◦ آزاد کشمیر کے 1974 کے عبوری آئین میں لگ بھگ 44 سال کے بعد بامقصد ترامیم کی گئی ہیں. گوکہ ان میں چند ابہام دور کرکے بھرپور مقاصد حاصل کرنے کے لئے ایک اور ترمیم کی ضرورت ہے لیکن جو ہوئی ہیں، ان کے مقاصد کو پورا کرنے کے لئے تاہنوز قواعد کار اور چند ذیلی قوانین نہیں بنائے گئے ، جس کی و جہ سے وہ مقاصد پورے نہیں ہورہے ، جن کی خاطر تمام تر مخالفت کے باوجود یہ ترامیم عمل میں لائی گئیں-
آئین کی دفعہ 58 کے تحت لازمی ہے کہ ”ایکٹ کے مقاصد پورے کرنے کے لئے صدر قواعد بنائیں گے” ان کو عام فہم زبان میں رولز آف بزنس کہتے ہیں جو 1985 میں بنائے گئے تھے جن میں وقتآ فوقتآ ترمیم ہوتی رہی ہے لیکن تیرویں ترمیم کے بعد آزاد کشمیر حکومت کا دائرہ کار وسیع اور آزاد کشمیر کونسل کا محدود بلکہ ختم ہی ہو گیا ہے، نئے ادراے بھی بن گئے ہیں اور پرانوں کی ہیئت بھی تبدیل ہوگئی ہے، ترمیمی دفعہ 19 اور 31 کے تحت حکومت پاکستان کے ساتھ تعلقات کی نئی اور دور رس نوعیت قائم ہو گئی ہے –
اس کے علاوہ ٹیکس کی نظام ، ریاستی باشندہ قانون کے سرٹیفکیٹ کے اجراء، صدر کے انتخاب اور آئین میں ترمیم کا طریقہ کار، قائم مقام وزیراعظم کے عہدے کی تخفیف، وزرا کی تعداد اور مشیروں اور خصوصی معاونوں کی تقرری کا تعین، حکومت آزاد کشمیر کے دائرہ کار کی وسعت اور کونسل کے دائرہ اختیار کا کماحقہ اختتام،اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ، اسمبلی کی قانون سازی کے اختیار میں وسعت، اسلامی نظریاتی کونسل کا دائرہ کار، کنسالیڈیٹڈ فنڈ میں تبدیلی،اعلیٰ عدلیہ کے ججوں اور الیکشن کمیشن میں تقرریاں ، کونسل کے اثاثوں کا کنٹرول اور استعمال ، قومی اثاثوں کی تحویل ، انتظام وانصرام وغیرہ –
ان ترامیم کو بار آور بنانے کے لیے کچھ معاملات میں قانون سازی کی ضروت ہوگی ، جن میں سر فہرست الیکشن کمیشن کا ادارہ ہے جو عملی طور عضوِمعطل تھا کیونکہ سارا کام انتظامیہ سے لیا جاتا تھا. اب یہ عملہ کے علاوہ تین مقتدر ممبران پر مشتمل بنایا گیا ہے ،جن کو اب عملی طور ایک ادارے کے طور کرنا پڑے گا جیسے الیکشن کمیشن پاکستان کرتا ہے ، یہ لوگ کام کررہے ہیں لیکن ان کی شرائط ملازمت کا قانون ابھی تک نہیں بنایا گیا اور میری شُنید کے مطابق ان کو تنخواہ اور دیگرُ مراعات بھی نہیں مل رہیں جو بہت بڑا مذاق ہے –
◦ آئین کے دیباچہ یا تمہید ( preamble) کے پانچویں حصے ، دفعہ 19 اور 31 میں ترامیم کے بعد کراچی معاہدہ کی تجدید نو بھی ناگزیر ہوگئی ہے ، جو آزاد کشمیر کے قیام کے 24 اکتوبر 1947 کے علانیہ کے بعد ، آزاد کشمیر حکومت اور حکومت پاکستان کے درمیان تعلقات کی نوعیت اور اختیارات کی تقسیم کی بنیاد سمجھا جاتا ہے اور اس وقت تک حکومت پاکستان اس معاہدے کے حوالے سے مختلف اقدامات اٹھاتی ہے، جن میں لینٹ آفیسرز کی تقرری بھی شامل ہے –
چونکہ اب تعلقات کی آئینی نوعیت ، سیاسی ماحول ، مرکزی جماعتوں کا عمل دخل اور پاکستان کے ہندوستان اور دنیا کے ساتھ نئے معاہدے اور مقبوضہ کشمیر میں تحریک کی نوعیت اور جہت ہی بدل گئی ہے ،اس لیے اس کی تجدید ناگزیر ہوگئی ہے تاکہ اس میں بدلی ہوئی صورت حال کو سمویا جائے – اس کے لئے میری تجویز ہے کہ نیا سیاسی عمرانی معاہدہ عوامی رائے ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی اسمبلیوں اور حکومت پاکستان کے اتفاق کے بعد ہی ممکن ہوگا، جس پر بحث کی ضرورت ہے – میری رائے میں معاہدہ کراچی کے تسلسل میں ہی تجدیدی معاہدہ موجودہ زمینی حقائق کی روشنی میں اس طرز پر مناسب ہوگا.
◦ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں ایک ہی طرز کا ، لیکن الگ الگ انتظامی یونٹس کے تحت نظام حکومت، اختیارات اور ذمہ داریوں کا آئینی ڈھانچہ حکومت پاکستان کی منظوری کے بعد ان دونوں اسمبلیوں کی منظوری سے نافذ کیا جائے اور اس میں سوائے ان دفعات کے جو حکومت پاکستان سے متعلق مختص ہوں ، کی ترمیم کا اختیار بھی ان ہی اسمبلیوں کو حاصل ہو، دیگر دفعات کی منظوری حکومت پاکستان کی منظوری سے مشروط ہو.
◦ مسئلہ کشمیر کا سلامتی کونسل کے چارٹر کے تحت اور قرار دادوں کی روشنی میں حل ہونے تک ، ریاست کے ان دونوں حصوں کو پاکستان کے ان تمام پالیسی ساز، فیصلہ ساز اور قانون ساز اداروں میں نمائندگی کا حق، ان کو صوبہ بنائے بغیر ، اسی طرح حاصل ہو جیسے پاکستان کے انتظامی یونٹس کو بطور صوبہ حاصل ہے اور جب کشمیر کا مسئلہ لوگوں کی رائے کے مطابق حل ہوگیا اور ان علاقوں نے آزادانہ طور اپنے مستقبل کا فیصلہ کرلیا تو یہ انتظام خود بخود ختم ہوجائے گا اور دونوں یونٹس اپنی مرضی سے نیا عمرانی سیاسی معاہدہ کرنے کا حق استعمال کریں گے، اس مقصد کے لئے پاکستان کے آئین میں ان ہی خطوط پر خصوصی ترمیم کی جائے گی .
◦ معاہدہ کراچی کے تحت جو اختیارات اس وقت مسلم کانفرنس کو دیے گئے تھے، وہ سب کے سب ان دو حکومتوں کو منتقل ہو جانے چاہییں کیونکہ اب ملک کی ساری جماعتیں یہاں کار فرما ہیں
◦ مقبوضہ ریاست جموں کشمیر میں تحریک آزادی میں یو این چارٹر کے تابع جائز قانونی، سیاسی، اخلاقی اور سفارتی سرگرمیوں اور پوری ریاست میں سلامتی کونسل کے تحت رائے شماری کی تحریک، تشہیر اور اس کے انعقاد کے لئے دنیا بھر میں ریاستی باشندوں کو شریک کرنے اور اس کے لئے دنیا بھر میں شعور بیدار کرنے ، مقبوضہ ریاست میں ریاستی ظلم و جبر کے خلاف دنیا کو آگاہ کرنے کے لئے ریاست کے ان دونوں حصوں پر مشتمل باشعور لوگوں کو عالمی طاقتوں سے رابطہ کے لئے حکومت پاکستان سفارتی سہولیات مہیا کرے گی –
◦ یہ چند نکات محض (Food for Thought ) یعنی فکر کو انگیخت کرنے کے لئے ہیں ، جو میری نظر میں فی زمانہ ریاست کے ان دو علاقوں کو باوقار اور با اختیار بنانے کے علاوہ تحریک آزادی میں ان کو ایک مقام عطا کریں گے تاکہ کشمیر کی آزادی کی تحریک ریاست کے آزاد حصے کے لوگ ملک اور بیرون ملک خود چلائیں اور حکومت پاکستان صرف وہ امور انجام دے جو ان علاقوں کے آئینی ڈھانچے میں اس کو حاصل ہیں یا بین الاقوامی ذمہ داریوں کے تحت ناگزیر ہوں –
◦ یہ صاحب ادراک اور ارباب اختیار افراد کے لئے عصر حاضر کے تقاضے پورے کرنے کے لئے ایک نقطہ نظر ہے جس پر بحث کی ضرورت ہے-