یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے

پاکستان میں گزشتہ ماہ برٹش امریکن ٹوبیکو کے ریجنل ڈائریکٹر اور پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے مابین باہمی ملاقات کے حوالے سے خبریں سنی گئیں۔ اِس ملاقات کے حوالے سے یہ بھی سنا گیا کہ پاکستان میں ٹوبیکو سیکٹر کی جانب سے اِس ریجنل ڈائریکٹر نے عمران خان کو دیامیر بھاشا، مہمند ڈیم فنڈ کے حوالے سے پچاس لاکھ روپے کا چیک بھی عطیہ کیا۔ اِس حوالے سے اِس ملاقات اور چیک دینے کی مختلف تصاویر مقامی پرنٹ میڈیا اور خصوصی طور پر سوشل میڈیا پر خاصی وائرل بھی رہیں۔ اِس ضمن میں ٹوبیکو سیکٹر کے ترجمان کی وزیراعظم سے ملاقات اور فنڈنگ کے حوالے سے چیک کی فراہمی پر سول سوسائٹی اور صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے بیشتر ماہرین کی جانب سے بھر پور تنقید کی گئی۔

اُس کے ساتھ ساتھ انسدادِ ٹوبیکو کے حوالے سے مختلف جاری نیم سرکاری پلیٹ فارمز اور پارلیمنٹیرنز کی جانب سے بھی اِس ملاقات پر کڑی تنقید کی گئی۔ تنقید میں کہا گیا کہ وزیراعظم عمران خان نے ٹوبیکو سیکٹر کے ترجمان سے ڈیم فنڈ کی مد میں چیک وصول کر کے نہ صرف عالمی ادارہ صحت کی گزارشات کی خلاف ورزی کی ہے بلکہ ملکی انسدادِ ٹوبیکو کے قوانین کی بھی خلاف ورزی کی ہے کیونکہ پاکستان اور عالمی ادارہِ صحت کے قوانین کے تحت ٹوبیکو سیکٹر کسی بھی سطح پر ٹوبیکو کی پروموشن کے حوالے سے کارپوریٹ سوشل رسپانسبیلٹی اور کسی قسم کی سماجی خدمات کی تشہیر میں حصہ نہیں لے سکتا، پاکستان نے دو ہزار چار میں ایف سی ٹی سی میں شمولیت اختیار کی تھی جس کے مطابق پاکستان فعال انداز میں انسدادِ ٹوبیکو کے عوامل پر موثر انداز میں عمل درآمد کرنے کا پابند ہے۔ اِس ضمن میں اس معاہدے کے آرٹیکل 5.3کے تحت تمام متعلقہ ممالک پر لازم ہو گا کہ وہ انسداد ٹوبیکو کے تحت کسی بھی قسم کی تشہیر کا حصہ نہ بنیں اور ٹوبیکو سیکٹر کے مفادات کو یقینی بنانے کے لئے کسی قسم کی پالیسز کو تقویت نہ پہنچائیں۔

اِس ضمن میں وزیراعظم کے مشیرِ خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کی جانب سے نیشنل ہیلتھ سروسز کے بیان کے مطابق وزارتِ صحت اِس ضمن میں وزیراعظم عمران خان کو تمام متعلقہ قواعد سے آگاہی فراہم کریں گے اور مستقبل میں وزیراعظم یا کوئی بھی دیگر اعلیٰ سرکاری عہدیدار کسی بھی ٹوبیکو سیکٹر سے کسی قسم کا ڈونیشن قبول نہیں کریں گے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِس ملاقات میں وزیراعظم کے مشیر برائے تجارت رزاق دائود اور چیئرمین سرمایہ کاری بورڈ ہارون شریف موجود تھے اور ڈاکٹر ظفر مرزا کو بالکل بے خبر رکھا گیا کہیں وہ وزیراعظم کو اِس ملاقات سے روک نہ دیں۔ بجٹ سے کچھ عرصہ پہلے اِس طرح وزیراعظم سے ملاقات کا مقصد کیا ہو سکتا ہے کہیں بجٹ میں ٹوبیکو سیکٹر پر ٹیکس نہ بڑھنے دینا تو مقصدنہیں۔

پاکستان میں بڑے سگریٹ برانڈز نے ملکی سطح پر اپنے برانڈز بنانے بند کر دیئے ہیں، اِس ضمن میں ان کمپنیز نے مارکیٹ کو کم قیمت سگریٹس سے بھر دیا ہے اور اِس طرح سے یہ کمپنیز مزید ٹیکسز سے چھوٹ حاصل کرنے کی کوشاں ہیں۔ دوسری جانب ایک عام رائے یہ ہے کہ ٹوبیکو سیکٹر اس اسمگلنگ اور دیگر عوامل کے حوالے سے حقائق کو بہت حد تک بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے۔

پارلیمانی سیکرٹری برائے وزارتِ قومی صحت ڈاکٹر نوشین حامد کے مطابق ٹوبیکو سیکٹر کے پیش کردہ حقائق کو گزشتہ حکومت نے درست خیال کرتے ہوئے ملک میں سگریٹس پر ٹیکسز کی شرح کم کی، تاہم موجودہ صورتحا ل کے تحت اِس ضمن میں مختلف شہروں سے ڈیٹا اکٹھا کیا جائے گا تاکہ اصل صورتحال کے مطابق پالیسی بنائی جا سکے۔ زمینی حقائق کے مطابق پاکستان میں ہر گزرتے دن کیساتھ 1200بچے سگریٹ نوشی کی جانب مائل ہو رہے ہیں اور بیشتر بچے سگریٹس کے استعمال کے ساتھ ہی دیگر نشہ اور عوامل کی جانب بھی مائل ہو جاتے ہیں۔

اِس میں کوئی شک نہیں کہ سگریٹ نوشی صحت کے لئے انتہائی مضر ہے اور دنیا بھر میں سالانہ ستر لاکھ لوگ سگریٹ نوشی کے باعث اموات کا شکار ہوتے ہیں، اِس حوالے سے بیشتر سگریٹ ساز کمپنیز کا کہنا ہے کہ وہ اُن حقائق سے آگاہ ہیں تاہم وہ کسی کو سگریٹ نوشی کی جانب مائل کرنے کی ذمہ دار نہیں ہیں، اُنکا کہنا ہے کہ وہ صرف موجودہ سگریٹ نوشی کا شکار لوگوں کی ضروریات کے مطابق سگریٹس تیار کر کے مارکیٹس میں فراہم کرتی ہیں لیکن یہ امر بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ سگریٹس ساز کمپنیز مقامی اور ملکی سطح پر حکومتوں کیساتھ ساز باز کر کے سگریٹس پر عائد ٹیکسز کی شرح کو کم سے کم رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

اِس ضمن میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایف بی آر اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے اور کیا ایف بی آر کو اس غیر قانونی تجارت سے روکنے کے حوالے سے کسی قسم کا سدِ باب نہ کرنے پر باز پرس نہ کی جائے۔ اِس حوالے سے جن مسائل میں یہ چیلنجز تیزی سے ابھر رہے ہیں یہ ممالک بڑے پیمانے پر کرپشن کا شکار ہیں اور گورننس کے مسائل سے نبرد آزما ہیں، اُس طرح سے ٹیکسز کی شرح میں ممکنہ اضافے کے حوالے سے گورننس سے متعلق مسائل کو حل کرنا ہوگا، پاکستان میں بالخصوص اگر ٹیکسز میں کمی کے حوالے سے مسائل ہیں تو تعین کرنا ہوگا کہ کون ذمہ دار ہے۔

پاکستان میں متعلقہ شعبوں بشمول وزارتِ صحت، فنانس منسٹری اور ایف بی آر پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اُن عوامل کو دیکھتے ہوئے ایک موثر اور واضح لائحہ عمل یقینی بنائیں۔ پاکستان کے حوالے سے جاری ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں چالیس فیصد تک فروخت ہونیوالے سگریٹس جعلی ہیں، اِس حوالے سے اِس رپورٹ کو بناتے ہوئے متعلقہ اداروں بشمول پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشین اور ہیومن ڈویلپمنٹ فائونڈیشن کی جانب سے ایک مشترکہ رپورٹ میں مجوزہ سگریٹس ریپرز اور پیکنگ کا بغور جائزہ لیا گیا اور رپورٹ مرتب کی گئی۔

اِس مد میں اگر اُن مسائل کے حوالے سے ایف بی آر اِن سگریٹ ساز کمپنیز کو ٹیکسز کی مد میں ممکنہ رعایت دیتی ہے تو یہ کسی طور جائز نہیں اور تھرڈ ٹائر کے تحت سگریٹ ساز کمپنیز پر ٹیکس کی مد میں کمی کسی طور جائز نہیں اور اگر موجودہ بجٹ میں کسی بھی مد میں ایف بی آر ٹیکسز کی شرح کو کم کرتی ہے تو یقینی طور پر اُن اقدامات سے ملک کے نوجوانوں میں سگریٹ نوشی کے فروغ میں اضافہ ہوگا، اِس لئے حکومت کو رواں سال کے بجٹ میں سگریٹ مافیا کو ٹیکسز کے حوالے سے دیئے گئے تمام استثنیٰ کو ختم کر کے ایک مؤثر ٹیکسیشن کے عمل کو یقینی بنانا ہوگا لیکن اُس کے لئے ضروری ہے کہ وزیراعظم اُس طرح کی کمپنیوں سے چندہ لینے کی رسم ترک کریں ورنہ اُس موذی عادت کا دھواں ہماری آنے والی نسلوں کے دلوں تک سرایت کر جائے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے