[pullquote]سورہ انبیاء[/pullquote]
فرمایا: لوگوں کے حساب کا وقت قریب آگیا اور وہ غفلت کا شکار ہیں ‘ دین کی باتوں سے روگردانی کررہے ہیں اور جب بھی نصیحت کی کوئی نئی بات ان کے پاس آتی ہے تو توجہ سے نہیں سنتے ‘ بس کھیل تماشے کے انداز سے سنتے ہیں اور نبی کو اپنے جیسا بشر قرار دیتے ہیں ‘ قرآن کو جادو‘ خوابِ پریشاں ‘ شاعری اور خودساختہ کلام قرار دیتے ہیں۔
قرآن نے بتایا کہ پہلے رسول بھی حاملینِ وحی تھے ‘ وہ بھی کھاتے پیتے تھے‘ یعنی بشری تقاضے نبوت ورسالت کی عظمت ِ شان کے خلاف نہیں ہیں ۔ اس کے بعد پچھلی قوموں کی سرکشی اور ان پر نازل کئے جانے والے عذاب کا ذکر ہے۔ آیت نمبر 22میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ”اگر آسمان وزمین میں اﷲکے سوا اور معبود ہوتے تو ان کا نظام ضرور درہم برہم ہوجاتا‘یعنی اگربہ فرض محال دو خدا ہوتے اور دونوں برابر اختیارات کے مالک ہوتے ‘ تو ان کی ترجیحات اور فیصلوں میں ٹکراؤ ہوتا اور نتیجہ کائنات میں فساد اور تباہی کی شکل میں رونما ہوتا۔ اور اگر ایک کا حکم چل جاتا اور دوسرے کا نہ چلتا ‘ تو جس کا حکم نہ چلتا وہ خدا کیسے کہلاتا‘‘۔
آیت نمبر30سے اللہ تعالیٰ نے تخلیق ِ کائنات کے سلسلے کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ آسمان اور زمین بند تھے ‘ تو ہم نے ان دونوں کو کھول دیا اور ہم نے پانی سے ہر جاندار چیز بنائی ۔ آج بھی تخلیقِ کائنات کا ایک سائنسی نظریہ ”بگ بینگ تھیوری‘‘کہلاتا ہے کہ ایک بہت بڑا آتشیں بگولا تھا ‘ ایک بہت بڑے دھماکے سے وہ پھٹا اور اس کے لامحدود ٹکڑے فضا میں بکھرگئے ‘ جنہوں نے سورج ‘ چاند ‘ ستاروں اور سیاروں کی شکل اختیار کی۔ قرآن میں اس کے لئے ”فتق‘‘اور ”فلک‘‘ کے کلمات آتے ہیں ۔ اللہ نے زمین میں توازن قائم رکھنے کے لئے اونچے اونچے پہاڑ بنا دئیے اور ان کے درمیان کشادہ راستے بنادئیے ہیں اور آسمان کو (بغیر ستونوں کے) محفوظ چھت بنا دیا ‘ رات اور سورج اور چاند کو پیدا کیا ‘ ہرا یک اپنے مدار میں تیر رہا ہے۔ آیت نمبر35میں قانونِ قدرت بیان کیا کہ” ہر نفس موت کو چکھنے والا ہے ‘‘‘ یعنی ہر ذی حیات پر موت آئی گی۔ آگے چل کر بتایا کہ قیامت اچانک آئے گی ‘حیرت زدہ کردے گی اور نہ کوئی اسے رد کرسکے گا اور نہ کسی کومہلت ملے گی ۔
آیت نمبر51سے ایک بار پھر ابراہیم علیہ السلام کاذکر ہے کہ وہ اپنے عرفی باپ اور قوم کو بت پرستی پر ملامت کررہے ہیںاور کہتے ہیں:” اللہ کی قسم تمہارے پیٹھ پھیر کے جانے کے بعد میں تمہارے بتوں کے ساتھ ایک خفیہ تدبیر کروں گا ‘ سوابراہیم نے ان کے بڑے بت کے سوا سب بتوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے‘‘۔ پھر ایسا ہی ہوا ‘ نمرود کی قوم نے کہا کہ ہمارے بتوں کا یہ حشر کس نے کیا‘ پھر انہوں نے خودہی کہا کہ ایک جوان ہے ‘ جس کا نام ابراہیم ہے۔ حضرت ابراہیم کو مجمع عام میں بلا کر ان سے جواب طلبی کی گئی ‘ تو انہوں نے کہا: یہ سوال اپنے بڑے بت سے کرو ‘ اگر وہ بول سکتے ہیں ۔ اس پر وہ شرمندہ ہوئے ‘ اس کے بعد انہوں نے ابراہیم علیہ السلام کو آگ کے ایک آلاؤمیں ڈالا ‘ مگر اللہ کے حکم سے وہ آگ ابراہیم علیہ السلام پر ٹھنڈک اور سلامتی بن گئی۔اس کے بعد لوط ‘ اسحاق ویعقوب علیہا السلام کا ذکر ہے کہ انہیں امامِ ہدایت بنایا اور نبوت اور علم عطا کیا ۔
آیت نمبر78سے حضرت داؤد وسلیمان علیہ السلام کے ایک مقدمے کا ذکر ہے ‘ جس میں حضرت داؤد علیہ السلام نے ایک فیصلہ کیا اور سلیمان علیہ السلام نے اس فیصلے کو غلط قرار دئیے بغیر دوسرا فیصلہ کیا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ:” ہم نے سلیمان کو (صحیح فیصلہ کرنے کی) سمجھ عطاکی اور ہم نے دونوں کو قوتِ فیصلہ اور علم عطا کیا تھا‘‘۔ اس کے بعد داؤد علیہ السلام کے معجزات کا ذکر ہے ‘ یعنی پہاڑوں کا اُن کے تابع ہونا ‘ پہاڑوں اور پرندوں کا ان کے ساتھ تسبیح کرنا اورجنگ سے حفاظت کے لئے زرہیں بنانا ۔ اسی طرح ہوا کو سلیمان علیہ السلام کے تابع کردیا جو ان کے حکم سے ان کے تخت کو اڑا کر لے جاتی تھی اور جنات کو ان کے تابع کردیا ‘وہ ان کے حکم سے کام کرتے تھے۔ اس کے بعد ایوب علیہ السلام کا ذکر ہے کہ انہیں تکلیف سے دوچار ہونا پڑا ‘ انہوں نے اللہ سے دعا کی اور اللہ نے ان کی تکلیف کو دور فرمادیا اور پہلے سے بھی زیادہ اہل وعیال اور نعمتوں سے نواز دیا ‘ پھر اسماعیل ‘ ادریس ‘ ذوالکفل ‘ ذوالنون (یونس) اور زکریا علیہما السلام کا ذکر ہے۔
حضرت یونس علیہ السلام اپنی قوم سے ناراض ہو کر چلے گئے اور پھر اللہ کی تقدیر سے دریا میں ڈال دئیے گئے ‘ دریا میں ان کو مچھلی نے نگل لیا اور انہوں نے تہہ در تہہ ظلمتوں میں اللہ سے ان کلمات کے ساتھ توبہ کی:”لَا إِلَہَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَکَ إِنِّیْ کُنتُ مِنَ الظَّالِمِیْن‘‘۔ا سی کو ”آیتِ کریمہ‘‘ کہتے ہیں ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تو ہم نے ان کی پکار سن لی اور انہیں غم سے نجات عطا کی اور ہم اسی طرح مومنوں کو نجات دیتے ہیں ۔ حضرت زکریا علیہ السلام نے اولاد کیلئے دعا کی ‘ اللہ نے ان کو بڑھاپے میں یحییٰ علیہ السلام عطا کئے۔
سورۃ الانبیا کے آخری رکوع میں آیت نمبر107میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبِ کریم سیدنا محمد رسول اللہﷺ کو ایک بے مثل وبے مثال اعزاز سے نواز اور ارشاد فرمایا :”وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ‘‘‘ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنی ذات کو ”رب العالمین‘‘ فرمایا اور نبیِ کریمﷺ ”رحمۃ للعالمین‘‘ یعنی کائنات کے ہرذرے کے لئے اللہ تعالیٰ کی” ربوبیت ‘‘اور اس کے حبیب ِ کریمﷺ کی ”رحمت‘‘ ثابت ہے۔
[pullquote]سورۃ الحج [/pullquote]
اِس سورت میں اللہ ربّ العزت نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو لوگوں کے لئے حج کے اعلان کرنے کا حکم دیا۔ پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کا حکم دیتے ہوئے قیامت کی ہولناکیوں کو بیان کیا کہ قیامت ایک زلزلے کے طورپر برپا ہوگی اور اُس کا منظر اِس قدر دہشت ناک ہوگا کہ دودھ پلانے والی مائیں اپنے دودھ پیتے بچوں کو فراموش کردیں گی ‘ہرحاملہ کا حمل ساقط ہوجائے گا‘ لوگ مدہوش نظر آئیں گے ‘جبکہ وہ مَدہوش نہیں ہوں گے‘ لیکن اللہ کے عذاب کی شدّت کے باعث اُن کی یہ کیفیت ہوگی۔
آیت05سے اللہ تعالیٰ نے حشرونَشر کی صحت اور امکان پر تخلیقِ انسانی اور انسانی عمر کے مراحل کے ذریعے استدلال فرمایا۔آیت9میں (اَزراہِ تکبّر) اپنی گردن موڑنے والے شخص کا ذکرکرتے ہوئے فرمایاکہ یہ اللہ کی راہ سے گمراہ کرنے والا ہے‘ اِسی باعث اِس کے لئے دنیامیںذلت اور قیامت کے دن جلانے والا عذاب ہے اور یہ اُس کی اُن بداَعمالیوں کی سزاہے ‘جو اُس نے آگے بھیجیںاور بے شک اللہ بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ۔
آیت15سے فرمایاکہ جس کا یہ خیال ہوکہ اللہ تعالیٰ دنیااور آخرت میںا پنے رسول کی ہرگز مدد نہیں کرے گا ‘تو اُس کو چاہیے کہ وہ اونچی جگہ پر رَسَّا باندھ کر (اپنے گلے میں ڈال لے)پھر اُس رَسّے کو کاٹ لے ‘پھریہ دیکھے کہ آیا اُس کی یہ تدبیر اُس کے غضب اور غصے کو دورکرتی ہے (یانہیں) ۔اِسی طرح ہم نے قرآن کو واضح آیتوں کے ساتھ نازل کیا ‘بے شک اللہ جسے چاہے ہدایت دیتاہے ۔آیت 17میں فرمایاکہ دنیامیں بظاہر اہلِ ایمان ‘یہود ‘صائبی ‘عیسائی ‘آتش پرست اور شرک کرنے والے ملے جلے سے ہیں ‘اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اِن سب کے درمیان فیصلہ فرمائے گا ‘بے شک اللہ ہرچیز پر نگہبان ہے ۔آیت18میں بتایاگیاکہ جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے ‘ سورج‘چاند‘ ستارے‘ پہاڑ ‘درخت ‘چوپائے اور بہت سے انسان اللہ ہی کے لئے سجدہ کرتے ہیں اور بہت سے وہ بھی ہیں جن پر عذاب مقدر ہوچکاہے اور جس کو اللہ ذلیل کردے ‘اُس کو کوئی عزت دینے والانہیں ۔آیت25سے فرمایا: جن لوگوں نے کفرکیااور اللہ کے راستے اور اُس مسجدِ حرام سے روکنے لگے ‘جس کو ہم نے لوگوں کے لئے مساوی بنایاہے ‘خواہ وہ مسجد میں معتکف ہوں یا باہر سے آئیں ۔جو اس مسجد(حرام) میں ظلم کے ساتھ زیادتی کا ارادہ کرے گا‘ہم اُس کو درد ناک عذاب چکھائیں گے۔
آیت27سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیاگیاکہ لوگوں میں بلند آواز سے حج کا اعلان کیجئے وہ آپ کے پاس دوردراز راستوں سے پیدل اور ہر دبلے اونٹ پر سوارہوکر آئیں گے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک پتھر پر کھڑے ہوکر نداکی : اے لوگو! اللہ نے تمہارے اوپر حج فرض کردیا ‘اللہ تعالیٰ نے یہ ندا اُن سب کو سنادی جو مردوں کی پُشتوں میں اور عورتوں کے رحموں میں تھے ‘اُن سب نے اِس نداکا جواب دیا ‘جواللہ کے علم میں قیامت تک حج کرنے والے تھے ۔اُنہوں نے کہا : ” لبیک الھم لبیک‘‘۔
آیت 28 تا 37 میں مقررہ ایام میں قربانی کرنے کا حکم‘ نذروں کو پوراکرنے اور اللہ کے گھر کے طواف کرنے کا حکم دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک قراردینے والے کی مثال کو اِس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ایساشخص گویا آسمان سے گرا ‘پھر اُسے مردار خور پرندوں نے جکڑ لیا یا آندھی نے اُس کو کسی دور کی جگہ پھینک دیاہو۔ فرمایا: جس نے اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کی ‘توبے شک یہ دلوں کے تقویٰ کی علامت ہے۔ پھر قربانی کا طریقہ اور اُس کا مصرف بیان ہوا۔ بتایا کہ قربانی کا مقصد گوشت پوست کا حصول نہیں‘ بلکہ اس فعلِ قربانی سے‘ جو تقویٰ حاصل ہوتاہے۔
آیت 61سے ایک بار پھر نظامِ گردشِ لیل ونہار ‘ بارش کے نزول اور اس کے نتیجے میں سبزے کے اُگنے ‘ سمندروں میں کشتیوں کی روانی اور آسمان کے بغیر ستون کے قرار کو اپنی قدرت کی نشانیاں قرار دیا۔ آیت 73میں اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے بتوں کی بے بسی کو بیان فرمایا کہ وہ سب مل کر ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے اور اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے‘ تووہ اُس سے واپس نہیں لے سکتے ‘ بت اور ان کے پجاری دونوں کمزور ہیں ۔