والدہ نے گردن پر تِل کے نشان سے پہچانا،لاپتہ فرد کی کہانی

جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد جب کچھ سالو ں کے بعد گھر واپس آتے ہیں تو ان کی آزمائش میں کمی واقع نہیں ہوتی بلکہ سماجی اور معاشی مشکلات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔جبری طور پر گمشدہ رہنے والے ایک فرد کاانٹرویو کیا گیا جو واپس آنے کے ایک سال بعد بظاہر آزاد تو ہے لیکن نفسیاتی طور پر مسائل کے قید خانے میں جکڑا ہوا ہے . پیشہ وارانہ تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے متاثرہ شخص کا فرضی نام استعمال کیا جارہا ہے.

[pullquote]ایڈیٹر [/pullquote]

[pullquote] گھر واپس لوٹنے کے بعدسے اب تک آپ کو کن مسائل کا سامنا ہے؟[/pullquote]

رضا: دو سال تک جبری طور پر گمشدہ رہا گمشدگی کے بعد جب واپس آیا تو دوسرے لاپتہ افراد کی طرح اس کا بھی سب کچھ ختم ہوچکا تھا.جب میں واپس آیا، زندگی کے دو سال تو گزر چکے تھے لیکن مجھے زندگی نئے سرے سے شروع کرنی تھی ۔گھر والوں کو محلے اور شہر والوں کی جانب سے الزام سننے کو ملتا کہ آپ کے بیٹے کو ایجنسیوں نے اٹھایا ہے، ضرور کچھ خطرناک کام کیا ہوگا، جبکہ مجھے صرف میرے ایکٹو ازم کی وجہ سے شک کی بنیاد پر اٹھایا گیا تھا. گُم کرنے والوں نے رہائی کے وقت معذرت بھی کی کہ آپ کا کوئی جرم نہیں تھا آپ جاسکتے ہیں لیکن اب کہاں جائیں؟معاشرے میں ہر فرد اس بنیاد پرہم سے دور رہتا ہے کہ یہ شخص مشکوک سرگرمیوں میں ملوث رہا ہے ۔

[pullquote]اس سب واقعے سے پہلے آپ کیا کام کرتے تھے؟[/pullquote]

رضا: اس سب سے قبل میں ایک انشورنس کمپنی کے ساتھ بطور سیلز مین جاب کر رہا تھا۔

[pullquote]اتنی سب مشکلات سے گزرنے کے بعدخود کو لے کر اب آپ کے خیالات اور تصورات کیا ہیں؟[/pullquote]

رضا: ہم اس معاشرے میں وجود تو رکھتے ہیں لیکن غیر متعلقہ فرد کی طرح ۔جبری گمشدگی کو ختم ہوئے ایک سال ختم ہوگیا ہے لیکن میں اب بھی سماجی پابندیوں اور رویوں کا شکار ہوں ۔گرفتاری سے قبل جو کاروبار شروع کیا تھا وہ سب ختم ہوگیا۔ایک سال کے دوران 6جگہوں پر ملازمت کرچکا ہوں لیکن ہر جگہ اداروں کے افراد کی جانب سے تفتیش کے نام پر ورک پلیس پر مشکوک بنا دیا جاتا ہے اور ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے. اب ایک معمولی سے ہوٹل پر ملازمت کرتا ہوں لیکن کب تک ،معلوم نہیں ہے. اپنا کاروبار شروع کرنا چاہتا ہوں لیکن سرمایہ نہیں ہے. اگر کوئی مہربان کچھ رقم دے بھی دیں تو ادارے نگاہ رکھتے ہیں کہ کس مقصد کے لئے رقم لی گئی ہے.

[pullquote]خفیہ طور پر غائب کیے جانے کے بعد وہاں کیسا سلوک کیا جاتا ہے؟[/pullquote]

لاپتہ افراد کو ہر قسم کی ذہنی جسمانی اذیت دی جاتی ہے جس کے لئے مختلف حربے استعمال کئے جاتے ہیں۔اس متاثرہ شخص کو خود سے اس قدر بیزار کردیا جاتا ہے کہ وہ فقط زندہ رہے لیکن اعصابی و جسمانی طور پر مفلوج ہوجائے. کسی بھی قیدی کے جسم کے بال کاٹنے نہیں دئیے جاتے، جب میں دو سال بعد گھر والوں کے سامنے آیا تو میرے لمبے بال ،،، دھنسی ہوئی آنکھوں اور لمبی داڑھی کی وجہ سے وہ مجھے پہچاننے سے انکار کر رہے تھے. میری والدہ نے میرے گردن پر تِل تلاش کرنا شروع کردیا تھا، تَل ملنے پر میرے ماتھے پر بوسہ دیکر کہا ہاں تم ہی میرے بیٹے ہو.

[pullquote]کیا وہاں موجود سبھی کے ساتھ ایسا ہوتا تھا؟[/pullquote]

رضا : میرے ساتھ سیل میں تمام قیدیوں کا ایسا ہی حلیہ بن گیا تھا. کچھ افراد کو واپس بھیجا جاتا تو سر کے بال اور مونچھیں تراش دی جاتیں۔ شاید ایسا اس لیے کیا جاتا ہے کہ وہ لوگ خوش ہوں جن کے لیے یہ سب کیا جاتا ہے .

[pullquote]آپ اس طرزعمل کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟[/pullquote]

رضا: اس ملک میں ہزاروں افراد کو قتل کرنے میں ملوث تحریک طالبان ، سپاہ صحابہ ، سمیت بہت سی کالعدم تنظیموں کے افراد اور جہادیوں کو قومی دھارے میں شامل کیا گیا ،یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آئین اورقانون کے خلاف ہزاروں لوگوں کو قتل کیا لیکن دوسری طرف ہمیں جبری طور پر گم کرکے ہمارا سب کچھ ختم کردیا گیا اور اب ہمارا جینا بھی دشوار ہوچکا ہے۔ہاں ایسا ہے کہ بہت سے افراد جو واپس آتے ہیں اور وہ منفی سرگرمیوں میں ملوث رہتے ہیں، اس لئے انہیں سرکاری نوکریاں بھی دی جاتی ہیں. لیکن جبری طور پر گمشدہ افراد کو قومی دھارے میں کیوں نہیں لیا جاتا جو حقیقی محب وطن ہیں اور کبھی ریاست کے خلاف کسی سرگرمی میں ملوث نہیں پائے گئے . ہمیں بھی ملازمتیں دی جانی چاہیئے ہم بھی اس ملک کے آزاد شہری ہیں۔

[pullquote] کیا سمجھتے ہیں کہ یہ معاملہ کس طرح حل ہوسکتا ہے؟[/pullquote]

جبری گمشدگیاں غیر آئینی اور انسانی حقوق کے خلاف عمل ہیں. ہمارے ملک میں قانون بھی ہے اور آئین بھی تو اگر کسی نے جرم کیا ہے تو اسے عدالت میں پیش کرنا چاہیے اور اگر الزام درست ثابت ہوجائے تو سزا واقعی دینی چاہیے . جبری گمشدگی سے ورثاء دہری اذیت کا شکار ہوتے ہیں. ایک تو ان کا پیارا مصیبت میں ہوتا ہے دوسرا آنکھوں سے اوجھل ہوتا ہے .بہتر یہی ہے اس عمل کو پاکستان میں بند ہونا چاہیے۔

گمشدگی کے بعد اور پہلے والے وقت میں بہت فرق ہے ۔میرا جسم وجود تو میرے ساتھ ہے لیکن جیل میں دی جانے والی اذیتوں کی وجہ سے میں اندر سے کھوکھلا ہوچکا ہے . میری بازیابی کو ایک سال سے زیادہ وقت گزر گیا مگر ایک عجیب سا خطرہ لاحق رہتا ہے کہ اب کیا ہونے والا ہے یا کیا ہوگا جبکہ میں اب آزاد ہوں، جینا چاہتا ہوں، لیکن جی نہیں پاتا..

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے