جی ہاں ! پلاسٹک کے بغیر بھی زندگی ممکن ہے

روز ہی پلاسٹک کے مضر اثرات کی خبریں ، تحقیق یا کسی اور شکل میں آپ تک پہنچتی ہوں گی ، آپ نے پلاسٹک کا بائیکاٹ بھی کسی حد تک کر رکھا ہوگا، لیکن آپ ابھی تک بے یقینی کے شکار ہوں گے کہ پلاسٹک کے بغیر زندگی کیسے ممکن ہے؟

ممکن ہے ! صرف پلاسٹک سے پاک زندگی کے ممکنات کا جائزہ لینا ہے ، ایک حتمی فیصلہ کرنا ہے اور پلاسٹک فری زندگی ممکن ہونا شروع ہو جائے گی۔

امریکی خاتون بیٹھ ٹیری نے کہیں صرف یہ پڑھا تھا کہ ایک سمندری پرندے کے بچے تلف شدہ پلاسٹک کی وجہ سے مر رہے ہیں اور یہی وہ لمحہ تھا جب انہوں نے طے کر لیا کہ اب مزید پلاسٹک کا استعمال نہیں کریں گی۔

سب سے پہلے انہوں نے اپنے باورچی خانے پر توجہ دی اور وہاں سے پلاسٹک کے شاپنگ بیگ اور تیار شدہ پلاسٹک کے ٹب ہٹا دیے۔

پھر انہوں نے اپنے واش روم کا رخ کیا اور شیمپو بوتلوں کی بجائے اسے صابن کی شکل میں استعمال کے لیے رکھ دیے، یہاں تک کہ اپنا کنڈیشنر بھی انہوں خود سیب کے سرکے سے بنایا۔پلاسٹک ٹیوب کے بغیر ٹوتھ پیسٹ کو ڈھونڈنا تھوڑا مشکل کام تھا لیکن اس کا حل بھی ٹیری نے بیکنگ سوڈا سے ٹوتھ پیسٹ بنا کر نکال لیا۔

ٹیری اور ان کے شریک حیات کے لیے پلاسٹک کے خلاف مہم کبھی کبھار آزمائش بن جاتی تھی۔کیلی فورنیا میں چھٹیاں گزارنے کے دوران شاپنگ کرتے ہوئے ایک بار وہ اپنے دوبارہ قابل استعمال تھیلے ہوٹل ہی میں بھول آئے۔اب مسئلہ یہ تھا کہ خریدے گئے سیب ، موسمبیاں اور تربوز ہاتھوں میں کیسے اٹھائے جائیں۔

ٹیری نے کہا کہ اگر میں اس وقت ہار مان لیتی اور ایک دفعہ مشکل وقت میں پلاسٹک بیگ استعمال کر لیتی تو میں کبھی بھی اس جنگ میں جیت حاصل نہیں سکتی تھی۔اس لیے میرے شوہر کی ٹی شرٹ کی قربانی دی گئی اور اس میں ہم پھل لے کر ہوٹل گئے۔

یہ صرف ایک ٹیری کی کہانی نہیں ہے بلکہ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو روززانہ کی بنیاد پر ٹنوں کے حساب سے استعمال ہونے والے پلاسٹک کے بڑھتے ہوئے مسئلے کے باعث اس سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

اسی وجہ سے پلاسٹک فری کی اصطلاح بھی اب عام ہو چکی ہے۔کئی ممالک میں زیرو پلاسٹک اسٹورز کھل چکے ہیں۔ان اسٹورز میں سلیکون کی بنی ہوئی پانی کی بوتلیں،آئی فون کے تلف ہوجانے والے کور اور کئی ماحول دوست دیگر اشیا فروخت کے لیے دستیاب ہیں۔

مارکیٹ میں موجود 500 کے قریب بڑے برانڈز نے بھی پلاسٹک سے چھٹکارا پانے کے لیے اقدامات کا اعلان کیا ہے جیسے شیشے کے گلاس میں جوسز ، المونیم کی بوتلوں میں شیمپوز اور دوسری مصنوعات کو دوبارہ استعمال ہونے والے یا تلف ہونے والے پلاسٹک میں پیش کرنے کے منصوبے۔

اگر آپ بھی پلاسٹک کے خلاف جہاد کا اعلان کرنا چاہیں تو آپ کو کہا ں سے شروع کرنا چاہیے ؟

54 سالہ ٹیری کا کہنا ہے کہ پلاسٹک سے صرف ایک دن میں چھٹکارا ممکن نہیں ہے اس کے لیے قدم بہ قدم فیصلے لینے ہوں گے۔

پلاسٹک کہاں نہیں ہے، فرنیچر سے لے کر پینے کے اسٹرا تک پلاسٹک ہی پلاسٹک ہے۔

یہ انتہائی مشکل ہے کہ پلاسٹک کی تمام کی تمام چیزوں کا متبادل ڈھونڈا جا سکے۔

ٹیری کے مطابق جب انھوں نے پلاسٹک فری زندگی کی مہم شروع کی تو انھیں اندازہ ہوا کہ پلاسٹک تو کچھ کھانوں کا بھی حصہ ہے۔

ٹیری کے مشورے کے مطابق سب سے پہلے تو پلاسٹک فری ہونے کو مسئلہ مت سمجھیں ، آہستہ آہستہ اپنے ارد گرد ان تمام جگہوں کو ڈھونڈ کر ذہن نشین کر لیں جہاں سے آپ کو اپنی مطلوبہ اشیا پلاسٹک کے متبادل کے ساتھ دستیاب ہو سکتی ہیں۔

آرٹسٹ اور پلاسٹک فری ماحول کے لیے مہم چلانے والی مس کوہن کبھی بھی ‘پلاسٹک فری کٹ’ کے بغیر اپنے گھر سے باہر نہیں جاتیں۔ ان کے ہمراہ ایک اسٹیل کپ ، سرکنڈے کی بنی ہوئی پلیٹیں، اسٹین لیس اسٹیل کے اسٹرا اور ایک کپڑے کا تھیلا رہتا ہے۔

ماحول کو پلاسٹک فری بنانے کی مہم کا حصہ بننے والے افراد کو کبھی کبھار ایسی صورت حال کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے اسپتال میں پلاسٹک سرنج یا ڈرپ بیگ کا لگنا۔اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ پلاسٹک فری ماحول کے لیے بہترین انفرادی کوششوں کے باوجود زندگی کے ہر میدان میں اجتماعی کاوش کی ضرورت ہے۔

زیادہ شعور اور متبادل میسر ہونے کی وجہ سے پلاسٹک فری ماحول ہونا آج کے زمانے میں زیادہ آسان ہو گیا ہے۔

پلاسٹک فری ماحول سے جڑے رہنے والے افراد کا کہنا ہے کہ چھوٹے چھوٹے اقدامات بہت بڑے اثرات مرتب کر تے ہیں اور مستقبل قریب میں شاید پلاسٹک جیسی عفریت سے چھٹکارا حاصل کرنا دشوار نہ رہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے