نماز تراویح میں تلاوت ہونے والے پارے کا تفسیری خلاصہ

[pullquote]تیسرے پارے کے مضامین[/pullquote]

تیسرے پارے کے شروع میں اس امر کا بیان ہے کہ اس حقیقت کے باوجودکہ اللہ تعالیٰ کے تمام نبی اور رسول علیہم السلام معزز و مکرم ہیں اور ان کی شان بڑی ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے رسولوں میں ایک کیلئے دوسرے کے مقابلے میں فضیلت اور درجے کی بلندی رکھی ہے۔

آیت نمبر254میں فرمایا کہ قیامت کے دن (نیکیوں کا) لین دین ‘ دوستی اور سفارش نہیں چلے گی اور کفار ہی حقیقت میں ظالم ہیں۔ قرآن کی عظیم آیت جو ”آیۃ الکرسی‘‘ کے نام سے معروف ہے‘ یہ آیاتِ قرآن کی سردار ہے ۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی توحید ‘ شانِ جلالت اور وسعتِ قدرت بیان کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا گیاہے کہ اُس کے اِذن سے ہی اُس کی بارگاہ میں شفاعت ہوگی۔

آیت نمبر:258میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نمرود کے ساتھ اس مناظرے کا ذکر ہے ‘ جس کے نتیجے میں وہ لاجواب ہوا‘ یعنی جب ابراہیم علیہ السلام نے یہ کہا کہ : ” اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے (تجھے اگر خدائی کا دعویٰ ہے )‘ تواسے مغرب سے نکال لے‘‘۔ آیت نمبر273میں فرمایا کہ صدقات وخیرات کے حق دار وہ لوگ ہیں ‘ جو جہاد فی سبیل اللہ یا دین کے کسی کام(مثلاً دین کی تعلیم و تعلُّم)میں مشغول ہوں اور انہیں طلبِ معاش کی فرصت نہ ہو اور وہ اتنے خوددار ہوں کہ وہ لوگوں سے مانگتے نہ پھریں اور ان کی حقیقتِ حال سے ناواقف آدمی انہیں مالدار سمجھے ۔ آیت نمبر274میں فرمایا کہ ”سود خور کی مثال ایسی ہے ‘ جیسے کسی شخص کو شیطان نے چھو کر مخبوط الحواس کر دیا ہو‘‘ پھر فرمایا کہ سود کی حرمت کا حکم آنے کے بعد سود کا لین دین چھوڑ دو ‘ ماضی کی خطا معاف ہے؛ البتہ اگر کسی شخص کے دوسرے کے ذمے سابق مالی واجبات ہوں تو اصل زَر لے لے اور سود چھوڑ دے۔

آیت نمبر282میں مالی معاملات اور تجارت و لین دین کے چند بنیادی واساسی اصول بیان کئے ہیں :(1)دستاویزی شکل (Documentation) دو ۔(2) ادائیگی کا وقت مقرر کرو۔ (3) مالی معاملات کی دستاویز لکھنے پر قدرت رکھنے والے کو اپنے مسلمان بھائی کی لکھنے میں مدد کرنی چاہیے۔(4) تحریر لکھوانا قرض خواہ کی ذمہ داری ہے ۔(5) تحریر لکھنے میں دیانت داری سے کام فرض ہے ۔(6) مقروض نادان‘کمزور یا تحریر نہ لکھواسکتاہو تو اس کا ولی تحریر لکھوائے۔ (7) تجارتی ومالی معاملات میں دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنانا چاہیے ۔(8) گواہوں کو گواہی دینے سے انکار نہیں کرنا چاہیے ‘بلکہ خوش دلی سے گواہی دینا چاہیے۔ (9)گواہوں اور دستاویز لکھنے والوں کو تحفظ فراہم کرنا عاقدین (معاہدہ کرنے والوں) کی ذمہ داری ہے ۔(10) گواہوں اور دستاویز لکھنے والے کو ایذا پہنچانا گناہ ہے۔ (11) گواہی کو چھپانا گناہ ہے ۔(12)حالتِ سفر میں کوئی لین دین کا معاملہ ہوتو کوئی فریق ضمانت کے طور پر چیز اپنے پاس رہن رکھ سکتا ہے۔ (13) اگر دستاویز ی ثبوت لکھنے یا گواہوں کے بغیر کسی نے اعتماد کرکے کسی کے ساتھ لین دین کیا ہو‘ تو وہ دوسرے کی امانت واپس کرے اور آخر میں فرمایا:”اس معاملہ میں اللہ سے ڈرتا رہے‘‘۔

[pullquote]آلِ عمران[/pullquote]

سورۂ آلِ عمران کی آیت نمبر07میں بتایا کہ آیاتِ قرآنی کی دو قسمیں ہیں :(1)محکم ‘ یہ وہ آیات ہیں جن کی دلالت اپنے معنی ‘ مفہوم اور منطوق پر بالکل قطعی اور واضح ہے ‘ ان میں تمام شرعی احکام ‘ حلال وحرام ‘ فرائض وواجبات ‘ حدود وفرائض اور اَوامر (What to do) ونواہی(What not to do) کا بیان ہے۔ (2)متشابہ ‘ ان آیات پر ہر مومن کا ایمان لانا فرض قطعی ہے اور جن کے معنی ہم پر واضح نہیں ہیں‘ ان کی مرادہم اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں ۔ اللہ نے فرمایا ”جن کے دلوں میں کجی ہے ‘ وہ فتنہ جوئی اور متشابہات کا مَحمل (توجیہ اور مراد)نکالنے کیلئے کِنایات کے در پے رہتے ہیں؛حالانکہ متشابہ آیات کا قطعی اور آخری معنی اللہ ہی جانتاہے اور جنہیں علمِ دین میں مہارت حاصل ہے ‘ وہ کہتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لائے اور یہ سب ہمارے رب کی جانب سے ہے‘‘۔

آیت نمبر14میں بتایا کہ ”(انسان کی آزمائش کیلئے) عورتوںاور بیٹوں کی جانب میلان ‘ سونا اور چاندی کے جمع شدہ خزانوں ‘ نشان زدہ گھوڑوں ‘ چوپایوں اور کھیتی باڑی (یعنی مال ومتاعِ دنیا‘ مختلف زمانوں میں اس کی ظاہری صورت جو بھی ہو) کی رغبت کو آراستہ اور پرکشش بنا دیا گیا ہے‘ یہ سب دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور عمدہ ٹھکانہ صرف اللہ کے پاس ہے‘‘۔اس کے بعد بتایا کہ ان سے بدرجہا بہتر اور پائے دار نعمتیں اﷲکے پاس ہیں جو جنت میں عطا ہوں گی۔ اگلی آیت میں مومنینِ مخلصین کا یہ شِعار بتایا کہ ” جو یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! بیشک ہم ایمان لائے ‘ سو ہمارے گناہوں کو بخش دے اور دوزخ کے عذاب سے بچا ‘ (یہ لوگ )صبر کرنے والے ‘ سچ بولنے والے ‘ (اللہ کی) اطاعت کرنے والے ‘ (اللہ کی راہ میں) خرچ کرنے والے (اور رات کے پچھلے پہر اٹھ کر اللہ سے) بخشش کی دعائیں مانگنے والے ہیں‘‘۔

آیت نمبر26اور 27میں اللہ تعالیٰ کی جلالتِ شان کوان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے :”(اے نبی!)کہو: اے اللہ ! مُلک کے مالک ‘ تو جسے چاہتاہے ‘ مُلک دیتا ہے اور جس سے چاہتاہے‘ مُلک چھین لیتا ہے اور تو جسے چاہے عزت دیتاہے اور جسے چاہے ذلت میں مبتلا کردیتا ہے‘ سب بھلائی تیرے ہی دستِ قدر ت میں ہے ‘ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے‘ تو رات کو دن میں داخل کرتاہے اور دن کو رات میں ‘ تو زندہ کو مردہ سے نکالتاہے اور مردے کو زندے سے اور تو جس کو چاہے بے حساب رزق دیتاہے‘‘۔

آیت نمبر31میں اللہ تعالیٰ کے رسول مکرمﷺ کی عظمتِ شان کا ان الفاظ میں ذکر ہے۔ اس آیت میں واضح طور پر بتا دیا گیا کہ اگر بندہ اللہ تعالیٰ کے قُرب اور رِضا کا طلب گار ہو ‘ تو اُس کا فقط ایک ہی راستہ ہے ‘ یعنی اتباعِ مصطفیﷺ۔

آیت نمبر35سے حضرت مریم کا واقعہ بیان ہوا۔ عمران بن یاشہم حضرت مریم کے والد ہیں اور ان کی والد ہ کا نام حَنَّہ بنت فاقوذ مذکور ہے۔ اﷲتعالیٰ نے فرمایا ”جب عمران کی بیوی نے عرض کیا:اے میرے رب! جو (حمل)میرے پیٹ میں ہے‘ اُس کو میں نے تیرے (بیت المقدس کی خدمت کے لئے دوسری ذمے داریوں سے )آزاد رکھنے کی نذر مانی ہے‘ سوتو میری طرف سے (اِس نذر کو) قبول فرما ‘ بے شک تو بہت سننے والا خوب جاننے والا ہے ۔ پھر جب اس کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی ‘تو اس نے (عرض کیا)اے میرے رب! میرے ہاں لڑکی پیدا ہوئی ہے(جب کہ وہ بیٹے کی امید لگائے بیٹھی تھیں)‘ اور اللہ خوب جانتا ہے کہ اس کے ہاں کیا پیدا ہوااور(میرا مطلوب)لڑکا (اللہ کی عطاکردہ ) لڑکی کی مثل نہیں ہوسکتا اور میں نے اس کا نام مریم(اس کے معنی ہیں عبادت گزار) رکھا ہے اور میں اس کو اور اس کی اولاد کو شیطانِ مردود (کے شر) سے تیرے پناہ میں دیتی ہوں‘‘۔

اس کے بعد اگلی آیات میں یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے مریم کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمایا اور اسے عمدہ طریقے سے پروان چڑھایا اور حضرت زکریا علیہ السلام تربیت کے لئے ان کے کفیل بنے اور حضرت مریم کو بیت المقدس کے ایک حجرے میں ٹھہرایا گیا۔ پھر جب حضرت زکر یا علیہ السلام نے مریم کے پاس بے موسم کے پھل دیکھے تو حیران ہو کر کہا: ”اے مریم! یہ (بے موسم کے ) پھل کہاں سے؟حضرت مریم نے کہا: یہ اللہ کی جانب سے ‘‘۔ اس موقع پر حضرت زکریا علیہ السلام کے دل میں اولاد کی خواہش ابھری کہ جو رب مریم کو بے موسم کے پھل دے سکتاہے ‘ وہ مجھے بڑھاپے میں اولاد بھی دے سکتاہے۔ تب زکریا علیہ السلام نے اپنے رب سے دعا کی (اور) کہا :”اے میرے رب مجھے اپنی طرف سے پاکیزہ اولاد عطا فرما‘بے شک تو ہی دعا کا بہت سننے والا ہے‘‘۔

پھر جب زکریا علیہ السلام حجرے میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے ‘ فرشتے نے انہیں بشارت دی”بے شک اللہ آپ کو یحییٰ کی بشارت دیتاہے ‘جو کلمۃ اللہ (یعنی عیسیٰ علیہ السلام ) کی تصدیق کرنے والے ہوں گے ‘ سردار اور عورتوں سے رغبت نہ رکھنے والے ہوں گے اور نبی ہوں گے‘‘ پھر حضرتِ زکریا علیہ السلام اور ان کی بیوی کو بـڑھاپے اور بظاہر ناامیدی کی عمر میں بیٹے کی پیدائش کی نشانی بتاتے ہوئے یہ فرمایا ” تمہاری علامت یہ ہے کہ تم تین دن تک اشاروں کے سوا لوگوں سے کوئی بات نہ کر سکو گے اور اپنے رب کا صبح وشام کے وقت کثرت سے ذکر کرو‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتے کے ذریعے حضرت مریم کو بیٹے کی بشارت دیتے ہوئے فرمایا کہ ان کا نام مسیح عیسیٰ بن مریم ہے۔

آیت نمبر77میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے عوض تھوڑی قیمت لیتے ہیں‘اُن لوگوں کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے اور نہ آخرت میں اللہ اُن سے کلام فرمائے گا اور نہ ہی اُن کو پاکیزہ کرے گا ‘‘۔

آیت نمبر84میں عالمِ اَروَاح کے اُس عظیم واقعے کو بیان کیاگیا جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا:” اور( اے رسول!)یاد کیجئے جب اللہ نے تمام نبیوں سے پُختہ عہد لیا کہ میں تم کو (اپنی اپنی باری پر دنیامیں بھیج کر )جو کتاب اور حکمت دوں ‘پھر (بالفرض )تمہارے پاس وہ عظیم رسول آئیں ‘جواُس چیز کی تصدیق کرنیوالے ہوں ‘جو تمہارے پاس ہے ‘توتم اُن پر ضروربہ ضرور ایمان لانا اور ضروربالضرور اُن کی مدد کرنا‘ (اللہ نے )فرمایا: کیاتم نے اقرارکرلیا اور میرے اِس بھاری عہد کو قبول کرلیا؟ اُنہوں نے کہا: ہم نے اقرار کیا ‘(تواللہ نے )فرمایا: پس گواہ رہنا اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں ‘‘۔

اس میثاق سے معلوم ہواکہ ختم الرسلﷺ پر ایمان اور آپ کی نصرت وحمایت کا ہرنبی پابندتھا ۔اس پارے کی آخری آیات میں یہ بیان فرمایاکہ دینِ اسلام ایک تسلسل کا نام ہے ‘جو حضرت آدم علیہ السلام سے ختم المرسلین ﷺ تک چلاآرہاہے اور اُسی دین کی طرف بلایاجارہاہے ۔آیات نمبر86تا88میں اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے کے بعد کفر کرنے والوں کی سزا ‘اُن پر عذاب اورعذاب میں تخفیف نہ ہونے اور کسی طرح کی کوئی مہلت نہ دیئے جانے کا بیان ہے ۔بعد کی آیت میں جہاںتوبہ کرنے والوں کی بخشش کا بیان ہے ‘وہیں کفر پر ڈٹے رہنے والے اور حالتِ کفر میں مرنے والوںکی گمراہی کے ساتھ اُن کے ہمیشہ ہمیش توبہ قبول نہ کئے جانے کابیان ہے کہ اگر وہ پہاڑ برابر بھی سونا فدیے میں دے دیں تو قبول نہ کیاجائے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے