تکون کی چوتھی جہت دلچسپ ناولٹ ہے ۔ منفرد تجربہ ہے ۔ یہ تکون ایک مرد ، عورت اور جنگجو پر مشتمل ہے۔ چوتھی جہت بے رحم وقت کا دھارا ہے جو ان تینوں کا مختلف طرح سے امتحان لے رہا ہے۔ کہانی ملک میں گزشتہ دہائی میں ہونے والی دہشت گردی کو متنوع زاویوں سے بیان کرتی ہے۔ بیشتر مکالمے اغواءکار جنگجو اورمغوی مرد کے درمیان ہیں لیکن اس کا بڑا حصہ خودکلامی پرمشتمل ہے ۔ خاتون سے اس کا مرد چھین لیا جاتا ہے جو اس جنگ کا کسی بھی طور فریق نہیں تھا۔تاثر یہ ملتا ہے کہ کہانی کے تینوں کرداروں میں سے کوئی بھی بُرا نہیں۔ مغوی کا مظلوم ہونا تو واضح ہے ہی لیکن اغواء کار بھی اپنے اقدام کی بنیاد دلیل پر اُٹھاتا ہے۔ناول نگار نے اس کی شخصیت کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ ”جو جنگجو تھا، اگرچہ آزاد تھا ، مگر اپنے ماضی میں بندھا ہوا تھا“۔ ماضی میں کیا تھا ، ایک رومان تھا ، مگر رومان سے آگے کچھ درد بھی تھے ، جن کی قیمت وہ جنگجو ریاست سے لینا چاہتا ہے۔ خاتون جس کی کوکھ میں ایک رُوح پل رہی ہے ، اس کا اضطراب بجا ہے۔اس پیچیدہ جنگ میںاسے درد پہنچانے کا کوئی جواز نہیں۔
اقبال خورشید کے بارے میں کسی نے لکھا کہ اس نے ناولٹ میں اپنی رائے نہیں دی ۔ ناول کے کرداروں کے مکالموں اور مجموعی فضاء سے ناول نگار کی رائے کا سمجھ میں آنا بعید نہیں ہوتا۔ یہاں اقبال خورشید نے بھی رائے کے اخفاء سے کام نہیں لیا، اور اس کا ادراک مشکل نہیں۔ مغوی مرد کی خود کلامی دیکھیے:”میں نہیں جانتا یہ جنگ ہماری ہے یا نہیں مگر اتنا جانتا ہوں کہ ہمارے بدن اس کا ایندھن ہیں۔ یہ کرب کی فصل بو رہی ہے۔ ہم اپنے گیت بھول رہے ہیں“۔
جنگجو جب اونچی آواز میں سوچتا ہے تو وہ بھی معصوم لگنے لگتا ہے۔ جنگجو کی اس شخص سے کوئی دشمنی نہیں جسے اس نے اغواء کر رکھا ہے ۔ رقابت کے زخم سے بڑے اور گہرے گھاو اس کی روح پر لگے ہوئے ہیں جن کا ذمہ دار وہ ریاست کو سمجھتا ہے۔ جنگجوسوچتا ہے:”میرے اندر درد تھا اور میں ایک جنگ لڑ رہا تھا،جس میں ہمیں ایسی حدیں پار کرنی پڑیں ، جنھیں عام حالات میں ہم شاید پار نہ کرتے ۔ کئی ایسوں کو مارنا پڑا ، جنھیں عام حالات میں چھوڑ دیتے۔ ایسے مقامات پر حملے کرنے پڑے ، جہاں عام حالات میں ہم سر جھکائے داخل ہوتے۔۔۔یا سر جھکائے داخل نہ بھی ہوتے ، تو کم ازکم انھیں ڈھانے کی سعی نہ کرتے، مگر ایسا ہوا کہ یہی لکھا ہوا تھا“۔
اغواءکار اور مغوی کے درمیان تعلق کی نوعیت کیا ہے؟ ناول نگارنے یہاں صورت حال کو عجیب ڈرامائی انداز میں آگے بڑھایا ہے ۔ جنگجو اپنے آپ کو مصنوعی کوشش کے ذریعے درشت بنائے رکھنا چاہتا ہے ، وہ قیدی سے زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا لیکن اس کے اندر کا انسان رفتہ رفتہ موم ہوتا جاتا ہے ۔ وہ اپنے بچپن اور لڑکپن کو یاد کرتا ہے جب وہ بھی ایک نارمل انسان تھا ۔ اُدھر قیدی کے دماغ میں بھی طرح طرح کے ہولناک خیال آتے ہیں ۔ وہ اس نتیجے پر تقریباًپہنچ چکا ہے کہ اب اس کی سانسیں گنی جا چکی ہیں ۔ قید کے دنوں میں سے ایک دن وہ لزرتے ہوئے دل ہی دل میں اُن ویڈیوز کے بارے میں سوچتا ہے جن میں مقدس کلمات پڑھنے کے بعد تیز دھار آلے سے قیدی کا سر قلم کر دیا جاتا ہے۔ یہ خیال کے آتے ہی اس کا دل ڈوب جاتا ہے۔
قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کے نتیجے میں جنم لینے والے المیے کی جانب بھی اشارہ ہے۔ جب جنگجو کہتا ہے کہ”ہم میں سے چند آسمان سے برستے شیطانی قہر کا شکار ہو گئے تھے، اور چند کا تعاقب ہو رہا ہے۔۔۔اور۔۔۔ ہم بھی ان کا تعاقب کر رہے تھے“ ۔ اس جنگ سے جڑے ایک اور اہم پہلو کو جنگجو کی زبانی یوں بیان کیا گیا کہ ’ہم گھات لگا کر حملے کرتے ہیں۔ اور پھر اس کی ذمہ داری قبول کر لیتے ہیں۔ اور کبھی کبھار کوئی اور حملہ کرتا ہے ۔ اور ذمہ داری ہمارے کھاتے میں ڈال دیتا ہے۔“
قیدی مرد اور اس کی بیوی کے خط ہجرکے کرب اور بے چہرہ جنگ کے المیوں کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں ، جو یہ جانتے ہوئے لکھے گئے کہ یہ کبھی مُرسل الیہ تک نہیں پہنچیں گے ۔ جنگجو اندر ہی اندرعجیب اُلجھن کا شکار ہے ۔ ردعمل کی کیفیت میں وہ بہت پیچیدہ ہو چکا ہے۔ اسے جب خبر ملتی ہے کہ اس کے گاوں پر دجالی پرندوں(طیاروں) نے نیا حملہ کر کے اس کے دو ساتھیوں سمیت اس کا گیارہ سالہ بھائی بھی مار دیا ہے ،اس کے اندر انتقام کی آگ مزید بھڑک اٹھتی ہے۔
ناولٹ کے آخری مناظر میں سسپنس عروج پر ہے۔ ”تکون آگے بڑھی ، قیدی لرزتا رہا ۔ وقت سُست روی سے گرزتارہا ۔“ یہاں ناول نگار قاری کے احساسات کو اپنی مٹھی میں لے لیتا ہے ۔ پڑھنے والا خوف اور وحشت کی کفیت میں چلا جاتا ہے لیکن پھر اُسے اُمید کی جھلک بھی دِکھتی ہے ۔ آگے جا کر ”وہ سَمے کا پیڑ تھا، جس کی لہراتی شاخوں سے کرم کے پتے گرتے تھے“ ،بالآخر اُمید غالب آتی ہے ۔ ہجر تمام ہونے کی توقع قوت پاتی ہے۔تکون کی چوتھی جہت بے رحم وقت ہے یا ایک اور انسانی کردار جواب اس دنیا میں نہیں رہا ، یہ ابہام البتہ قائم ہے۔
یہ اہم موضوع پر لکھا گیا شان دار ناولٹ ہے جو اَلمیے کے جڑے کرداروں کے احساسات کو کامیابی سے بیان کرتا ہے۔گزشتہ برسوں میں ریاست مخالف مسلح گروہوں کے ہاتھوں کئی لوگ اغواء ہوئے ، بہت سے قتل ہوئے اور چند ایک کو طویل عرصہ کی جبری ’ گمشدگی‘ کے بعد زندگی نے ایک اور موقع دیا۔اس پُراَسرار کہانی کے کرداروں کے بارے میں لوگوں کی رائے مختلف ہے لیکن ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے درمیان انسانیت کی قدر مشترک ہے۔ مطلق بے حسی کہیں نہیں ۔ اسباب و علل کے تفاوت کی وجہ سے عجیب کشمکش نے جنم لیا اور اس کے نتائج میں نقصان صرف انسانوں کا ہوا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ناول نگار نے جس خُوں فشاں عشرے کو دیکھا ،اس کی تخلیقی انداز میں عکس بندی میں وہ کامیاب ٹھہرا ہے ۔اس ناولٹ نے میرے دِل کو چھوا ہے۔
دوسرا ناولٹ’ گرد کا طوفان‘ ہے ۔ یہ ملک کے سب سے بڑے شہرکراچی میں گزشتہ برسوں میں لسانی بنیادوں پر ہوئی خونریزی کا احاطہ کرتا ہے۔ کہانی بڑی تیزی سے آگے بڑھتی ہے ۔اوزی اور وِکی نامی دونوجوان جرائم کی پر اَسرار دنیا میں داخل ہوتے ہیں تو ان کے پاس واپسی کا راستہ نہیں بچتا۔ ورکنگ کلاس سے تعلق رکھنے والے لڑکے پہلے توتلاش معاش کے لیے تگ ودو کرتے ہیں ، ہر طرف سے ناکامی کے بعد وہ ایک ایسا پُر خطرشارٹ کٹ اختیار کرتے ہیں جہاں انہیں پیسے، طاقت اوردبدبے کا حصول ممکن نظرآتا ہے۔ مصنف نے اُس مرحلے کو بڑی مہارت سے بیان کیا ہے جب اِن کچے ذہن کے نوجوانوں کو پختہ کار مجرم بنایا جا رہا تھا۔
کرداروں کی زبان اس ماحول سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ کہانی کے مناظر بدلتے جاتے ہیں ۔ وہ جرائم کی اس دنیا کا حصہ بن جاتے ہیں ،کام چل پڑتا ہے۔ لیکن قوت پالینے کے باوجود بھی وہ خود کو محفوظ نہیں سمجھتے۔ ریاست کی جانب سے مواخذے کا دھڑکا تو ہے ہی لیکن اُن کے سرپرست بھی کسی بھی وقت اُن کی جان لے سکتے ہیں ۔ وہ ایک ایسی دنیا میں داخل ہوچکے ہیں جہاں صرف داخلہ اپنی منشا سے ہوتا ہے۔ حکومتوں کی ترجیحات بدلنے کے ساتھ ساتھ جرائم پیشہ گروہوں کی حکمت عملی بھی بدلتی رہتی ہے ۔ کچھ پکڑے جاتے ہیں ، کچھ چُھوٹ جاتے ہیں ۔اور کچھ محدود عرصے کے لیے دیگر علاقوں میں رُوپوش ہوجاتے ہیں ،حالات سازگار ہوتے ہی وہ لوٹ آتے ہیں ۔ حکومتیں دہشت کے اس آسیب کو نہ جانے کیوں برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔
کراچی کی سیاست میں یہ مناظر بھی دیکھے گئے کہ علاقے میں خوف اور جُرم کی علامت سمجھنے والے بہت سے لوگ ایک ڈکٹیٹر کے عہد میں عوامی نمائندے بن گئے۔ ایک طرح سے انہیں لوٹ مار کا سرکاری لائسنس مل گیا۔ پھر طاقت اپنے سر چڑھ کر بولی ۔ بارہ مئی کا اندوہ ناک سانحہ چشم فلک نے دیکھ رکھا اور ابھی تک وہ نم ہے۔ جنہیں طاقت ملی ،وہ اپنے امتحان میں ہلکے ثابت ہوئے۔ انہیں یوں لگا کہ اب تاریخ کا آئندہ کا سفر اُن کی مرضی سے طے ہو گا۔ اب سب کچھ ہموار اور موافق ہے،لیکن اگلا مرحلہ کافی مختلف اور کڑا تھا۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد ان سے سب کچھ چھن گیا۔ طاقت اور رعب جاتا رہا۔ یہ لوگ تقسیم کا شکار ہو گئے اور کہانی بن گئے۔ یہ ناولٹ ان سبھی احوال کا احاطہ کرتا ہے۔ ناولٹ کے دو مرکزی کردار اوزی اور وکی ایسے انجام سے دوچار ہوئے جو یقینی تھا۔کہانی مُشکی کے اسی چائے کے ہوٹل میں المیے پر تمام ہوتی ہے جہاں سے برسوں پہلے شروع ہوئی تھی۔
”گرد کا طوفان“اپنی زبان اور پلاٹ کے اعتبار سے سلیس اور واضح ہے۔ میں نے فوجی ڈکٹیٹر جنرل مشرف کے دور کا وہ زمانہ کراچی میں گزارا ہے جس کا احاطہ ناول نگار نے کیا ہے ۔ اس لیے یہ ناولٹ پڑھتے ہوئے وہ تمام مناظر میری آنکھوں کے سامنے ایک فلم کی طرح چلتے رہے جو تاریخ کا مستقل حوالہ بن چکے ہیں۔ مرکزی کرداروں کے مکالموں میں برتا گیا محاورہ حقیقت کے بہت قریب محسوس ہوا۔ کراچی میں سیاسی برتری اور طاقت کے حصول کے لیے لسانی تعصب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ لسانی بنیادوں پر سیاست کرنے والوں کوکراچی کے اَن داتاوں کے روپ میں دیکھنا اور پھر اُن کے زوال کا مشاہدہ کرنا بھی عجیب تجربہ ہے ۔
کراچی کے لوگوں نے گزشتہ اڑھائی عشروں میں جو کچھ دیکھا اور بھوگا ہے ،اس پر کئی فلمیں بن سکتی ہیں۔ مختلف جہات سے ناول لکھے جا سکتے ہیں ۔ گوکہ لوگوں نے نظمیں کہی ہیں۔ اخباری مضامین بھی لکھے گئے ہیں لیکن ابھی ان گنت کہانیاں ایسی ہیں جومشاق فکشن نگاروں کی توجہ کی منتظرہیں ۔ اقبال خورشید یقینا ان اولین ناموں میں شمار ہوں گے جنہوں نے کراچی کے المیے کو محسوس کرکے تخلیقی روپ میں بیان کیا ہے۔