخ رہے تھے، تو مَیں نے اُن سے کہا کہ ’’مَیں لائٹ بند کر رہا ہوں، تاکہ آپ کو نیند آجائے۔‘‘ اور پھر مَیں نے لائٹ کے ساتھ ہی دروازہ بھی بند کر دیا، لیکن میری اس حرکت نے انہیں شدید طیش دلا دیا اور انہوں نے اتنی شدّت سے چیخنا اور خود کو پیٹنا شروع کر دیا کہ خوف کے مارے سب گھر والوں کی حالت غیر ہو گئی۔ ہم نے فوراً کمرے کا دروازہ اور تمام لائٹس آن کر دیں اور پھر تھوڑی ہی دیر بعد وہ بالکل پُر سکون ہو گئے۔ جس روز انہیں لحد میں اُتارا گیا، تو مَیں یہ سوچ کر آب دِیدہ ہو گیا کہ’’ پاپا تو ایک سیکنڈ کے لیے بھی اندھیرا برداشت نہیں کرتے تھے، اب تاریک قبر میں کیسے رہیں گے۔‘‘بہرکیف،والد کی موت کے بعد ہم نے شیزوفرینیا جیسے مُہلک دائمی مرض کے بارے میں لکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس موقعے پر مختلف معالجین کے ساتھ بات چیت اور تحقیق کے نتیجے میں سب سے زیادہ پریشان کُن بات یہ سامنے آئی کہ شیزو فرینیا ایک نسل سے دوسری نسل میں بھی منتقل ہو سکتا ہے اور ہمیں اچّھی طرح یاد ہے کہ عُمر کے آخری حصّے میں ہمارے دادا میں بھی کچھ اسی قسم کی کیفیات ظاہر ہونا شروع ہو گئی تھیں۔

کراچی سمیت مُلک کے مختلف شہروں سے شیزو فرینیا کے حوالے سے کی گئی تحقیق اور جمع کی گئی معلومات سے پتا چلتا ہے کہ یہ ایک سنگین نفسیاتی عارضہ ہے، جس میں مبتلا فرد کو عجیب و غریب آوازیں سُنائی اور مافوق الفطرت اشیاء دکھائی دیتی ہیں۔ متاثرہ فرد ہم کلامی کرنے کے علاوہ بیٹھے بٹھائے ہنسنے یا رونے لگتا ہے۔ انسانوں کو اپنا دشمن اور غیر مرئی چیزوں کو اپنا ہم درد سمجھنے لگتا ہے۔ اپنی صفائی سُتھرائی کا خیال نہیں رکھتا۔ بیمار ہونے کے باوجود خود کو صحت مند تصوّر کرتا ہے اور ادویہ و علاج معالجے سے دُور بھاگتا ہے، جس کے نتیجے میں مرض شدّت اختیار کر جاتا ہے۔ خیال رہے کہ حال ہی میں انتقال کرنے والی ماضی کی معروف اداکارہ،روحی بانوبھی شیزوفرینیا میں مبتلا تھیں اور اس مرض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے تین قاتلوں کی سزائے موت بھی ٹَل گئی۔ اس خبر کو مقامی و غیر مُلکی ذرایع ابلاغ نے نمایاں اندازمیںشایع و نشر کیا۔ ماہرینِ نفسیات کے مطابق، یہ بیماری ہمارے دماغ میں موجود چند کیمیکلز کے عدم توازن، بالخصوص ڈوپامائن نامی کیمیکل کی مقدار میں اضافے کے باعث ہوتی ہے۔ تاہم، ادویہ کے ذریعے اس پر قابو پایا جا سکتا ہے اور کئی نوبیل انعام یافتہ شخصیات بھی اس مرض میں مبتلا رہ چُکی ہیں۔ اس ضمن میں کراچی سے تعلق رکھنے والے ذہنی امراض کے ماہر، ڈاکٹر وجاہت قاضی نے یہ تشویش ناک انکشاف کیا کہ ’’آج سے چند برس قبل تک10ہزار ذہنی مریضوں میں سے کوئی ایک شیزو فرینیا میں مبتلا ہوتا تھا، جب کہ آج ہر ایک سو میں سے تین مریض اس خطرناک بیماری میں مبتلا ہیں۔ ابتدا میں ان مریضوں کو ڈانٹ ڈپٹ اور پیار سے سمجھایا جاتا ہے اور اعصاب پر قابو رکھنے کے لیے انجیکشن لگانے کے علاوہ ڈراپس دیے جاتے ہیں۔ ان ادویہ کے نتیجے میں تین ماہ میں مریض کی حالت سنبھل جاتی ہے اور پھر اسے عُمر بَھر کے لیے دیگر ادویہ تجویز کی جاتی ہیں۔‘‘ تاہم، مشہور طبیب، حکیم فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ ’’حکمت میں شیزو فرینیا کا مکمل علاج موجود ہے۔ یونانی علاج کے نتیجے میں مریض نہ صرف جلد شفا یاب ہو جاتا ہے، بلکہ اسے عُمر بَھر ادویہ بھی نہیں لینا پڑتیں اور اب مغربی معالجین بھی اس کی افادیت تسلیم کر ر ہے ہیں۔ ‘‘جناح اسپتال، کراچی کے شعبۂ نفسیات اور علومِ رویّہ جات کے اسسٹنٹ پروفیسر، ڈاکٹر جاوید اکبر درس نے بتایا کہ ’’ہمارے معاشرے میں جب کوئی فرد اس مرض میں مبتلا ہو کر بہکی بہکی باتیں اور عجیب و غریب حرکتیں کرنے لگتا ہے، تو اپنی کم علمی اور ضعیف الاعتقادی کے باعث اس کے اہلِ خانہ یہ گمان کرتے ہیں کہ اس پر کسی جِن، بُھوت کا سایہ آگیا ہے۔ نتیجتاً، نفسیاتی امراض کے ماہر سے رجوع کی بہ جائے متاثرہ فرد کو نام نہاد روحانی معالجین کے پاس لے جایا جاتا ہے، جو علاج کے نام پر مریض پر تشدّد تک کرتے ہیں اور جب مریض کی حالت مزید بگڑ جاتی ہے، تو پھر متعلقہ ڈاکٹرز سے رابطہ کیا جاتا ہے، لیکن اگر متاثرہ فرد کو ابتدا ہی میں نفسیاتی معالج کے پاس لایا جائے، تو مرض کی تشخیص ہوتے ہی اُس کا علاج شروع کر دیا جاتا ہے اور یوں بیماری پر قابو پا لیا جاتا ہے۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ’’عالمی جائزوں کی رُو سے ہر ایک سو میں سے ایک فرد شیزو فرینیا میں مبتلا ہوتا ہے۔ چُوں کہ پاکستان میں ایسے مریضوں کے اعداد وشمار جمع کرنے کا کوئی انتظام نہیں، لہٰذا بین الاقوامی تخمینوں کی رُو سے کہا جا سکتا ہے کہ کراچی میں ایک لاکھ 60ہزار افراد شیزو فرینیا میں مبتلا ہیں۔‘‘ ڈاکٹر جاوید اکبر درس کا مزید کہنا تھا کہ ’’ اس مرض میں مبتلا فرد کا علاج اس لیے مشکل ہوتا ہے کہ مریض خود کو صحت مند تصوّر کرتا ہے اور دوا سے دُور بھاگتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ کبھی ہر کام میں معمول سے زیادہ پُھرتی دکھانے لگتا ہے، تو کبھی پژمردگی کا شکار ہو کر خود کو ایک کمرے میں بند کر لیتا ہے۔‘‘ ذہنی امراض کے ماہر کے مطابق، جناح اسپتال میں شیزو فرینیا کے مریضوں کے لیے ایک خصوصی کلینک قائم کیا گیا ہے، جہاں ہفتے کو صبح 9سے دن12بجے تک مریضوں کا معائنہ کیا جاتا ہے۔ اس وقت ہمارے پاس شیزو فرینیا کے ایک سو سے زاید مریض رجسٹرڈ ہیں ، جب کہ مریض کے ساتھ اس کے اہلِ خانہ کی بھی کائونسلنگ کی جاتی ہے۔‘‘ڈاؤ یونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے ڈاکٹر عبدالقدیر خان انسٹی ٹیوٹ آف بیہیوریل سائنسز کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر، بریگیڈیئر (ر) شعیب احمد نے بتایا کہ ’’شیزو فرینیا نفسیاتی بیماریوں میں سب سے خطرناک مرض ہے، جو عموماً نوجوانی میں لاحق ہوتا ہے کہ جب ذہن نشوونما پا رہا ہوتا ہے۔ عام طور پر 13برس سے زاید عُمر کے لڑکے اور 22برس سے زاید عُمرکی لڑکیاں اس مرض میں مبتلا ہوتی ہیں۔ یہ مرض بہ ذاتِ خود جان لیوا نہیں، لیکن اس میں مبتلا بیش تر افراد اپنی ذہنی کیفیت سے عاجز آکر خود کُشی کر لیتے ہیں۔ تاہم، یہ بیماری لا علاج نہیں اور ادویہ کے ذریعے اسے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔‘‘

[pullquote]نفسیاتی امراض سے متعلق آگہی مُہم چلائی جائے،ڈاکٹر مرزا علی اظہر[/pullquote]

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سینئر رہنما، ڈاکٹر مرزا علی اظہر کا کہنا ہے کہ ’’افراتفری اور مالی و سماجی مسائل کے باعث معاشرے میں نفسیاتی امراض تیزی سے بڑھ رہے ہیں، لیکن شیزو فرینیا جیسے سنگین دائمی مرض سمیت دیگر نفسیاتی بیماریوں کے علاج کے لیے نہ صرف ماہرین بلکہ مراکزِ صحت کا بھی فقدان ہے، جسے دُور کرنے کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت کو نفسیاتی امراض سے متعلق آگہی فراہم کرنے کے لیے مُہم چلانی چاہیے اور عوام کو یہ بتانا چاہیے کہ دیگر بیماریوں کی طرح شیزو فرینیا بھی ایک بیماری ہے۔ اسے چُھپانے کی بہ جائے اس کا علاج کروایا جائے، کیوں کہ یہ ایک قابلِ علاج مرض ہے۔نیز،ایم بی بی ایس کے نصاب میں نفسیاتی امراض کو سرسری سا پڑھایا جاتا ہے۔ لہٰذا، نصاب میں تبدیلی کی بھی ضرورت ہے، تاکہ عام ڈاکٹرز کو بھی نفسیاتی امراض سے متعلق خاطر خواہ معلومات ہوں۔ نیز، میڈیا پر بھی یہ ذمّے داری عاید ہوتی ہے کہ وہ شیزو فرینیا سمیت دیگر نفسیاتی امراض سے متعلق ٹاک شوز کرے، تا کہ لوگوں کا ڈر، خوف اور جھجک ختم ہو اور وہ نفسیاتی عوارض پر بھی کُھل کر بات کر سکیں۔‘‘

شیزو فرینیا کی علامات، اسباب اور اقسام پر روشنی ڈالتے ہوئے حیدر آباد نفسیاتی اسپتال کے ڈائریکٹر، ڈاکٹر ایشور کمار نے کہا کہ ’’ اگر کسی فرد کے ذہن میں خلل واقع ہونے سے اس کے معمولاتِ زندگی متاثر ہونے لگیں اور یہ صورتِ حال 6ماہ تک برقرار رہے، تو یہ شیزو فرینیا کی علامت ہے۔ اس مرض کی کئی اقسام ہیں۔ پہلی قسم کا شکار مریض دوسروں پر شک کرتا ہے۔ دوسری قسم میں مبتلا مریض گھنٹوں بیٹھا، کھڑا یا چلتا رہتا ہے۔ شیزو فرینیا کی تیسری قسم سے دوچار فرد بچکانہ حرکتیں کرنے لگتا ہے، جب کہ مرض کی چوتھی قسم مریض پر پژمردگی طاری کر دیتی ہے اور وہ خود کو ایک کمرے تک محدود کر لیتا ہے۔ دُنیا میں جتنی تحقیق اس بیماری پر ہوئی ہے، شاید ہی کسی اور مرض پر ہوئی ہو، لیکن فی الوقت اس بیماری کا کوئی مخصوص سبب دریافت نہیں ہو سکا۔ البتہ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ مرض عموماً دماغ میں موجود کیمیکلز میں عدم توازن پیدا ہونے اور دورانِ زچگی بچّے کو سَر پہ ضرب لگنے سے لاحق ہوتا ہے، جب کہ 70فی صد مریضوں کو یہ وراثت میں ملتا ہے۔ چُوں کہ مذکورہ مرض میں مبتلا 97فی صد افراد خود کو بیمار نہیں سمجھتے، اس لیے وہ ادویہ کے استعمال پر مزاحمت کرتے ہیں ۔ نیز، مریض کو تنہا رکھ کر اس کا علاج کیا جاتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر ایشور کا مزید کہنا تھا کہ ’’کیٹاٹونک شیزو فرینیا میں مبتلا مریض کی ای سی ٹی یعنی الیکٹرو کنولزیو تھراپی (Electroconvulsive Therapy) کی جاتی ہے۔ چُوں کہ اس طریقۂ علاج میں مریض کو کرنٹ لگایا جاتا ہے، اس لیے ہمارے ہاں بعض افراد اس پر تنقید کرتے ہیں، حالاں کہ دُنیا بَھر میں یہ تھراپی رائج ہے۔‘‘ اُن کے مطابق، ’’کراچی اور حیدر آباد سمیت صوبے بَھر کے سرکاری اسپتالوں میں اس مرض کے علاج کی سہولتیں موجود ہیں اور ان اسپتالوں کے شعبۂ ذہنی امراض میں زیادہ تر شیزو فرینیا کے مریض ہی ہوتے ہیں، جنہیں طویل عرصے تک زیرِ علاج رکھا جاتا ہے اور اکثر مریضوں کا علاج زندگی بَھر جاری رہتا ہے۔ اس بیماری کی ادویہ کی قیمت ایک روپے سے لے کر 40روپے تک، جب کہ انجیکشن 60روپے سے لے کر 450روپے تک کا ہے، جسے مہینے میں ایک سے دو بار لگانا پڑتا ہے۔‘‘

مینٹل ہیلتھ فیڈریشن آف پاکستان کے صدر اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونی ورسٹی، لاہور کے شعبۂ دماغی و نفسیاتی امراض کے سابق سربراہ، پروفیسر ڈاکٹر اعجاز احمد خان ترین نے مرض سے متعلق بتایا کہ ’’شیزو فرینیا ایک عام بیماری ہے، جو کسی بھی شعبۂ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے فرد کو لاحق ہو سکتی ہے۔ یہ مرض عموماً عُمر کے ابتدائی حصّے میں لاحق ہوتا ہے، البتہ 60برس سے زاید عُمر کے افراد بھی اس میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ گرچہ پاکستان میں اس مرض میں مبتلا افراد کا تناسب ایک فی صد ہے، لیکن یہ تعداد اس لحاظ سے زیادہ تشویش ناک ہے کہ ان مریضوں کو طویل مدّت تک اسپتال میں زیرِ علاج رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ آج سے چند برس قبل تک شیزو فرینیا کے مریضوں کو عُمر بَھر علاج کروانا پڑتا تھا، مگر آج ایسی ادویہ دست یاب ہیں کہ جن کے استعمال سے مرض میں مبتلا افراد کو پوری زندگی علاج نہیں کروانا پڑتا اور وہ کچھ ہی عرصے میں شفا یاب ہو کر عام افراد کی طرح زندگی گزارنے لگتے ہیں۔‘‘ کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونی ورسٹی، لاہور کی تاحیات پروفیسر، ڈاکٹر خالدہ ترین کے مطابق، ’’شیزو فرینیا نامی اعصابی بیماری میں متاثرہ فرد کو حقیقی اور خیالی دُنیا میں فرق کرنے میں دشواری ہوتی ہے، جس کے باعث مریض کے رویّے میں تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور وہ ہمہ وقت الجھن اور چڑچڑے پن کا شکار، منتشر الذّہن، تنہائی پسند اور گھبرایا ہوا رہنے لگتا ہے۔ اگر مرض کی بروقت تشخیص نہ ہو اور علاج نہ کروایا جائے، تو بیماری میں شدّت آنے لگتی ہے اور مریض خود کلامی اور دوسروں پر شک کرنے لگتا ہے۔ اسے مکمل طور پر وراثتی مرض نہیں کہا جا سکتا اور اُن افراد کے بھی اس بیماری میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے ، جن کے خاندان کا کوئی فرد پہلے اس مرض کا شکار نہ ہوا ہو۔ مختلف اوقات میں ہونے والی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ اس بیماری میں مبتلا مریضوں کے دماغ میں موجود ڈوپا مائن نامی کیمیکل یا نیورو ٹرانسمیٹر بے قاعدگی کا شکار ہو جاتا ہے۔ نیز، سیرو ٹونن کی سطح میں اضافہ بھی اس مرض کا سبب بن سکتا ہے۔ تاہم، جدید ادویہ کی مدد سے اس کی سطح معمول پر لائی جا سکتی ہے۔

‘‘پنجاب یونی ورسٹی کے شعبۂ اطلاقی نفسیات کی ایسوسی ایٹ پروفیسر، ڈاکٹر رفیعہ رفیق نے بتایا کہ ’’پاکستان میں شیزو فرینیا کے مریضوں میں بہ تدریج اضافہ ہو رہا ہے اور اگر اس مرض پر قابو نہ پایا گیا، تو یہ خوف ناک صورت اختیار کر سکتا ہے۔ گرچہ اس وقت پنجاب کے تمام بڑے اسپتالوں میں ذہنی امراض کے شعبہ جات قائم اور فعال بھی ہیں، مگر ذہنی مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے اعتبار سے علاج معالجے کی سہولتیں ناکافی ہیں۔ لہٰذا، حکومت کو چاہیے کہ وہ ٹیچنگ اسپتالوں کے علاوہ ڈی ایچ کیو اور ٹی ایچ کیو اسپتال میں بھی ذہنی امراض کے شعبے قائم کرے اور ضلعے اور تحصیل کی سطح پر ذہنی مریضوں کو علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کی جائیں۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’’شیزو فرینیا میں اضافے کا ایک سبب خاندان میں ہونے والی شادیاں بھی ہیں، مگر اس سے بھی زیادہ ذمّے دار بڑھتی ہوئی بے روزگاری و مہنگائی، دہشت گردی اور دیگر عوامل ہیں،لہٰذامرض کی روک تھام اور مریضوں کو علاج معالجے کی بہتر سہولتوں کی فراہمی کے لیے معاشرے کے تمام طبقات کو مل کر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔‘‘ کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونی ورسٹی میو اسپتال، لاہور کے شعبۂ نفسیات کے اسسٹنٹ پروفیسر، ڈاکٹر عثمان ہوتیانہ کے مطابق، ’’پاکستان میں ہر ایک سو میں سے ایک فرد شیزو فرینیا جیسے خوف ناک مرض کا شکار ہے اور اس شرح میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔ اس بیماری سے متاثرہ فرد کے دماغ کے بعض حصّے پگھلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ عدم آگہی، علاج معالجے کی ناکافی سہولتیں اور روایتی طریقۂ علاج پاکستان میں اس مرض میں اضافے کے اہم اسباب ہیں اور میرے تجربے کے مطابق توشیزو فرینیا کے ہر مریض کو طویل عرصے تک اسپتال میں رہنا پڑتا ہے ، جب کہ ایسے مریضوں کی صحت یابی کا تناسب صرف 8فی صد ہے، کیوں کہ 30فی صد مریضوں پر تو ادویہ بھی زیادہ اثر نہیں کرتیں۔‘‘

[pullquote]ذہنی صحت کے شعبے میں دستیاب سہولتیں[/pullquote]

پاکستان بَھر میں ذہنی صحت کے شعبے میں دست یاب سہولتوں کا اندازہ عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے2014ء میں جاری کیے گئے اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے۔ ان تخمینوں کے مطابق، مُلک میں فی لاکھ آبادی کے لیے ماہرینِ ذہنی امراض اور ماہرینِ نفسیات کا تناسب بالتّرتیب 0.31اور 1.0ہے، جب کہ اس شعبے میں کام کرنے والی نرسز اور سوشل ورکرز کا تناسب بالتّرتیب 15.43اور 32.2ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق، ماہرینِ ذہنی امراض اور ماہرینِ نفسیات کی تعداد کے اعتبار سے دُنیا بَھر میں پاکستان بالتّرتیب 89ویں اور 50ویں نمبر پر ہے، جب کہ نرسز اور سوشل ورکرز کے لحاظ سے 29ویں اور 17ویں نمبر پر ہے۔عالمی ادارۂ صحت کے مینٹل ہیلتھ اٹلس 2011ء کا جائزہ لینے سے پتا چلتا ہے کہ 2010ء میں مُلک بَھر کے جنرل اسپتالوں میں ذہنی امراض میں مبتلا افراد کے لیے بستر کی تعداد 3,231تھی۔ یعنی فی لاکھ آبادی کے لیے محض 1.74بسترمختص تھے، جب کہ مُلک بَھر کے 5ذہنی امراض کے اسپتالوں میں بستروں کی تعداد 1,825تھی اور فی لاکھ افراد کے لیے ان کا تناسب 0.98بنتا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ گرچہ ذہنی صحت کی سہولتوں کا یہ منظر نامہ عالمی صورتِ حال سے تقریباً ملتا جلتا ہے، لیکن ذہنی امراض میں اضافے کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے یہ شعبہ اربابِ اختیار کی فوری توجّہ کا متقاضی ہے۔

پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ، لاہور سے وابستہ ماہرِ ذہنی امراض، ڈاکٹر طاہر پرویز کا کہنا تھا کہ ’’اگر شیزو فرینیا کی تشخیص بر وقت ہو جائے، تو مریض کی صحت یابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ متاثرہ فرد کو کئی اقسام کی ادویہ کا کورس کروایا جاتا ہے اور ساتھ ہی تھراپسٹ اور معالج کی جانب سے اس کی کائونسلنگ بھی کی جاتی ہے۔ نیز، اینٹی سائکوٹک ادویہ کی ایجاد نے بھی مرض کا علاج ممکن بنا دیا ہے۔‘‘ اسپتال سے متعلق انہوں نے بتایا کہ ’’ یہ 1400بستروں پر مشتمل ایک بڑا اسپتال ہے، جس میں اس وقت ایک ہزار سے زاید مریض زیرِ علاج ہیں۔ ان میں سے 500سے زاید شیزو فرینیا میں مبتلا ہیں، جن پر خصوصی توجّہ دی جاتی ہے، کیوں کہ اس مرض میں مبتلا 10فی صد افراد خود کُشی کرلیتے ہیں اور بیش تر شک کی وجہ سے دوسروں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ‘‘ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) سینٹرل کے سربراہ، پروفیسر ڈاکٹر اشرف نظامی کا کہنا ہے کہ ’’قیامِ پاکستان سے اب تک ذہنی صحت کے حوالے سے سرکاری سطح پر کوئی خاطر خواہ کام نہیں ہوا اور ذہنی مریضوں کے علاج کی آڑ میں نجی شعبے کے تحت ہر شہر میں گویا عقوبت خانے قائم ہیں۔ ہر چند کہ ان کے خلاف کارروائی کرنا ہیلتھ کیئر کمیشن کی ذمّے داری ہے، لیکن اس ادارے کی کارکردگی نہایت مایوس کُن ہے۔ اس مسئلے کی جانب سپریم کورٹ نے توجّہ دلوائی، لیکن وہ بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی۔دراصل معاشی و سماجی مسائل کے سبب آج پاکستان میں ہر تیسرا فرد ڈیپریشن کا شکار ہے اور اسی لیے شیزو فرینیا کے مریضوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے تدارک کے لیے ڈویژن اور تحصیل کی سطح پر ذہنی صحت کی بحالی کے مراکز اور ماہرینِ ذہنی امراض کی تعداد بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔‘‘

[pullquote]دُنیا بھر میں ایک فی صد، ترقّی یافتہ ممالک میں5فی صد افراد مرض کا شکار[/pullquote]

سروے کے دوران کی گئی تحقیق سے اندازہ ہوا کہ ترقّی پزیر ممالک کے مقابلے میں امریکا اور برطانیہ سمیت دیگر ترقّی یافتہ ممالک میں شیزو فرینیا میں مبتلا افراد کی تعداد زیادہ ہے۔ گرچہ اس مرض کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں، مگر دو سے تین ماہ تک مستقل دوا لینے اور سائیکو تھراپی سے مریض کی حالت خاصی بہتر ہو جاتی ہے ۔ البتہ اسے عُمر بَھر یہ ادویہ استعمال کرنا پڑتی ہیں۔ دُنیا بَھر میں ایک فی صد افراد اس مرض میں مبتلا ہیں، جب کہ ترقّی یافتہ ممالک میں یہ شرح 5فی صد تک پہنچ چُکی ہے۔ یہ بیماری زیادہ تر 18سے 35برس کے مَردوں اور 35سے 55برس کی خواتین کو لاحق ہوتی ہے۔ امریکی اور برطانوی تحقیق کے مطابق، چین میں شیزو فرینیا کے شکار افراد کی تعداد 3کروڑ 60لاکھ، بھارت میں 2کروڑ 61لاکھ، امریکا میں 66لاکھ، آسٹریلیا میں 5لاکھ 70ہزار، کینیڈا میں 5لاکھ 60ہزار اور برطانیہ میں 5لاکھ سے زاید ہے۔ ریسرچ کے نتیجے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ شیزو فرینیا میں مبتلا مریض کے خاندان کےافراد کے اس بیماری کے شکار ہونے کا خدشہ10فی صد بڑھ جاتا ہے۔ ہر چند کہ اب تک اس مرض کا مکمل علاج تو دریافت نہیں کیا جا سکا، مگر شدّت کم سے کم تر کرنے کے لیے نِت نئی ادویہ ضرور تیار کی جارہی ہیں اور ترقّی یافتہ ممالک کے سرکاری اسپتالوں میں ان مریضوں کے لیے ایسے مخصوص وارڈز موجود ہیں، جہاں انہیں طویل عرصے تک تنہا رکھا جاتا ہے۔
صوبہ خیبرپختون خوا کے تینوں بڑے تدریسی اسپتالوں سمیت سینٹرل جیل، پشاور میں قائم ذہنی امراض کے واحد سرکاری اسپتال میں روزانہ ایک سو سے زاید شیزو فرینیا کے مریض لائے جاتے ہیں، لیکن یہاں علاج معالجے کی سہولتوں کا شدید فقدان ہے۔ پھر سرکاری سطح پر نہ تو اس مُہلک مرض میں مبتلا افراد کے اعداد و شمار موجود ہیں اور نہ ہی ان کے مفت علاج کا کوئی بندوبست کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں، ذہنی مریضوں کے لیے 8برس بعد بھی فاؤنٹین ہاؤس کی تعمیر مکمل نہیں ہوسکی۔

صوبے کے دماغی امراض کے واحد سرکاری اسپتال میں بھی مریضوں کے لیے جگہ کم پڑ گئی ہے، جس پر سابق چیف جسٹس آف پاکستان، ثاقب نثار نے شدید برہمی کا اظہار کیا تھا۔ دماغی امراض کے ماہرین کے مطابق، ذہنی امراض میں مبتلا افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھتے ہوئے مزید اسپتال قائم کرنے کے علاوہ ان کے مفت علاج کے لیے منصوبہ بندی کی بھی اشد ضرورت ہے۔ سرحد اسپتال برائے دماغی امراض، پشاور سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق، یہاں مجموعی طور پر 140بستر ہیں، جن میں سے 30خواتین مریضوں کے لیے مختص ہیں۔ یہاں روزانہ شیزو فرینیا کے شکار لگ بھگ 60مریض لائے جاتے ہیں، جب کہ سالانہ اوسطاً مختلف ذہنی امراض میں مبتلا 19ہزار افراد کا علاج کیا جاتا ہے، جن میں نئے اور پرانے دونوں مریض شامل ہیں۔ مذکورہ اسپتال کے انچارج اور کنسلٹنٹ، ڈاکٹر محمد طارق کا کہنا ہے کہ ’’اس وقت ہمارے پاس شیزو فرینیا کے تقریباً ایک سو مریض زیرِ علاج ہیں، جنہیں مفت طبّی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔ اس سنگین بیماری میں مبتلا افراد کا تین طریقوں سے علاج کیا جاتا ہے، جن میں ادویہ، مریض کی کاؤنسلنگ یا اسے مثبت سرگرمیوں میں شامل کرنا اور ای سی ٹی شامل ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ ’’شیزو فرینیا کے مریضوں میں سے 10فی صد خود کُشی اور اتنے ہی دوسروں کو قتل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قتل میں ملوث مریضوں کو سینٹرل جیل، پشاور کے Detention Unitمیں رکھا جاتا ہے، جہاں اس وقت اس شدید بیماری میں مبتلا تقریباً35مریض زیرِ علاج ہیں ۔ ویسےگزشتہ 5برس سے ہمارے ہاں شیزو فرینیا میں مبتلا کسی مریض کی موت واقع نہیں ہوئی۔‘‘ پشاور کے تینوں بڑے تدریسی اسپتالوں سے حاصل شدہ اعداد و شمار کے مطابق، صوبے کے سب سے بڑے طبّی مرکز، لیڈی ریڈنگ اسپتال میں ہر ماہ شیزو فرینیا کےایک سو سے زاید مریض لائے جاتے ہیں، جب کہ خیبر ٹیچنگ اسپتال اور حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں مجموعی طور پر ماہانہ700سے زاید مریضوں کا علاج ہوتا ہے۔ تاہم، سینٹرل جیل، پشاور کے علاوہ صوبے میں کہیں بھی ذہنی امراض کا اسپتال موجود نہیں۔

خیبر ٹیچنگ اسپتال سے وابستہ ایسوسی ایٹ پروفیسر، ڈاکٹر بشیر احمد اور اسسٹنٹ پروفیسر، ڈاکٹر عمران خان کے مطابق، ’’دیگر نفسیاتی عوارض کے مقابلے میں شیزو فرینیا زیادہ خطرناک بیماری ہے، جس کی وجوہ میں سماجی و خانگی مسائل کے علاوہ نشہ آور اشیاء کا استعمال بھی شامل ہے۔ اس بیماری کے شکار ایک تہائی مریض ایک ہی مرتبہ علاج کروانے سے صحت یاب ہو جاتے ہیں، جب کہ بعض مریضوں کو بار بار علاج کروانا پڑتا ہے۔ اسی طرح ایک تہائی افراد میں یہ مرض دائمی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ گرچہ اس بیماری کی ادویہ ارزاں نرخوں پر دست یاب ہوتی ہیں، لیکن مرض میں اضافے کی شرح کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے حکومت کو مفت علاج معالجے کی سہولت فراہم کرنی چاہیے۔ نیز، صوبے کے تمام اسپتالوں میں ذہنی امراض کے شعبے قائم کرنے کے علاوہ دماغی بیماریوں کے علاج کے لیے الگ سے اسپتال بھی قائم کرنے چاہئیں۔‘‘ ماہرین کا مزید کہنا تھا کہ’’ شیزو فرینیا کے مریضوں کی زندگی کا دورانیہ عام افراد کی نسبت 5سے 10برس کم ہو جاتا ہے اور موسمِ سرما میں جنم لینے والے بچّوں کے اس مرض میں مبتلا ہونے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔‘‘ لیڈی ریڈنگ اسپتال کے سائیکارٹری وارڈ کے فوکل پرسن اور اسسٹنٹ پروفیسر، ڈاکٹر عادل آفریدی نے بتایا کہ ’’شیزو فرینیا ایک موروثی بیماری ہے، لیکن دورانِ حمل ماں کو انفیکشن ہونے اور زچگی کے دوران نومولود کو کم آکسیجن ملنے کی وجہ سے بھی یہ مرض لاحق ہو سکتا ہے۔‘‘ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’’مریض کی حالت زیادہ خراب ہونے پر اسے ایک انجیکشن لگایا جاتا ہے، جس کے بعد اسے کم از کم ایک ماہ تک ادویہ کی ضرورت نہیں پڑتی ، لیکن اگر متاثرہ فرد آپے سے باہر ہو جائے، تو پھر اس کی ای سی ٹی کی جاتی ہے۔‘‘ علاوہ ازیں، محکمۂ صحت کے ذرائع کے مطابق، 2010ء میں پشاور میں دماغی امراض کے شکار مریضوں کی بحالی اور دیکھ بھال کے لیے فاؤنٹین ہاؤس کا پی سی ون تیار کیا گیا تھا۔ گرچہ اس کی عمارت تعمیر ہو چُکی ہے، لیکن صوبائی حکومت کی جانب سے مناسب فنڈز کی عدم فراہمی کے باعث یہ منصوبہ تا حال نا مکمل ہے، جب کہ صوبائی محکمۂ صحت کی جانب سے شروع کردہ ’’سائیکو سوشل سپورٹ پروگرام‘‘ کا دائرہ بھی محدود ہے۔

[pullquote]شیزوفرینیاکی فوری تشخیص کا طریقہ دریافت نہیں ہوسکا[/pullquote]

ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق،’’ گرچہ اس مرض کے حوالے دُنیا بَھر میں تحقیق جاری ہے، لیکن ابھی تک کوئی ایسا ٹیسٹ یا جانچ پڑتال کا طریقہ وجود میں نہیں آیا کہ جس سے فوری طور پر شیزو فرینیا کی تشخیص کی جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ذہنی امراض کے معالجین مریض کی ظاہری علامات اور اس کے رویّے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہی مرض تشخیص کرنا ہوتی ہے اور ہر مریض میں اس بیماری کی مختلف علامات ظاہر ہوتی ہیں۔‘‘ ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق، ’’دیگر کئی ذہنی امراض کی طرح شیزو فرینیا لاحق ہونے کی وجوہ کا بھی مکمل طور پر پتا نہیں لگایا جا سکا ہے۔ لہٰذا، اس مرض کا حتمی سبب بتانا مشکل ہوتا ہے، کیوں کہ اس کے کئی اسباب ہوتے ہیں۔ تاہم، بروقت تشخیص اور علاج معالجہ شروع ہونے کی صورت میں مریض کے صحت یاب ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اس مرض کا علاج عموماً ادویہ کے تین کورسز پر مشتمل ہوتا ہے۔ نیز، تھراپسٹ اور معالج کی جانب سے مریض کی کائونسلنگ بھی کی جاتی ہے۔ اس دوران مریض کی عادات و اطوار بدلنے، اسے اپنی ذمّے داریوں کا احساس دلانے اور ایک بار پھر نارمل زندگی کی جانب راغب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مریض کے علاج کے دوران اس کے تمام اہلِ خانہ، عزیز و اقارب اور دوستوں کی بھی کائونسلنگ کی جاتی ہے اور انہیں بتایا جاتا ہے کہ وہ مریض کا مذاق اڑانے کی بہ جائے اس سے دوستانہ تعلق رکھیں اور اس کی صحت یابی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ اگر دورانِ علاج مریض کے ساتھ مشفقانہ برتائو اختیار کیا ائے، تو وہ جلد ہی دوبارہ لوگوں کے ساتھ گھلنا ملنا شروع کر دیتا ہے۔‘‘

بلوچستان انسٹی ٹیوٹ آف سائیکارٹری اینڈبیہیوریل سائنسزکے ایگزیکٹیو ڈائریکٹراور بولان میڈیکل کالج ، کوئٹہ میں سائیکارٹری کے پروفیسر کی خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر غلام رسول نے بتایا کہ ’’مرض سے غفلت برتنے، عدم واقفیت، علاج معالجے کی محدود دست یابی اور معالجین کی کمی سمیت دیگر عوامل کی وجہ سے مُلک بَھر میں صرف 10فی صد شیزو فرینیا کے مریض ماہرِ ذہنی امراض سے رجوع کرتے ہیں، جب کہ 90فی صد دیگر امراض کے ماہرین، پیرا میڈیکل اسٹاف، اتائیوں، جعلی حکیموں، نام نہاد روحانی معالجین اور جادو ٹونے کرنے والوں سے رابطہ کرتے ہیں۔ مُلک میں شیزو فرینیا کے مریضوں کی بڑھتی تعداد کے پیشِ نظر 300کے لگ بھگ مستند ماہرینِ ذہنی امراض کی تعداد انتہائی ناکافی ہے ۔ اس وقت مُلک میں کم از کم ایک ہزار سائیکا رٹرٹس کی ضرورت ہے، جب کہ ایک سائیکارٹرسٹ کے ساتھ 4نرسز، 6سوشل ورکرز اور 4سائیکالوجسٹس پر مشتمل ٹیم ہونی چاہیے۔بدقسمتی سے رقبے کے اعتبار سے مُلک کے سب سے بڑے اور پس ماندہ ترین صوبے ، بلوچستان میں ذہنی امراض میں مبتلا مریضوں کے لیے کوئی باقاعدہ اسپتال موجود نہیں، لہٰذا انہیں علاج معالجے کے لیے دوسرے شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔‘‘ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ’’شیزو فرینیا کے لیے اردو میں انشفاقِ ذہنی کی اصطلاح متعارف کروائی گئی ہے۔ یہ مرض خواتین کی نسبت مَردوں کو زیادہ تیزی سے لاحق ہوتا ہے۔ اس مُہلک بیماری کی دو اہم علامات ہیں، کیٹاٹونیا اور Inappropriate affectیا غیر موزوں تاثرات۔ اول الذکر علامت دراصل کئی حرکی خرابیوں کا مجموعہ ہے۔

اس کیفیت کا شکار مریض متواتر کسی ایک چیز کی جانب اشارہ کرتا اور انگلیوں، ہاتھوں اور بازوئوں کو ایک خاص انداز سے موڑتا رہتا ہے۔ یہ حرکات کبھی کبھار با معنی محسوس ہوتی ہیں، لیکن عموماً بے معنی اور لغو ہوتی ہیں۔ متاثرہ فرد کبھی غیر معمولی حد تک متحرک اور کبھی ساکت ہو جاتا ہے۔ متحرک ہونے کی صورت میں مریض کبھی توڑ پھوڑ شروع کر دیتا ہے، تو کبھی اُچھل کود۔ نیز، کبھی اپنی ٹانگوں کو بے ڈھنگے انداز سے لہرانے لگتا ہے اور کبھی شور مچانے۔ اسی طرح بعض مریض کبھی کبھار بُت کی مانند بالکل بے حِس و حرکت ہو جاتے ہیں۔ وہ بازو پھیلا کر، ایک ٹانگ اُٹھا کر، سَر آگے یا پیچھے کی جانب جُھکا کر یا دیگر مختلف انداز اختیار کر کے گھنٹوں اسی طرح کھڑے یا بیٹھے رہتے ہیں۔ بعض اوقات مریض اس قدر دیر تک ایک ہی پوزیشن میں کھڑے یا بیٹھے رہتے ہیں کہ ان کے ہاتھ، پائوں سُوج جاتے ہیں یا نیلے پڑ جاتے ہیں۔ اس سکتے کی حالت میں اگر مریض کے بازو یا ٹانگ کو ہلایا جائے ،تو وہ اپنی نشست و برخاست کا انداز بدل لیتا ہے، لیکن اس کا جسم پھر ساکت ہو جاتا ہے۔ شیزو فرینیا کی موخر الذکر علامت غیر موزوں تاثرات ہیں۔ اس میں متاثرہ فرد کے احساسات و جذبات موقع محل کے مطابق نہیں ہوتے۔ یعنی وہ غم کے موقعے پر مسّرت اور خوشی کے عالم میں رنج کا اظہار کرتا ہے۔ نیز، معمولی سی بات پر آگ بگولا ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ متاثرہ فرد پر کسی ظاہری وجہ کے بغیر ہی ایک ہیجانی کیفیت سے دوسری مگر بالکل متضاد ہیجانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ یعنی وہ ہنستے ہنستے رونا اور روتے روتے ہنسنا شروع کر دیتا ہے۔ تاہم، یہ کیفیت بہت کم مریضوں پر طاری ہوتی ہے۔‘‘ ڈاکٹر غلام رسول نے مزید بتایا کہ ’’شیزو فرینیا ایک ایسی اعصابی بیماری ہے کہ جس میں دماغ کا باقی جسم سے رابطہ برقرار نہیں رہتا یا دماغ جسم کے دیگر اعضاء کو غلط سگنلز دینے لگتا ہے۔ اس مرض میں مبتلا فرد کو حقیقت اور وہم میں امتیاز کرنے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے، جس کے باعث اُس کے رویے میں منفی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ابتدا میں متاثرہ فرد لوگوں سے میل جول ترک کر دیتا ہے اور پھر بہ تدریج اس کا رویّہ جارحانہ اور گفتگو بے ربط ہو جاتی ہے۔ تقریبات اور عبادات سے اس کی دل چسپی بالکل ختم ہو جاتی ہے اور اسے اپنی ذمّے داریوں کا احساس تک نہیں رہتا۔ یادداشت ساتھ چھوڑنے لگتی ہے اور خود سے مخاطب ہونے والوں کی جانب متوجّہ ہونے کی بہ جائے اپنی خیالی دُنیا میں مگن رہتا ہے۔ کبھی بہت زیادہ تیز چلنا شروع کر دیتا ہے اور کبھی نہایت دھیمی رفتار سے۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ اس کا رہن سہن ایک عام آدمی سے قطعی مختلف ہو جاتا ہے اور وہ ایک حیوان کی مانند زندگی بسر کرنا شروع کر دیتا ہے۔

عموماً یہ بیماری 16سے 30برس کی عُمر کے افراد پر حملہ آور ہوتی ہے، لیکن یہ مرض زندگی کے کسی بھی حصّے میں لاحق ہو سکتا ہے۔ شیزو فرینیا کے مریض کے اثرات اس کے قریبی افراد پر بھی مرتّب ہوتے ہیں، کیوں کہ اُسے اپنے امور کی انجام دہی کے لیے کسی دوسرے فرد کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اینٹی سائکوٹک ادویہ نے شیزو فرینیا کا علاج ممکن بنا دیا ہے، لیکن اس مرض میں مبتلا افراد کے لیے ادویہ کے انتخاب سے زیادہ انہیں وقت پر دوا کھلانا زیادہ مشکل کام ہوتا ہے، کیوں کہ یہ خود کو بیمار تصوّر نہیں کرتے اور دوا دینے پر مزاحمت کرتے ہیں۔ پھر اس بیماری سے مکمل نجات حاصل کرنے کے لیے علاج کو طویل عرصے تک جاری رکھنا بھی ضروری ہے۔ نیز، یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اینٹی سائیکوٹک ادویہ کے دیرپا استعمال سے دماغ کی بافتوں کی تعداد کم ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باقاعدگی سے علاج کروانے کی صورت میں بھی صرف 30فی صد مریض ہی ایک بار پھر صحت مندزندگی بسر کرنے کے قابل ہوتے ہیں اور انہیں تا حیات ادویہ کا استعمال نہیں کرنا پڑتا۔‘‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے