کشمیری نوجوانوں کی اوسط عمر اٹھارہ سال کیوں؟

کشمیری نوجوانوں کی بالائی عمر صرف اٹھارہ سال کیوں؟

A 10 years old is throwing pebbles on troops

آج سنیچر کے روز میں غیرمعمولی طور اپنے بستر پر ہی تھا اور ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر کچھ پڑھ رہا تھا کہ اسی دوران میرے مقبوضہ کشمیر کے ایک دوست مبشر احمد کتابہ کی پوسٹ کا” ٹیگ ان “ نوٹیفکیشن موصول ہوا۔ ابھی میں اس پوسٹ پر جواب ہی لکھ رہا تھا کہ ان کی کال آ گئی، ان سے علیک سلیک کے بعد ابھی کچھ اور بات کرتا تو ایک دم انہوں نے کہا کہ بھائی ہمارا تو جینا محال ہو چکا ہے، انھوں نے پاکستان گورنمنٹ کی جانب سے کشمیری عسکریت پسند تنظیموں کے دفاتر بند ہونے بارے ایک مقامی اخبار کی پوسٹ کا حوالہ دیا اور کہا کہ ہمارے یہاں انڈین آرمی کی کارروائیوں کا آغاز رمضان المبارک میں سحری کے اوقات میں شروع ہو جاتا ہے، وہ بتا رہے تھے کہ انڈین آرمی نہتے ، بے گناہ کشمیریوں کو جھوٹے مقدمات میں شامل کر کہ تشدد کا نشانہ بناتی ہے اور یوں رمضان المبارک کے پہلے عشرے میں گیارہ کشمیریوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔

مبشر بھائی کی آواز قدرے مدہم اور پرسوز تھی۔ میں نے ابھی اور آرام کرنا تھا مگر ان کے الفاظ مجھ پر ایسے وار کر رہے تھے جیسے کہ کوئی ڈھول پیٹ رہا ہو۔ میں ایکدم سے اٹھ کر بیٹھ گیا، اور پورے انہماک سے ان کو سننا شروع کیا۔ وہ بتا رہے تھے کہ آج کس کس کو سحری کے وقت بربریت کا نشانہ بنایا ہے تو یقین جانیے میرا کلیجہ منہ کو آ رہا تھا۔ میری آنکھوں میں پانی اتر چکا تھا مگر میں نے کوشش کی کہ میری کیفیت بارے انہیں علم نہ ہو۔

چنانچہ میں نے بات بدلتے ہوئے ان سے ان کی ڈگری بارے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں ابھی پی ایچ ڈی کر رہا ہوں اور مزید تعلیم کے لئے میں پاکستان جاؤں گا۔ بس پاسپورٹ بنوا رہا ہوں اور پھر تعلیم کے لئے پاکستان چلا جاؤں گا۔ اور مجھے امید ہے کہ ان شا اللہ مجھے ویزہ مل جائے گا۔ میں نے انہیں بھارت میں پاکستانی ڈگریوں بارے حکومت کا موقف بتایا کہ وہ تو اس کے خلاف ہے، لیکن آپ پھر بھی۔۔۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم کو سیاست اور سیاسی بھینٹ سے دور ہونا چاہیئے۔ انھوں نے اپنی بات کو معلوم نہیں کہاں چھوڑا، مگر پھر جب میں سنبھلنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ان کو پھر اپنی کشمیر کی بات کرتے ہوئے سنا۔ میں سوچ رہا تھا کہ میں اپنی شناخت کشمیری/پاکستانی بتاتا ہوں، مگر کیا ہمارے ہاں بھی ایسا کچھ ہوا ہے کہ ہم بھی کہیں کہ ہمیں پاکستان کے ساتھ نہیں رہنا؟ میرے سوال پر کہ آپ حق خودارادیت کے مرحلے میں کیا پسند کرو گے؟ پاکستان میرا پسندیدہ ملک ہے، بھارت کے ساتھ شامل ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اگر گھر والوں میں سے کوئی آزاد خودمختار ملک کا حامی ہوا تو وہ اپنی رائے دہی کا مکمل حق رکھتا ہے۔یہ ان کا جواب تھا۔ اس وقت ان کی آواز میں ایک سکون سا تھا لیکن جونہی انہوں نے اپنی روداد اور کشمیری عوام کے موجودہ حالات بارے بتانا شروع کیا تو پھر سے ان کی آواز سن کر میں ہیجانی سی کیفیت میں مبتلا ہو گیا۔

ایک لمحے کو مجھے لگا کہ شاید میرے اب میں رو پڑوں، کیونکہ ان کی باتوں سے تو میرے اندر ایک ایسی ہلچل شروع ہو گئی تھی کہ اس کا اظہار کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں کشمیر میں اب کوئی کشمیری نوجوان مشکل سے اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچتا ہے۔ بھارتی فوج چن چن کر نوجوانوں کو شہید کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دس لاکھ فوج ان نہتے نوجوان کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑتی ہے جن کے ہاتھ میں صرف پتھر ہوتے ہیں۔ ان کو بڑے ہو کر ماں باپ کا سہارا بننا ہوتا ہے، کتنے ایسے نوجوانوں کو شہید کیا گیا جو والدین کا واحد سہارا تھے۔ اب جب ہمارے ہاں نوجوانوں کو معلوم ہے کہ ان کی اوسط عمر اٹھارہ سال سے بھی کم ہے تو اس حال میں انہوں نے ہر وہ کام کر گزرنا ہے جو ان کو اچھا لگتا ہے یا جو قدم اٹھانے کے لئے ان کو مجبور کیا جاتا ہے۔ وہ بھی چاہتے ہیں کہ وہ بھی ہنسیں، کھلیں، مگر جس عمر میں ان کے ہاتھوں میں قلم ہونا چاہیئے، اس عمر میں وہ بندوق تھام لیتے ہیں۔ اور یہ بھارت سرکار کو جان لینا چاہیئے کہ دوسروں کو دہشتگرد گردانتے رہنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ اب ریاستی دہشتگردی کو ختم ہونا چاہیئے۔ ہم کشمیریوں کو بھی سکون کے دو پل میسر ہوں۔ ہم بھی انسان ہیں۔

جونہی مبشر احمد کتابہ بھائی سے بات ختم ہوئی اور جیسا کہ میں نے انہیں کہا تھا کہ مجھ سے جو ہو سکا میں اپنا فرض ادا کروں گا۔ مجھے لگا کہ چلو آج ہفتہ کا دن ہے یونیورسٹی بھی نہیں جانا تو کیوں ناں اس بارے کچھ میں بھی لکھوں۔ مجھے وہاں کی تازہ صورت حال کی تصاویر بھی انہوں نے ارسال کر دی تھیں۔

کشمیری عوام جو ستر سال سے بھارت کی ظلم اور بربریت کی اندھی چکی میں پس رہے ہیں، ہر نیا سال جہاں کچھ نئی امیدیں، کچھ نئی تمنائیں لاتا ہے وہاں ہی ہر روز کشمیری عوام کے لئے بھارت کے سخت سے سخت کالے قانون کو مزید تقویت پہنچتی ہے۔ یوں تو سارا سال کشمیر میں ظلم و ستم کا بازار گرم رہتا ہے، مگر رمضان المبارک کے آتے ہی دن اور رات کے اوقات میں ان مظالم میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ اور آجکل تو سحری کے اوقات میں نوجوانوں کو گھروں سے اٹھا لیا جاتا ہے کہ ان پر ملک میں فساد اور دہشتگرد تنظیموں سے رابطوں کا الزام ہے۔حالیہ دنوں میں ایسی ہی ایک لہر پھر سے پلوامہ،کریم آباد جنوبی مقبوضہ کشمیر کے حصے میں اٹھی ہے جہاں دس دنوں میں گیارہ (11 ) کشمیری نوجوانوں کو شہید کیا گیا ہے۔ ان میں زیادہ اٹھارہ شہدا کی عمر اٹھارہ یا اٹھارہ سال سے کم ہے جبکہ دو افراد کی عمر کچھ زیادہ بتائی گئی ہے۔

بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ایک ملین جدید ہتھیاروں سے لیس فوج کو نہتے کشمیریوں پر ظلم و بربریت کے لئے کھلی چھٹی دے رکھی ہے مگر ان کشمیریوں کے ولولے کو فوج کی یہ رعونیت کم نہ کر سکی۔ جنوبی مقبوضہ کشمیر کے علاقے میں حالیہ دنوں میں بھارتی فوج کے مظالم میں تیزی آئی ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ پچھلے چار دنوں سے وہاں انٹرنیٹ کی بندش تھی۔ کوئی کسی سے رابطے میں نہ تھا۔ ایک عجیب سی بے سکونی اور اضطراب کی کیفیت میں سب مبتلا تھے کہ نہ جانے اگلے لمحے کون سا عذاب نازل ہو جائے؟؟ دنیا میں جہاں بھی ظلم ہوتا ہے تو انسانی حقوق کی تنظیمیں وہاں سرگرم ہو جاتی ہیں، مگر ستر سال سے جو ظلم و جبر کی اندھی چکی میں پس رہے ہیں ان کی طرف دنیا کی کسی “انسانی” تنظیم کی نظر نہیں ! کیا ان کشمیری عوام کا خون سرخ نہیں ؟

بھارت ایک طرف اپنے آپ کو ایک بہترین سیکولر ملک کہتا ہے تو دوسری طرف اسی کے مقبوضہ علاقے میں وہ وہاں کے باشندوں کو ان کے بنیادی حقوق بھی نہیں دیتا۔ وہ کشمیری عوام کو طاقت کے بل بوتے پر خاموش کروانا چاہتا ہے۔ بھارت کتنا نادان ہے کہ علاقے میں خوف و ہراس اور بارود پھلا کر وہاں امن کا خواہاں ہے۔ بھلا کبھی کسی نے آج تک گندم بو کر مکئی کاٹی ہے ؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے