بدر کی عمر چوبیس سال ہے اور وہ ضلع گجرات کی تحصیل کھاریاں میں ایک دکان پر بجلی کا کام کرتا ہے ۔کھاریاں پاکستان کی امیر ترین تحصیل ہے کیونکہ یہاں کے لوگوں کی اکثریت روزگار کے سلسلے میں اسپین کے صوبے کاتالونیاکے صدر مقام بارسلونا میں مقیم ہے . بدر نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی ہے تاہم معاشی مجبوریوں کی وجہ سے وہ تعلیم کا سلسلہ مزید آگے نہ بڑھا سکا ۔ اس کے خاندان کے اکثر لوگ فرنیچر سازی کی صنعت سے وابستہ ہیں تاہم اس نے بجلی کا کام سیکھا اور گھروں میں جا کر کام کرتا ہے
دو ماہ پہلے اس کی شادی اس کے ماموں کی اٹھارہ سالہ بیٹی کے ساتھ ہوئی تاہم وہ اب بدر کے ساتھ نہیں رہ رہیں ہیں ۔ شادی کے ایک ماہ بعد بدر کی بیوی بارسلونا واپس چلی گئی جہاں اس کا خاندان دو عشروں سے مقیم ہے ۔ بلال کے مطابق اس کے کاغذات تیار ہو رہے ہیں اور وہ بھی اگلے تین ماہ کے اندربارسلونا پہنچ جائے گا ۔ یہ بات بتاتے ہوئے بلال کی آنکھوں میں چمک تھی اور وہ مجھے اپنے گھر کی چھت پر کھڑا بڑی خوشی سے اپنی کہانی سنا رہا تھا ۔
بلال کے گھر کی چھت پر ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی ۔ اطراف میں بڑے بڑے کھیت تھے جہاں گندم کی فصل لہلا رہی تھی ۔ کھیتوں میں کسان اپنے فیملی کے ساتھ فصل کی کٹائی میں مصروف تھے جب کہ ان کے بچے کھیت کے ان حصوں میں کھیل رہے تھے جہاں فصل کٹ چکی تھی ۔ کھیتوں کو جب بیج بونے کے لیے تیار کیا جاتا ہے تو اس وقت زمین پر بہت محنت کی جاتی ہے ۔ کچھ علاقوں میں کسان اب بھی پرانے طریقے پر ہی کام کرتے ہیں ۔ دو بیلوں کے ساتھ ہل لگایا جاتا ہے جس سے زمین نرم کی جاتی ہے تاکہ اس میں بیج بویا جا سکے ۔ ہل کے زریعے زمین میں ترتیب کے ساتھ لائنیں بنائی جاتی ہیں جن میں بیج بویا جاتا ہے ۔ بیج بونے کے بعد کسان بارشوں کا انتظار کر تے ہیں کیونکہ اس وقت جتنی اچھی بارشیں ہوتی ہیں ، گندم اتنی ہی اچھی تیار ہو تی ہے ۔ گندم اچھی طرح تیار ہونے میں تقریبا چار سے چھ ماہ لیتی ہے ۔
جب کٹائی کا وقت آتا ہے تو گاؤں کے کھیت آباد ہو جاتے ہیں ۔ لہلاتے کھیتوں کے بیچوں بیچ فصل کا ٹنے کی بسم اللہ کی جاتی ہے ۔ کچھ کسان فصل اچھی ہونے پر ڈھول باجوں کا اہتمام بھی کرتے ہیں ۔ اس موقع حشر ہوتی ہے ۔ حشر مشترکا طور پر فصل کی کٹائی کے عمل کو کہتے ہیں ۔ جس کی فصل پہلے تیار ہو جاتی ہے وہ پورے گاؤں لوگوں کو فصل کاٹنے کی دعوت دیتا ہے ۔ یہ دعوت گاؤں کے نائی کے ذمہ ہوتی ہے کیونکہ اس کے پاس گاؤں کے تمام چھوٹے بڑے لوگوں کا ریکارڈ ہوتا ہے ۔ جس دن حشر ہوتی ہے ، اس دن ڈھول اور شہنائی بجائی جاتی ہے ۔ خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ گاؤں کی خواتین حشر کی دعوت دینے والے کے گھر میں کھانا تیار کرتی ہیں ۔ یہ کھانے روایتی ہوتے ہیں اور عموما دیسی گھی میں تیار کیے جاتے ہیں ۔ پودینے کی چٹنی ، مکئی کی روٹی ، گندم کی تندور سے لگی روٹی ، مختلف قسم کے ساگ ، دالیں اور لسی حشر کا لازمی حصہ ہوتے ہیں ۔ کہیں دیگیں بھی چڑھائی جاتی ہیں اور دیگیں پکانے کا کام نائی ہی سر انجام دیتا ہے ۔
مرد کھیتوں میں فصل کی کٹائی کا آغاز کرتے ہیں ۔ اس سے پہلے مشترکا طور پر دعا پڑھی جاتی ہے ۔ سارا دن ڈھول کی تھاپ ٹوٹتی ہے اور نا ہی حشر رکتی ہے ۔ لڑکے اور لڑکیاں جہاں اپنے بڑوں کی دیکھا دیکھی کھانے پکانے ، حشر کے انتظامات کرنے ، فصل کی کٹائی کا طریقہ سیکھنے میں مگن رہتے ہیں وہیں وہ جوش میں ڈھول کی تھاپ پر رقص بھی کرتے ہیں ۔ بھنگڑے ڈالتے ہیں ۔ پنجاب میں بہار کی امد اور گندم کی کٹائی کے موسم کا تہوار بیساکھی کہلاتا ہے ۔
پہلے وقتوں میں بیساکھی کا تہوار سب مناتے تھے لیکن اب یہ سکھ مذہب کے ساتھ خاص ہو گیا ہے ۔ اس دن اب خالصہ جنم دن کی تقریبات ہوتی ہیں۔ گورداواروں تین دن کی تقریبات ہوتی ہیں تاہم ان تقریبات میں مسلمان ، سکھ ، مسیحی اور ہندو سب کو شمولیت کی دعوت دی جاتی ہے ۔ ہر گورداوارے میں داخل ہونے کے چار دروازے ہوتے ہیں ۔ اس کا مطلب ہی یہی ہوتا ہے کہ آپ جس دروازے سے چاہیں داخل ہو سکتے ہیں ۔ گورداوارے میں لنگر چل رہا ہوتا ہے جہاں سب لوگ باری باری اپنے شوق اور محبت کے ساتھ رضاکارانہ طور پر کام کرتے ہیں ۔ خواتین تندور پر روٹیاں لگا رہی ہوتی ہیں ، کہیں سبزی کاٹی جاتی ہے ۔ مرد بڑے بڑے دیگچوں میں کھانا پکا رہے ہوتے ہیں ۔ گورداوارے میں لنگر مفت تقسیم ہوتا ہے اور ایک بڑے ہال میں ہندو ، مسلم ، مسیحی اور سکھ بغیر کسی تفریق کے سب مل بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں ۔
گورداوارے میں کسی سے مذہب یا شناخت کے بارے میں پوچھنا اچھا نہیں سمجھا جاتا ۔ جو لوگ ماتھا ٹیکنے آتے ہیں ، ان میں کھنڈے باٹے کا امرت تقسیم کیا جاتا ہے ۔ یہ ایک خاص قسم کا حلوہ ہوتا ہے جو لوگ اپنے گھروں میں دیسی گھی اور شکر میں تیار کر کے گورداوارے میں لاتے ہیں ۔ اس موقع پر کیرتن کیا جاتا ہے ۔ کیرتن میں موسیقی کے ساتھ سکھ مذہب کے مقدس اشلوک پڑھے جاتے ہیں ۔ ہر گورداوارے میں ایک تالاب ضرور ہوتا ہے جہاں سب اشنان کرتے ہیں ۔ عورتوں کے لیے اشنان کا تالاب الگ ہوتا ہے ۔ ہر طرف ایک گہما گہمی کا ماحول ہوتا ہے ۔ تین دن کی تقریبات میں سکھ مذہب کی مقدس کتاب گرو گرنتھ صاحب جی مہاراج کو لگاتار پڑھا جاتا ہے اور اس کا ختم کیا جاتا ہے ۔ ختم کے ساتھ ہی بھوگ پڑ جاتا ہے اور بیساکھی کی تقریبات کا اختتام ہو جاتا ہے ۔ بھوگ گرنتھ جی مہاراج کے ختم کی رسم کو کہا جاتا ہے ۔ ختم کے ساتھ ہی سارے سکھ جمع ہوتے ہیں ۔ جلوس نکالا جاتا ہے جو گورداوارے کے گرد چکر لگاتا ہے ۔ آخری چکر کے بعد گورداوارے سے پرانا نشان صاحب اتار کر نیا لہرایا جاتا ہے ۔ سکھ مذہب میں زرد رنگ کے تکون جھنڈے کو نشان صاحب کہا جاتا ہے ۔
اوہو میں بھی بلال کے گھر کی چھت پر کھڑا کھیتوں کو دیکھتے دیکھتے کہاں سے کہاں پہنچ گیا ۔ بہر حال میں آپ کو بتا رہا تھا کہ کھیتوں میں فصل تیار تھی تاہم کسان گندم کو اچھی طرح پکنے کے لیے ایک دو دھوپوں کا انتظار کر رہے تھے لیکن ان کی پریشانی یہ تھی کہ ٹھنڈی ہواؤں کے ساتھ ساتھ آسمان پر بادل بھی منڈلا رہے تھے ۔ اس موسم میں جب فصل پک رہی ہو ،بارش کا آنا کسان کی خوشی کو غم میں بدل دیتا ہے کیونکہ بارشوں سے فصل خراب ہو جاتی ہے ۔ بارشوں سے گندم کے خوشوں میں پانی چلا جاتا ہے جس کی وجہ سے گندم کا دانہ کچا اور کمزور ہو جاتا ہے ۔ کچی اور کمزور گندم کو فروخت کرنے میں بہت مشکلات پیش آتی ہیں ۔
میں نے دیکھا کہ اکثر کھیتوں کے درمیان خوبصورت اور عالیشان کھوٹیاں بنی ہوئی ہے ۔ جدید طرز کے بنے یہ گھر اس علاقے میں لوگوں کی خوشحالی کا پتہ دیتے ہیں ۔ بدر نے مجھے بتایا کہ کریالہ کے اکثر گھروں سے کئی کئی لوگ سپین کے اکثر علاقوں میں عشروں سے آباد ہیں . بارسلونا میں گجرات کے لوگوں کی اکثریت ہے۔ وہ وہاں محنت مزدوری کرتے ہیں ۔ یہ پاکستانی وہاں جا کر بہت زیادہ محنت کرتے ہیں اور کثیر زرمبادلہ پاکستان بھجواتے ہیں ۔ یہ کوٹھیاں ان کی پردیس میں کئی گئی محنت اور مشقت کی علامتیں ہیں ۔
بدر خوش تھا کہ وہ بھی بارسلونا میں جا کر محنت کرے گا اور گاؤں میں اپنی عالیشان کوٹھی بنائے گا ۔ میں نے بلال کے چہرے پر اطمینان دیکھتے ہوئے کہا کہ ” کہیں آپ بھی اپنے ماموں کی طرح بارسلونا میں ہی تو نہیں رہ جاؤ گے "۔ تاہم اس کا کہنا تھا کہ وہ اپنے ماں باپ اور دوستوں کی خاطر واپس آئے گا ۔ واپسی کی خواہش سب کی ہوتی ہے لیکن کم ہی لوگ واپس آتے ہیں . اکثر پاکستانی کئی عشروں سے وہیں مقیم ہیں . اب تو ان کی تیسری نسل وہیں زندگی گزار رہی ہے تاہم ان خاندانوں نے پاکستان سے اپنا تعلق ختم نہیں کیا . ان کی شادیاں اب بھی پاکستان میں ہی ہوتی ہیں . نومبر سے لیکر فروری تک لالہ موسی ، کھاریاں ، سرائے عالمگیر اور گجرات میں رش بڑھ جاتا ہے . کاروباری سر گرمیاں بڑھ جاتی ہیں کیونکہ بیرون ملک پاکستانیوں کی بڑی تعداد اپنے ملک واپس آتی ہے . اس موسم میں یہاں شادیاں ہوتی ہیں . رشتے تلاش کیے جاتے ہیں .
[pullquote]مصباح کون ہے اور وہ کیوں پاکستان آئی ہے . ویڈیو دیکھنے کے لیے اس تصویر کے درمیان میں پلے کے بٹن پر کلک کریں .[/pullquote]
مصباح بارسلونا سے پاکستان آئی ہے . بائیس سالہ مصباح کا تعلق ڈسکہ سے ہے .وہ بارسلونا یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائینس کی طالبہ ہے . مصباح نے پاکستان اس وقت دیکھا جب اس کی عمر صرف ایک سال تھی . مصباح اکیس سال بعد پھر پاکستان میں ہے . وہ بہت خوش ہے کہ وہ ایک ایسی زمین کو دیکھ رہی ہے جو اس کے والدین ، دادا ، دادی اور نانا ، نانی کی جنم بھومی ہے .
مصباح بارسلونا کے ایوارڈ یافتہ صحافی آگس مورالس اور اینا سورینک کے ساتھ پاکستان آئی ہے . وہ پاکستان دیکھنا چاہتی ہے . وہ جاننا چاہتی ہے کہ اس کے آباو اجداد کے گھر کیسے تھے . ان کے گھر اور زمینیں کیسی ہیں . اب ان کی کیا حالت ہے ؟.
صحافی آگس مورالس اور اینا سورینک اپنے میگزین فائیو ڈبلیو کے ذریعے بارسلونا اور اسپین کے لوگوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ ان کے پڑوس میں رہنے والے پاکستانی اصل میں کہاں سے تعلق رکھتے ہیں . ان کے گلیاں بازار کیسے ہیں . ان کی تہذیب اور ثقافت کیا ہے . ان کے رسوم ورواج کیا ہیں . بارسلونا میں کئی ایسے پاکستانی بچے بھی ہیں جنہوں نے ابھی تک پاکستان میں اپنے علاقوں کو نہیں دیکھا . وہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ ان کا دیس کیسا ہے ؟
آگس نے مجھے بتایا کہ سپین کے صوبہ کاتا لونیا کے دارلحکومت بارسلونا میں اس وقت بڑی تعداد میں پاکستانی آباد ہیں ۔ یہاں پاکستانیوں نے بڑی محنت سے اپنا نام اور مقام بنایا ۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ 2004 میں یہاں پاکستانیوں کی دوسری اور تیسری نسل کو ان کے بزرگوں کی محنت اور مشقت سے آگاہ کرنے کے لیے ’’یانتو دے گاسعیلا ‘‘ کے نام سے ہسپانوی زبان میں فلم بنائی گئی ۔ 80 گھنٹے کی ریکارڈنگ پر مشتمل اس فلم کی دس سال کے دوران شوٹنگ کی گئی . پاکستانی کیمونٹی پر بنائی گئی اس فلم کو ایشئین فلم فیسٹیول میں بھی پیش کیا گیا .
مصباح بتا رہی تھیں کہ 2007 میں بارسلونا میں پاکستانی قونصل خانہ کھولا گیا ۔ بارسلونا میں پاکستانی کیمونٹی اپنے تمام تہوار زبردست جوش وخروش سے مناتی ہے . عید کے تہواروں کے دوران تو بارسلونا کی گلیاں پاکستانی محلوں جیسا منظر پیش کر رہی ہوتی ہیں . پاکستان سے کڑھائی اور کشیدہ کاری والے کپڑے خصوصی طور پر منگوائے جاتے ہیں . مہندی ، جیولری عید کا تہوار ہو یا 14 اگست کی تقریبات ،، کھلے عام منائی جاتی ہیں ۔ بارسلونا میں اردو مشاعرے ہوتے ہیں ۔ وہاں سینما میں اردو فلمیں چلتی ہیں ۔ دکانوں پر اردو گانوں کی سی ڈیز فروخت ہوتی ہیں ۔ پاکستانی کھانوں کے ریستوران بنے ہوئے ہیں جہاں تمام ڈشز مل جاتی ہیں . کئی محلے ایسے بھی ہیں جہاں پاکستانیوں کی اکثریت ہے.
مصباح نے گجرات سے عید کے لیے کپڑے خریدے . ہم نے گجرات میں آگس اور اینا کو دودھ جلیبی بھی کھلائی . انہوں نے شوق سے رس گلے اور رس ملائی کھائی . مصباح نے کراچی کمپنی اسلام آباد سے اپنی سہیلوں کے لیے چوڑیاں اور کڑے خریدے . آگس اور اینا نے بھی اپنے لیے کپڑے اور ضرورت کا دیگر سامان خریدا . انہوں نے بارسلونا میں اپنے دوستوں کے لیے تحائف بھی خریدے .
ہم روزانہ مخلتف لوگوں کے گھروں میں جاتے . لوگ ہماری خوب آو بھگت کرتے . بارسلونا میں کام کی غرض سے بسنے والے پاکستانیوں کو ہسپانوی کے ساتھ ساتھ کاتالینا کی مقامی زبان بھی آتی ہے . مصباح ، آگس اور اینا گجرات میں کاتا لینا جاننے والوں کے ساتھ اپنی زبان میں ہی بات چیت کرتے رہے .
ہم نے ایک شادی کی تقریب میں بھی شرکت کی . عقیل عباس کی شادی تھی لیکن اس کے تین دوست بھی بارسلونا سے چھٹیاں لیکر شادی میں شرکت کے لیے پاکستان آئے ہوئے تھے . ہم نے مہندی کی تقریب دیکھی . بارات میں گئے . نکاح کی تقریب میں شریک ہوئے . نکاح کے بعد بچوں نے پٹاخے پھوڑے اور آتش بازی بھی ہوئی . کچھ عرصہ پہلے یہاں پاکستان میں نکاح کے موقع پر ہوائی فائرنگ کا رواج چل پڑا تھا لیکن اس قبیح عمل کی سماجی سطح پر شدت کے ساتھ مذمت کی گئی اور اب تقریبات یا تہواروں کے موقع پر کوئی ہوائی فائرنگ کرے تو اسے بہت برا سمجھا جاتا ہے . پولیس کو اطلاع کی جائے یا پولیس کو علم ہو جائے تو اسے گرفتار کر لیتی ہے . ہم نے عقیل عباس کے ولیمے میں بھی شرکت کی . دیگی قورمہ، مٹن پلاو اور آلو پالک سے مہمانوں کی تواضع کی گئی . مصباح ، اینا اور آگس نے سبز ، زرد اور سرخ رنگ والا زردہ بہت پسند کیا جس میں بادام اور میوہ بھی شامل کیا گیا تھا .
میں نے مصباح ، آگس اور اینا سے پوچھا کہ انہیں پاکستان کیسا لگا . انہوں نے بیس دنوں کے دوران پیش آنے والے تجربات سے متعلق بتایا . وہ پاکستان کی خوبصورتی کے مداح تھے تاہم انہیں یہ فکر لاحق تھی کہ یہاں سیوریج کا سسٹم ٹھیک نہیں ، پلاسٹک بیگز کا استعمال بھی زیادہ ہے اور کچرے کو ٹھکانے لگانے کا بھی کوئی مناسب بندو بست نہیں . وہ سوچ رہے تھے کہ پاکستان میں ہر خوبصورت مقام کچرے کا ڈھیر کیوں بنا ہوا ہے اور لوگ ٹریفک کے قوانین کا احترام کیوں نہیں کرتے .
میں نے انہیں بتایا کہ پاکستانی قوم سمجھتی ہے کہ یہ سارے کام حکومت کے کرنے کے ہیں . بحثیت معاشرہ ہم اپنی کوئی ذمہ داری نہیں سمجھتے . ہمارے اسکولز ، کالجز اور مدارس کا نصاب ہمیں تعلیم تو دیتا ہے لیکن یہ نہیں سکھاتا کہ ہم نے معاشرے میں زندگی کیسے گزارنی ہے . اسی لیے آپ نے دیکھا ہوگا اعلی تعلیم یافتہ شخص بھی کیسے پبلک مقام پر سگریٹ نوشی کرتا ہے . بڑی بڑی گاڑیاں سڑکوں اور مارکیٹوں میں غلط پارک کی جاتی ہیں . گاڑیوں سے چھلکے ، پانی کی بوتلیں کیسے صاف ستھری سڑکوں یا پارکوں پر پھینک کر خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے . مجھے شرمندگی ہوئی کہ میں غیر ملکیوں کے سامنے کیوں اپنے ملک کے لوگوں کی برائیاں کر رہا ہوں . کیا میں اپنے ملک کے خلاف کہیں کوئی سازش تو نہیں کر رہا ؟
میں نے اپنی اس شرمندہ احساس کو ختم کرنے کے لیے انہیں بتایا کہ پاکستانی دنیا میں بڑی تعداد میں صدقہ اور خیرات کرنے والی قوموں میں شمار ہوتے ہیں حالانکہ دل میں ، میں سوچ رہا تھا ٹیکس نہ دینے میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں لیکن یہ بھی تو سچ ہے کہ انہیں معلوم ہے کہ ان کا ٹیکس کیسے اللوں تللوں میں خرچ ہوتا ہے تو وہ ٹیکس کیوں دیں لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ اگر ہم ٹیکس نہیں دیتے تو اس سوال کے حق سے بھی محروم ہو جاتے ہیں کہ حکومت کیا کر رہی ہے ؟ . اس لیے عوام اور حکومت نے مل کر اپنے مسائل حل کرنے ہیں . سارے مسئلے حکومت کی جانب سے بھی نہیں ہیں اور ہر مسئلے کے ذمہ دار لوگ بھی نہیں ہیں . ہماری جامعات ، معاشرے اور مارکیٹ سے کٹے ہوئے ہیں . پاکستان میں 183 جامعات ہیں جہاں لاکھوں طلبہ زیر تعلیم ہیں . یہ ایک بہت بڑی طاقت ہیں . ہر شعبے کے طلبہ کو اگر متحرک کیا جائے تو کئی مسائل مسئلہ بننے کے پہلے ہی حل ہو سکتے ہیں .
آگس نے مجھ سے پوچھا کہ ” یہ لوگ اتنا پیسہ پاکستان لاتے ہیں تو یہاں کوئی انڈسٹری کا قیام عمل میں کیوں نہیں لاتے یا کوئی کاروبار کیوں نہیں کرتے ؟ ” یہ بڑا اہم سوال تھا . سرو کے قطاروں میں لگے درختوں کے درمیان واک کرتے ہوئے میں نے آگس، اینا اور مصباح کو بتایا کہ یہ پسماندہ ذہن کی وجہ سے ہے . تاہم بعد میں مجھے علم ہوا کہ پاکستان میں کسی صنعت کا قیام کوئی اتنا آسان کام نہیں . اندسٹری کو فروغ دینے والے ادارے اور ان کے اہلکاروں کا رویہ صنعت کار کو اتنا مایوس اور حیران کر دیتا ہے کہ وہ یہاں سے بھاگنے میں ہی عافیت سمجھتا ہے . اسی لیے باہر سے سرمایہ لانے والے یہاں بڑی بڑی کوٹھیاں تو بنا دیتے ہیں لیکن صنعتیں نہیں لگاتے . دوسرا پاکستان میں صنعتوں کو قومیانے کی پالیسی نے بھی مسائل پیدا کیے . اب تک صنعت کار کا حکومت پر اعتماد بحال نہیں ہوا .
ہم نے کافی وقت اسلام آباد میں اکٹھے گزارا . سرو کے درخت سے ایک گیندے کے ساتھ فٹ بال کھیلنے کی ناکام کوشش کی . ہم نے دوڑ بھی لگائی. بارسلونا اور پاکستان سے متعلق بہت سی باتیں کیں .
اینا نے پوچھا کہ پاکستان کے کئی علاقوں میں انسانی اسمگلنگ کے بارے میں بھی خبریں ملتی ہیں . یہ بات درست تھی . بڑی تعداد میں پاکستانی اس وجہ سے سعودی عرب ، ترکی ، اٹلی ، ملائشیا کی جیلوں میں ہیں . کئی مشکل سفر کے دوران مارے گئے .کئی ایسے ہیں جن کے ساتھ ایجنٹوں نے لاکھوں روپوں کا فراڈ کیا اور دھوکا دیا . کئی ایجنٹوں کے ساتھ گئے لیکن اب واپس ملک آنا ان کے لیے ایک مسئلہ بنا ہوا ہے .
بارسلونا میں تعینات پاکستانی قونصل جنرل عمران علی چوہدری نے بتایا کہ پاکستان کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جہاں انسانی اسمگلنگ اب ایک روایت بن چکی ہے . بارسلونا میں سب سے زیادہ شکایات گجرات، وزیرآباد اور منڈی بہاؤالدین کے علاقوں کی ملتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اسپین میں غیرقانونی طریقے سے آ نے والے پاکستانیوں کو ہم قانونی معاونت فراہم کرتے ہیں۔ ان کا مؤقف سنتے ہیں، ان کی شناخت کے عمل کو مکمل کراتے ہیں اور پاسپورٹ بھی فراہم کرتے ہیں۔
اپنا ملک چھوڑ کر باہر جانا کوئی آسان نہیں . مصباح نے بتایا کہ کیسے تین کمروں کے فلیٹ میں بیس بیس لوگ رہ رہے ہیں . انہیں بہت زیادہ محنت کرنی ہوتی ہے تاکہ وہ پیسہ بچا کر اپنے گھر والوں کے بھجوا سکیں .
بدر نے بتایا کہ یہاں کئی ایسے لوگ بھی ہیں جو دیکھتے ہیں کہ یہاں محنت کا مناسب معاوضہ نہیں ملتا ، سارا دن کام کرنے کے باوجود مزدوری نہیں دی جاتی . مہینے گزر جاتے ہیں لیکن لوگ پیسے نہیں دیتے . اس وجہ سے لوگ بڑی تعداد میں ملک چھوڑ کر باہر جانا چاہتے ہیں . ” محنت یہاں بھی کرنی ہے اور وہاں بھی کرنی ہے تو بہتر نہیں وہاں محنت کی جائے جہاں معاوضہ تو کم از کم بہتر ملے ". بلال کے چہرے پر مایوسی تھی .اسے یہاں کم پیسے ملنے کا دکھ تھا یا اپنوں سے بچھڑنے کا غم ، میں نے نہیں پوچھا .
شاید اسے اپنا گھر چھوڑ کر پردیس جانا کچھ زیادہ اچھا نہیں لگ رہا تھا لیکن اب تیر کمان سے نکل چکا تھا . اس کے ماموں جو اب اس کے سسر بھی بن گئے ہیں ، انہوں نے بلال کو بارسلونا میں اپنے ساتھ ہی کام پر لگانے کا فیصلہ کر لیا ہے . بلال کے کاغذات مکمل ہو گئے ہیں اور اس بڑی عید کے بعد وہ مستقل طور پر بارسلونا منتقل ہو جائے گا . بارسلونا پہنچتے ہی وہ بارسلونا میں مقیم پاکستانی کیمونٹی کا حصہ بن جائے گا .