مرد مارچ۔۔یا۔۔دل کےپھپھولے

ایک طویل عرصے کی جدوجہد،بات چیت کے بعد بالآخر مردوں کو بھی ایک ایسا پلیٹ فارم مل ہی گیا، جہاں وہ اپنے مسائل پیش کرسکیں ، اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا ذکر کرسکیں ،اپنی کامیابیوں پر بغلیں بجا سکیں،
چیخ چیخ کر بتا سکیں کہ ہم نےملک وقوم اور سماج کیلئے ایسےایسے اقدامات کیے،کہ بس رہے نام اللہ کا۔ کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، کہاں کس مقام پر کس عورت نے ان کے حقوق غصب کیے، کتنے طعنے دئیے،کیسےکیسے تنگ کیاگیا، کتنا کام کرایاگیا، کتنا بوجھ اٹھایاگیا،، آٹھ مارچ ویمنز ڈے کے ٹھیک دوہفتے بعد یعنی 24 مارچ کو ہونے جارہا ہے مرد مارچ۔

مختلف شہروں میں مختلف مقامات پر یہ میلہ سجےگا، کراچی میں فرئیر ہال میں ہر طرح کے مردوں کی آمد متوقع ہے ،
صاحبان کو ایسے مردوں سے بھی بچ کے رہنا ہے جو میک اپ کرکے لڑکیوں کی برابری کرنا چاہتے ہیں ،ایسوں سے بھی بچنا ہے جن کی خصلتیں ، باتیں خواتین جیسی ہیں ، ایسے طرم خان بھی آئیں گے اور ماتحت بھی لائیں گے،جن کو بات بات پر طیش کھانے کی عادت ہوگئی، طعن وتشنیع کرنے اورمردو خواتین کو بلاتفریق ذلیل کرنے کی عادت ہوگی ، مختصریہ کہ کم ظرف بھی ہوں گے، کم نسل بھی ہوں گے، اور شاید ایسےبھی ہوں جو زن مریدی کوکل اثاثہ سمجھتے ہوں گے، کچھ واقعی ان سب سے آزادی چاہتے ہوں گے،کچھ آزادی کےنام پر گھر کی دال اور باہر کی بریانی دونوں کو پسند کرتے ہوں گے ویسے بہت شرمیلے بنتے ہوں گے، بہت سی اقسام ہیں ۔کچھ مردوں کو عورت مارچ سے پریشانی لاحق ہوگئی ہے اس لئے بھی وہ مرد مارچ کے حمایتی ہوگئے ہیں،مرد مارچ کیلئے فیس بک پر ’ایونٹ‘ بھی تخلیق کردیا گیا ہے جبکہ ٹوئٹر پر بھی ’ مرد مارچ‘ ٹاپ ٹرینڈز میں شامل ہوچکا ہے۔

خیر! اس وقت توہر کوئی مردو عورت اس ٹینشن میں ہے کہ مرد یا آدمی مارچ کیلئے نعرے کیا ہونے چاہیئں، پلے کارڈز کیسے بنائے جائیں گے،حضرات کیلئے پہلی بار ہے کہ وہ اپنے لیے بولیں گے تو وہ زیادہ مضطرب ،ماہی بے آب دکھائی دے رہے ہیں ، مختلف گروپس میں میسجز پر سب سے رائے اکٹھی کی جارہی ہے ، کہ آخر مرد مارچ کو کیسے یادگار اور کامیاب بنایا جائے، اس کیلئے خواتین دوستوں ، بہن ، ماں اور بیوی سے بھی مدد لی جارہی ہے ، کچھ تو عورت مارچ کے پلے کارڈ کے جوابی کارڈز بنانے میں مگن ہیں ، چند اک جو قابل تشویش پلے کارڈز اور ان کے جواب ہیں ، ان کا ذکر کرلیتے ہیں ،ماں ہو ں بہن ہوں ، گالی نہیں ہوں ۔جواب ۔

میں بھی باپ ، بھائی ، بیٹا ہوں اپناکھانا خود گرم کرو۔۔۔اس کا جواب ہے ۔اپنی کیل خود ٹھونکواپناٹائم بھی آئےگا۔اس کا جواب ۔لیڈیز فرسٹ تو ہے، جینٹس فرسٹ کب آئے گا؟مجھے کیا معلوم تمھارا موزہ کہاں ہے۔

جواب۔موزہ چھوڑو ،دوپٹہ ڈھونڈوکاکروچ خود مارو، چوہے اور چھپکلی سے خود نمٹو، ڈیٹ پر جانا ہے تو مرد کو گھر سےپک کرو، ریسٹورنٹ کا بل خود ادا کرو، حلوہ پوری کی لائن میں خود لگو،اپنا ٹائر خود بدلو، گاڑی کی پچھلی سیٹ پربیٹھو۔

میری نظر میری مرضی ۔تم کرو تو جسٹ فرینڈ میں کروں تو گرل فرینڈ۔۔میک اپ کرکے خود کو دکھاؤ۔سیرپ کی بوتل کا ڈھکن خود کھولو۔فریج سےبرف خود نکالو۔”میں کھانا گرم کرلوں گا لیکن تم سرحد پر جا کر جنگ لڑو۔ مجھے اس طرح حکم دینے والا رویہ پسند نہیں” ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ محاذ پربھی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ موجود ہوتی ہیں ، پھر ایسا نعرہ کیوں اور حکم کیوں ؟

عورت اور مرد کی برابری کا جو خوف ذہنوں میں ہےاس خوف سے باہر آنا ہوگا۔ برابری کی بنیاد پر دیکھا جائے تو اگر مرد بادشاہ رہا ہے تو عورت ملکہ بھی رہ چکی ہے، مرد وزیر اعظم تھا تو عورت بھی وزیر اعظم رہ چکی ہے، مرد بزنس مین ہے تو عورت بھی بزنس وومن ہے، مرد مزدور ہے تو عورت بھی مزدوری کرتی ہے، مرد ڈرائیور ہے تو عورت بھی ٹرک چلا رہی ہے، مرد پائلٹ ہے تو عورت بھی جہاز اڑا رہی ہے۔ ایسے کئی کام جو مرد کر رہا ہے وہ عورت بھی کر رہی ہے۔

ان ہی کی طرح بس چند ایک کو نہیں تمام عورتوں کو مساوی حقوق ملنے چاہئیں اور ان کو اپنے حقوق کی بھرپور آگہی ہونی چاہئے۔ آپ سے کوئی وہ مطالبہ نہیں کیا جا رہا جو فطرت سے ہٹ کر ہو۔آپ سے کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ اپنے بچے خود پیدا کرلو،جب عورت ایک گھر چلانے کیلئے کما سکتی ہے تو مرد گھریلو کام بھی کر سکتا ہے۔
ویسے مغربی ممالک میں تو مرد بھی بچے پیدا کررہے ہیں ، سائنس نے اتنی ترقی تو کرہی لی ہے ۔

دوپٹہ اپنی آنکھوں پر باندھ لو۔ کے نعرے پر اک صاحب نے فیس بک پر اسٹیٹس لگایا کہ ’ہم بھی برہنہ سڑکوں پرنکل آئیں تو بتاؤ کہاں جاوگی‘۔کئی پلے کارڈز پر خواتین کو اجتماعی طور پر وہ وہ کچھ کہا گیا، کہ پوچھیں مت ۔ اب ایسے اسٹیٹس پر اور مبینہ اگلے پلے کارڈ پر کون کیا کہےگا، شایداپنی کامیابی کے شادیانے بجائے جائیں کہ خواتین کوکسی نہ کسی طرح خاموش تو کراہی دیاگیا،ویسے یہ سیدھا سیدھا ہراسانی کاکیس بنتا ہے ۔لیکن اس معاملے پر سب خاموش ہوجائیں گے ۔

عورت یا مرد مارچ کو آپس کی جنگ نہ بنائیں ، ایک دوسرے کواچھاکاموں پر سراہیں ، حوصلہ افزائی کریں ،بڑے پن کامظاہرہ کریں ،خدارا اتنا سمجھ لیں کہ ہر مذہب میں مردو عورت کا الگ الگ اک مقام ہے ، رتبہ ہے۔حدودوقیود ہیں ،مختلف واقعات ومقامات پرمختلف حقوق وفرائض ہیں ، مخالف جنس کو دوسرے کا عزت واحترام کرنا چاہیے ، ان سب سے باہر نکل کر کوئی بھی حرکت یا بات ہوگی، کسی بھی جنس کی جانب سے تو اسے رپورٹ کیا جائے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے