محرم الحرام اور سال نو کے ارادے

new yearاسلامی سال کا پہلا مہینہ محرم الحرام ہمارے لیے بہت سے امیدیں اور نیکیوں کے جذبوں کے ساتھ شروع ہوچکا ہے۔ حضرت ابو موسی کی توجہ دلانے پر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے صحابی سے مشورہ کیا اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے مشورے سے رسول اللہ ﷺ کے واقعہ ہجرت کو اسلامی سنہ کی ابتدا قرار دیا گیا چونکہ مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا آغاز ذوالحج کے آخر میں ہوا تھا اس کے بعد جو چاند نکلا وہ محرم کا تھا، اس لیے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے مشورہ سے محرم کو اسلامی سال کا پہلا مہینہ قرار دیا گیا۔

سال نو کا آغازہوگیا ہے اور ہم نے بھی اس سال سے بڑی امیدیں وابستہ کی ہیں کیوں نہ ہم بھی اس سال کا آغاز نئے جذبے اور نئے کردار سے کریں۔
یہ جملہ امید پر دنیا قائم ہے ، بڑا حوصلہ مند اور حقیقت پر مبنی ہے یہ حقیقت ہے کہ اگر ہمیں اگلے لمحے زندہ رہنے کی امید نہ ہو توہم کچھ نہ کریں، یہ زندہ رہنے کی امید ہی ہے جو ہم سے روزانہ اتنے کام لے لیتی ہے۔ یہ امید ہی ہے جو ہم نئے آنے والے سال پر پرجوش ہوتے ہیں اور امیدرکھتے ہیں کہ یہ سال گزشتہ سال سے زیادہ اچھا اور کامیاب ہوگا۔آج ہم مسلمان جس دو راہے پر کھڑے ہیں ہمیں یہ امید ہی زندہ رکھے ہوئے ہے۔

ہم مسلمانوں کاایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم دوسروں سے امیدیں وابستہ کرلیتے ہیں لیکن کبھی اپنے اندر جھانک کرنہیں دیکھتے کیوں نہ ہم اس سال اپنے اندر تبدیلی لائیں اور اپناجائزہ لیں اور دیکھیں کہ ہمارا مذہب اسلام ہم سے کیاامیدیں رکھتا ہے اور کوشش کریں کہ ہم ان امیدوں پر پورااتریں۔یہ جملہ امید پر دنیا قائم ہے ، بڑا حوصلہ مند اور حقیقت پر مبنی ہے یہ حقیقت ہے کہ اگر ہمیں اگلے لمحے زندہ رہنے کی امید نہ ہو توہم کچھ نہ کریں، یہ زندہ رہنے کی امید ہی ہے جو ہم سے روزانہ اتنے کام لے لیتی ہے۔ یہ امید ہی ہے جو ہم نئے آنے والے سال پر پرجوش ہوتے ہیں اور امیدرکھتے ہیں کہ یہ سال گزشتہ سال سے زیادہ اچھا اور کامیاب ہوگا۔آج ہم مسلمان جس دو راہے پر کھڑے ہیں ہمیں یہ امید ہی زندہ رکھے ہوئے ہے۔

ہم مسلمانوں کاایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم دوسروں سے امیدیں وابستہ کرلیتے ہیں لیکن کبھی اپنے اندر جھانک کرنہیں دیکھتے کیوں نہ ہم اس سال اپنے اندر تبدیلی لائیں اور اپناجائزہ لیں اور دیکھیں کہ ہمارا مذہب اسلام ہم سے کیاامیدیں رکھتا ہے اور کوشش کریں کہ ہم ان امیدوں پر پورااتریں۔
محرم الحرم حرمت والا مہینہ ہے، حرمت والے مہینوں کے بارے میں قرآن پاک میں سورۃ التوبہ میں اللہ تعالی فرماتے ہیں آیت 36’’ پس ان مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو‘‘
اپنے اوپر ظلم کیا ہے؟ انسان یہ سوچے کہ وہ اپنے اوپر ظلم کیسے کرسکتا ہے؟اپنے اوپر ظلم یہ ہے کہ ہم گناہ کریں۔ اللہ سے دور ہو جائیں اور شیطان کے قریب ہوجائیں۔ اب ہم یہ سوچیں کہ ہم اللہ سے دور کیسے دور ہوتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم اللہ کی نافرمانی کریں۔

ہمیں اللہ حکم دیتا ہے کہ یہ حرمت والے مہینے ہیں تو ان میں لڑائی جھگڑا، فساد، رنجش، ناچاقی، والدین کی نافرمانی سے بچیں۔ ہم اپنا جائزہ لیں کہ کیا واقعی ہم ایک دوسرے کی عزت، احترام الخصوص ان مہینوں میں کرتے ہیں۔ ہم تو خاص ا ن مہینوں میں فرقہ واریت کو فروغ دیتے ہیں۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ ہمارا مذہب ہمارا اللہ، ہمارا رسولﷺ ہم سے کیا کہہ رہے ہیں۔حجتہ الواداع کے موقع پر آپ ﷺنے فرمایا تمہارا خون،مال اور عزت ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہے جس طرح آج کا دن ،شہر اور اس مہینے کی حرمت ۔

ہمارے لئے یہ الفاظ ہی کافی ہیں سار ی زندگی گزارنے کے لئے ۔اگر ہم یہ سوچ لیں کہ ہمارے مسلمان بھائی کی عزت ،مال اور اس کی جان ہمارے لئے بہت محترم ہے جیسے ہمار ے لئے اللہ کا گھرخانہ کعبہ محترم ہے ۔جیسے ہمارے لئے ذوالحج کا مہینہ اور حج کا دن محترم ہے ۔آج کا ہر مسلمان ان تین چیزوں کی بڑی عزت کرتا ہے لیکن ہمیں شاید یہ نہیں پتہ کہ اتناہی محترم ہمار ا مسلمان بھائی بھی ہے ۔اس کی عزت ہماری عزت کا اس کا مال ہمارا مال ، اس کی جان ہماری جان ہے ۔اگر ہم عملی طور پر یہ محسوس کریں تو ہمارا معاشرہ مثالی معاشرہ بن جائے ۔

آئیے آج ہم یہ عہد کریں کہ جس طرح اس ماہ محرم میں حضرت امام حسینؓ نواسہ رسول نے اپنی جان قربان کر دی تھی ۔اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے آج ہم کچھ نہ کریں کم ازکم اپنے نفس کی قربانی دیں ۔والدین اولاد کو تفریحات دینے کی بجائے دین کی اصل روح کے بارے میں بتائیں ۔ان کو نفع بخش علم دلوائیں ۔اولاداپنے والدین ، اساتذہ ، اور بڑو ں کا احترا م کریں ۔ کسی کی بھی دل آزاری سے اجتناب کریں ۔ہماری نئی نسل عادتا چوری کرتی ہے ۔ہم اس کا نوٹس نہیں لیتے محض اسے تفریح یا ایڈوانچر سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں ۔بڑی بڑی دکانوں پر جاکر چھوٹی چھوٹی چیزیں بچے اپنی جیبوں میں بھر لیتے ہیں۔ اور دکاندار کو دھوکہ دے کر خوش ہوتے ہیں ۔محلے میں بھی کسی کے گھر سے کوئی پھل یا سبزی توڑ کر لاتے ہیں تو ہم اس کا نوٹس نہیں لیتے ۔ہمیں محسوس ہی نہیں ہوتا کہ کہ یہ تو کسی بھی مسلمان کی حفاظت کرنا نہیں ۔بچے انٹر نیٹ پر بیٹھے کیا کچھ دیکھ رہے ہوتے ہیں ہمیں پتہ ہی نہیں ہوتا ۔یہ تو عزت کی حفاظت ہی نہیں ۔ہمارے بچے اور ہم خود بھی چھوٹی چھوٹی باتوں پر بڑی لڑائیاں اور جھگڑے کر لیتے ہیں ،ہمیں محسوس ہی نہیں ہوتا ۔ یہ تو جان کی حفاظت نہیں ۔

محرم کی حرمت کا تقاضا ہے کہ آج ان سب حرکتوں سے توبہ کر لیں ۔اپنے اندر ایک نیا مسلمان ، نیا انسان پیدا کر یں ۔اس نئے سال کونئے جذبے سے شروع کریں ۔اس کے لئے اپنے آپ کو ذہنی اور عملی طور پر تیار کریں ۔ اللہ ، ان کے رسول ﷺ، اور مسلمان بھائی کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کریں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے