شمالی وزیرستان میں فوج اور پی ٹی ایم مظاہرین میں‌جھڑپ، تین افراد ہلاک،ایم این اے علی وزیر گرفتار

شمالی وزیرستان میں اتوار کی صبح خاڑ کمر چیک پوسٹ پر تعینات فوجیوں اور پشتون تحفظ موومنٹ ( پی ٹی ایم) کے مظاہرین کے درمیان جھڑپ کے نتیجے میں تین افراد ہلاک جبکہ پانچ فوجیوں سمیت 15افراد زخمی ہوگئے ہیں . اس جھڑپ کے دوران شمالی وزیرستان سے ممبر قومی اسمبلی علی وزیر اور وزیر قبائل کے سربراہ ڈاکٹر گل عالم کو گرفتار بھی کیا گیا ہے .

[pullquote]فوج کا موقف [/pullquote]

فوج کے تعلقات عامہ کے شعبے کے ڈائریکٹر میجر جنرل آصف غفور نے اپنی پریس ریلیز میں دعویٰ کیا ہے کہ پشتون تحفظ تحریک کے رہنما اور اراکینِ قومی اسمبلی محسن جاوید داوڑ، علی وزیر کی قیادت میں مسلح افراد نے شمالی وزیرستان میں فوج کی چیک پوسٹ پر فائرنگ کی ہے جس کے نتیجہ میں پانچ سیکورٹی اہل کار زخمی ہو گئے ہیں۔

آئی ایس پی آر کے مطابق فائرنگ کے تبادلے میں تین افراد ہلاک جبکہ دس زخمی ہوئے ہیں جنہیں آرمی اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق پی ٹی ایم رہنما چیک پوسٹ پر پہنچ کر چند روز قبل حراست میں لیے گئے ’مشتبہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کی رہائی‘ کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے۔ فوج کا کہنا ہے کہ سیکورٹی اہلکاروں نے پی ٹی ایم کی اشتعال انگیزی کے باوجود تحمل کا مظاہرہ کیا۔

آئی ایس پی آر کے بیان کے مطابق ’پی ٹی ایم کی جانب سے چیک پوسٹ پر براہ راست فائرنگ کی گئی، فائرنگ کے تبادلے میں تین افراد ہلاک اور پندرہ افراد زخمی ہو گئے جن میں پانچ سیکورٹی اہل کار بھی شامل ہیں۔‘

آئی ایس پی آر بیان کے مطابق رکن قومی اسمبلی علی وزیر سمیت آٹھ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جبکہ محسن جاوید داوڑ موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

[pullquote]واقعے کا پس منظر[/pullquote]

وائس آف امریکا کی اردو سروس کے مطابق اراکین قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر اتوار کی صبح ایک احتجاجی دھرنے میں شرکت کے لئے قافلے کی صورت میں تحصیل دتہ خیل جا رہے تھے۔ جب قافلہ ‘خڑ کمر’ کی چیک پوسٹ کے قریب پہنچا تو مبینہ طور پر سیکورٹی فورسز نے انہیں آگے جانے سے روک کر گیٹ بند کر دیا۔ جس پر لوگوں نے احتجاج شروع کر دیا۔

محسن داوڑ کے سیکرٹری رحیم داوڑ نے بتایا کہ احتجاج شروع ہونے کے بعد اچانک فائرنگ شروع ہو گئی جس سے متعدد کارکن زخمی ہو گئے۔ رحیم داوڑ کے مطابق محسن داوڑ اور علی وزیر کو فائرنگ کے اس واقعے میں کوئی نقصان نہیں پہنچا۔

[pullquote]پی ٹی ایم رہنما کہاں جا رہے تھے؟[/pullquote]

بی بی سی اردو نے اپنے نامہ نگار کے حوالے سے لکھا کہ کہ ”بنوں پہنچنے والے بعض عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ضلع کے دورافتادہ علاقے دتہ خیل تحصیل میں چند دن پہلے سکیورٹی فورسز کی طرف سے کچھ مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا جس کے خلاف مقامی قبائل دھرنا دے کر ان کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ شمالی اور جنوبی وزیرستان سے پی ٹی ایم کے ارکان قومی اسمبلی اس دھرنے میں شرکت کے لیے آ رہے تھے تاہم انھیں مظاہرین سے ملنے سے روکا گیا۔ سرکاری طور پر اس بات کی تصدیق نہیں کی جا سکی۔
جن گرفتاریوں کے خلاف دھرنا دیا جا رہا تھا ان کا تعلق چند دن پہلے سرحد پار سے الواڑہ کے علاقے میں سکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملے میں تین سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد کیے جانے والے سرچ آپریشن سے ہے۔”

[pullquote]منظور احمد پشتین کی ٹویٹ [/pullquote]

پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور احمد پشتین نے اپنی ٹویٹ میں کہا ہے کہ یہ حملہ ڈی جی آئی ایس بھی آر کے کچھ دن قبل دیے کئے بیان کا فالو اپ ہے جس میں‌انہوں نے کہا تھا کہ پی ٹی ایم کے لیے مہلت ختم ہو گئی ہے.

[pullquote]منظور احمد پشتین کا فیس بک لائیو ویڈیو[/pullquote]

پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور احمد پشتین نے اتوار کی شام فیس پر لائیو ویڈیو میں کہا ہے کہ یہ میڈیا جی ایچ کیو کا میڈیا ہے ، یہ اسی کا پروپیگنڈہ چلاتا ہے. انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں کسی بھی ناخوشگوار واقعے کے بعد عام لوگوں کو مارا پیٹا جاتا رہا ہے . انہوں نے کہا کہ ایم این اے محسن داوڑ ، ایم این علی وزیر اور وزیر قبائل کے سربراہ ڈاکٹر گل عالم وزیر اس چیک پوسٹ سے گزر کر دھرنے کے مظاہرین کے پاس جا کر ان کے مسائل سننے اور ان کا حل نکالنے جا رہے تھے تو انہیں چیک پوسٹ پر روک کر جامع تلاشی کے نام پر ان کا بہت سا وقت ضائع کیا گیا اور پھر مظاہرین پر سیدھا فائر کھول دیا گیا جس میں درجنوں افراد زخمی ہو گئے .

منظور پشتین نے کہا کہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا محسن داوڑ کے گلے میں ہار ہیں اور دھرنے والوں نے ڈالیں ، ان پر یہ الزام لگانا کہ انہوں نے چیک پوسٹ پر حملہ کیا ہے کیسے درست ہو سکتا ہے؟ اگر عام عوام یہاں حملہ کرتے تو وہ پھول لاتے ، تمہارا پروپیگنڈہ یہیں دم توڑ گیا . منظور پشتین نے الزام عائد کیا ہے کہ وہاں سڑک پر زخمی ہونے والوں کو سڑک پر گھسیٹا گیا . انہوں‌نے کہا کہ اس واقعے کے بعد علاقے میں انٹرنیٹ اور فون سروس بند کرنے کا مقصد یہی ہے کہ لوگوں تک سوشل میڈیا کے ذریعے حقائق نہ پہنچ سکیں .

منظور پشتین کا کہنا تھا کہ پی ٹی ایم ایک پرامن جماعت ہے جو تشدد پر یقین نہیں رکھتی ، ہمارے اس سے قبل ہزاروں افراد پر مشتمل جلسے ہوئے ہیں‌، وہاں ہم نے کسی بھی قسم کا تشدد نہیں کیا ، ہم نے تو کسی پر پتھر تک نہیں پھینکا . لوگوں‌کو مارنے کی تاریخ تمہاری ہے.

منظور پشتین نے کہا کہ کیا اس سرزمین پر کسی کو احتجاج کا حق بھی نہیں ،کیا اس سرزمین پر صرف ان لوگوں‌کو حق ہے جو تمہاری سوچ کے ساتھ متفق ہو کر تمہاری چاپلوسی کریں . منظور پشتین کا کہنا تھا آج کے واقعے میں زخمی اور شہید ہونے والے عام عوام ہیں. ہم انسانیت سے محبت کرنے والے لوگ ہیں‌. ہم زندگی کی آخری سانسوں تک پر امن جدوجہد جاری رکھیں گے. ہم اپنے موقف اور راستے سے ایک بھی قدم پیچھے نہیں ہٹیں گے .

منظور پشتین نے کہا کہ میں سیاسی لوگوں سے اپیل کرتا ہوں‌کہ وہ اس نازک ترین وقت میں اپنا کردار ادا کریں اور مظلوم اور لاچار عوام جو برسوں سے اپنے مظلوم شہیدوں کے خون کے حساب کے منتظر ہیں ، مدد کریں . سیاسی جماعتوں سے عاجزانہ اپیل ہے کہ وہ اس غیر مسلح اور پر امن تحریک کی بات کریں . منظور پشتین نے اقوام متحدہ سے مطالبہ بھی کیا کہ وہ عام لوگوں کو مارے جانے کے اس سلسلے کو رکوائے . منظور پشتین نے اپنی گفتگو میں کہا کہ پوری دنیا کے پشتون آج اور کل اس واقعے کے خلاف احتجاج ریکارڈ کریں .

[pullquote]سیاسی شخصیات کا ردعمل[/pullquote]

پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے پوچھا گیا کہ ایم این اے محسن داوڑ کے بارے خبر ہے کہ انہوں نے آرمی چیک پوسٹ پر حملہ کیا ہے تو انہوں نے کہا :” معاف کیجیے گا ، محسن داوڑ کیسے حملہ کر سکتے ہیں ، میں‌نہیں‌سمجھتا کہ منتخب نمائندہ ایسا حملہ کر سکتا ہے .،میں‌شروع سے کہتا آ رہا ہوں‌کہ آپ ان کے موقف سے اختلاف کر سکتے ہیں ، اگر آپ فاٹا جیسے علاقے کے نوجوان سیاستدانوں سے بات چیت نہیں‌کریں گے ، غلط فہمیوں‌کا ازالہ نہیں کریں‌گے تو ہم سب نے دیکھا ہے کہ بلوچستان میں مشرف کے زمانے میں کیا ہوتا تھا ، ہم دیکھا کہ ایوب خان کی آمیریت کے بعد مشرقی پاکستان کے ساتھ کیا ہوا تھا ، اور اگر آج اہم اپنے ہی شہریوں‌کو اپنے ہی سیاست دانوں کو غدار کا لقب دیتے ہیں‌جب وہ رول آف لاء اور جمہوریت کی بات کرتے ہیں‌، تو یہ معاملہ خطرناک راستے کی طرف چلا جائے گا”

مسلم لیگ نواز کی نائب صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی بیٹی مریم نواز نے اپنی ٹویٹ میں‌لکھا ” ہر پاکستانی کی جان قیمتی اور اس کا خون مقدس ہے۔خون بہے تو حقائق قوم کے سامنے آنے چاہیں ۔محبت، امن اور مفاہمت ہتھیاروں سے کہیں زیادہ طاقت ور ہیں۔ کیا ہم احتجاج کچلنے اور آوزیں دبانے کی بہت بھاری قیمت ادا نہیں کر چکے؟اللہ پاکستان پر رحم کرے ”

عوامی نیشنل پارٹی کے سیکریٹری جنرل میاں‌افتخار حسین نے ردعمل دیتے ہوئے لکھا: ”حکومت ہوش کے ناخن لے۔وزیرستان میں مزید تشدد بند کیا جائے۔اب بھی کرفیو،گولیمار آپریشن جاری،پُرآمن احتجاج کرنے والوں پر تشدد ،عوامی نمائندوں پر تشدد،امن کیلۓگھر بار چھوڑنےوالوں پر تشدد،ماؤں،بہنوں،بیٹیوں کی قربانی دینے والوں پر تشدد۔یہ کسی طور پاکستان کے حق میں نہیں”

پیپلزپارٹی کے رہنما سنیٹر فرحت اللہ بابر نے لکھا :” حب الوطنی پر کسی فرد یا ادارے کی اجارہ داری نہیں ہے. میں علی وزیر ، محسن داوڑ اور ان کے ساتھیوں پر سیکورٹی فورسز کے حملے کی سختی سے مذمت کرتا ہوں ، یہ اجتماع کی آزادی ، کسی بھی جماعت سے وابستگی کی آزادی اور آزادی اظہار رائے جیسے بنیادی انسانی حقوق پر شرمناک حملہ ہے. ”

عوامی نیشنل پارٹی پختون خوا کے صدر ایمل ولی خان نے کہا :”وزیرستان جیسے واقعات پر پختونوں کو نہیں دبایا جاسکتا،اے این پی اس مشکل گھڑی میں پی ٹی ایم کے ساتھیوں کے ساتھ کھڑی ہے،وزیرستان سے فی الفور کرفیو اٹھایا جائے اور ایم این اے علی وزیر کو رہا کیا جائے”

[pullquote]صحافیوں کے تبصرے[/pullquote]

سینئر صحافی اور اینکر عاصمہ شیرازی نے لکھا”جو کچھ وزیرستان میں ہو رہا ہے کہیں یہ خدانخواستہ ایک اور غلطی کی جانب ایک اور قدم تو نہیں ؟، موجودہ معاشی اور جغرافیائی صورتحال میں ہم یہ سب افورڈ نہیں کر سکتے ، ریاست کو ماں بننا ہو گا۔ یہ وطن ہے تو ہم سب ہیں”

سینئر صحافی سید طلعت حسین نے یہ الفاظ ٹویٹ کیے :”وزیرستان میں فائرنگ، ہلاکتیں، گرفتاریاں ایک انتہائ افسوسناک اور پریشان کن خبر ھے۔ ھمیں اندرونی اتحاد کی ضرورت ھے۔ خلفشار اور ھنگامہ ایک آگ لگا سکتا ھے جس کو ھم آنے والے سالوں بھگتتے رھیں گے۔”

صحافی عمرچیمہ نے واقعے کی میڈیا کوریج پر تنقید کرتے ہوئے لکھا : ”ہم ایسے دور سے گزر رہے ہیں جس میں ایک فریق کے دعوے ناقابل تردید حقائق کی صورت میں ٹی وی چینلز پر چلائے جاتے ہیں اور دوسرے فریق کا موقف نشر کرنے پر پابندی ہے”

صحافی احمد نورانی نے لکھا : ”پاکستان کادرد رکھنےوالےپہلےدن سےحکومت اورفوج کےعہدیداروں کوبتارہےہیں کہ پی ٹی ایم کےمطالبات بھی درست ہیں اورانہیں منوانےکیلیےوہ راستہ بھی آئینی اپنارہےہیں, یہ مسئلہ افواج کونہیں, سویلین قیادت کو, ضد سےنہیں تحمل سے, حل کرناہے, مگرجواب میں پی ٹی ایم اوریہ بات کرنےوالوں کوغدارکہاگیا”

صحافی اور ایکٹوسٹ ماروی سرمد نے لکھا : جس طرح پاکستانی میڈیا نے فوج کے پی ٹی ایم مظاہرین پر حملے کو کور کیا ہے ، اس طرح تو میڈیا یا سیکورٹی فورسز کی جانب سے دی گئی معلومات پر اعتماد کرنا مشکل ہو جائے گا

سینئر صحافی اور تجزیہ کار مطیع اللہ جان نے لکھا : پاکستان میں صحافت کے طالبعلوں‌کو چاہیے کہ وہ لائبریریوں‌اور گوگل سے وہ خبریں ضرور پڑھیں جو 1971 کے سقوط ڈھاکہ سے قبل میڈیا میں‌چلائی گئی تھیں ، اس وقت بھی سب سے پہلے سچ کا قتل ہوا تھا . انڈین ایجنٹس نے پاکستانی فوج اور بنگالیوں‌کو ایک دوسرے کے خلاف لڑنے کے لیے اکسایا تھا.

سینئر صحافی اور کالم نگار انصار عباسی نے لکھا : ”N وزیرستان چک پوسٹ پر آج کے واقعہ کے بعد ذرا غور سے اُس طبقہ کے کردار کو دیکھیں جو ماضی میں فاٹا کے علاقوں میں ملٹری آپریشن کے لیے حکومت فوج پر دباو ڈالتا رہا۔ آج وہ PTM کے ہمدرد بن کر آگ بڑھکا رہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ پر امن طریقہ سے اس مسئلہ کو حل کرنے کے فوری اقدامات کرے۔”

[pullquote]پشتون تحفظ موومنٹ کیا چاہتی ہے؟[/pullquote]

خیال رہے کہ پشتون تحفظ تحریک کراچی میں پشتون شہری نقیب اللہ محسود کے مبینہ طور پر ماورائے عدالت قتل کے بعد وجود میں آئی تھی اور اس کے سربراہ منظور پشتین ہیں۔

پی ٹی ایم قبائلی علاقوں سے بارودی سرنگوں کا خاتمہ، جبری گمشدگیوں کی روک تھام اور ماورائے عدالت ہلاکتوں کا سلسلہ بند کرنے کے مطالبات کرتی آئی ہے۔

پاک فوج کے محکمہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے پی ٹی ایم پر ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ پی ٹی ایم کو دی گئی مہلت اب ختم ہو گئی ہے۔

اس وقت سوشل میڈیا پر پاکستانی فوج کی حمایت میں #WeStandWithPakArmy ، اور #WeStandWithPakArmy
ٹرینڈ کر رہا ہے اور پشتون تحفظ موومنٹ کے حامی #StateAttackedPTM
کا ہیشن ٹیگ چلا رہے ہیں .

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے