اسلام آباد کا بیس سال پرانا علمی اور ادبی مرکز اجڑنے کو ہے ۔

سی ڈی اے نے اسلام آباد کے بیس سال پرانے علمی مرکز سمیت 485 ڈھابے گرانےشروع کر دیے ۔

اسلام آباد میں چار سو پچاسی ڈھابے بنے ہیں جن سے ساڑھے پانچ ہزار سے زائد لوگوں کا روزگار وابستہ ہے ۔ سی ڈی اے نے عید کے بعد ان سب کو گرانے کا نوٹس جاری کر دیا ہے ۔

[pullquote]ویڈیو دیکھنے کے لیے اس تصویر کے درمیان میں پلے کے بٹن پر کلک کریں . [/pullquote]

یہ اسلام آباد کے سیکٹر آئی ٹین فور میں واقع ایک ڈھابہ ہے ۔ یوں تو اسلام آباد میں 485 ڈھابے ہیں لیکن درختوں کے جھنڈ میں قائم اس ڈھابے کو الگ ہی اہمیت حاصل ہے ۔ یہ شہر کا علمی اور ادبی ڈھابا کہلا تا ہے جس کی شہرت صرف اسلام آباد میں ہی نہیں ، پورے پاکستان میں ہے ۔ یہ پاک ٹی ہاؤس لاہور کی طرز کا اسلام آباد میں قائم علمی و ادبی جنکشن ہے ۔

معروف شاعر ، نقاد اور ادیب اختر عثمان کے مطابق اس ڈھابے پر گزشتہ بیس برس سے علمی اور فکری مجالس کا سلسلہ جاری ہے ۔ ہر شام جڑواں شہروں کے شاعر اور ادیب یہاں جمع ہوتے ہیں اور مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں۔

منظر نقوی شاعری کی دنیا کا ایک بڑا نام ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ دو عشروں سے آباد اس ڈھابے کے تعارف صرف پاکستان میں ہی نہیں ، پوری دنیا میں ہے منظر نقوی کہتے ہیں کہ اس ڈھابے پر شعرااپناتازہ کلام پیش کرتے ہیں ، علمی تنقید ہوتی ہے اور تحقیق کے نئے زاویے کھلتے ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر طاہر اسلام عسکری بنیادی طور پر مذہبی علوم کے استاد ہیں اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ اس ڈھابے پر صرف شاعر ادیب اور صحافی ہی نہیں آتے بلکہ جامعات کے اساتذہ اور مذہبی علوم پر دسترس رکھنے والی شخصیات بھی یہاں روز اکٹھی ہوتی ہیں ۔ یہاں درس وتدریس سے وابستہ اہم شخصیات کے علاوہ زبان و بیان پر تحقیق کرنے والے طلبہ بھی اکثر آتے ہیں کیونکہ انہیں ایک ہی جگہ اہم شخصیات مل جاتی ہیں ۔

علی بابا تاج کا تعلق کوئٹہ سے ہے اور وہ وہاں ایک کالج میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں ۔ ان کے مطابق اسلام آباد میں ان کا ٹھکانا یہ کھوکھا ہے جہاں انہین اکثر کوئٹہ کے شاعر ادیب بھی مل جاتے ہیں ۔ اختر شیرانی بھی یہاں اکثر آتے ہیں ۔

جڑواں شہروں کے شاعر ، ادیب ، نقاد اور اساتذہ پریشان ہیں ۔ ان کی پریشانی کی وجہ یہ ہے کہ اسلام آباد کی تعمیر و ترقی کے ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے شہر کے اس علمی اور ادبی مرکز کو اجاڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔

صلاح الدین درویش نقاد ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ سی ڈی اے نے ڈھابے ختم کرنے کا فیصلہ کر کے شاعروں اور ادیبوں کو پریشان کر دیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں ایسی جگہوں کو فروغ دیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں علم اور ادب کی ہر عمارت گرا کر نہ جانے کیا خوشی محسوس کی جاتی ہے ۔

سی ڈی اے کا موقف ہے کہ شہر میں قائم یہ 485 کھوکھے گرین بیلٹ اور پارکس میں قائم کئے گئے ہیں اور یہ شہر کی خوبصورتی کو تباہ کر رہے ہیں ۔ سی ڈی اے کے محکمہ انسداد تجاوزات نے کئی کھوکھے گرا دیے ہیں ۔ باقی کھوکھے بند پڑے ہیں جبکہ اگلی باری اس ڈھابے کی ہے ۔

عبداللہ ہارون یہاں مستقل آتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ جس طرح ماحول کو بہتر رکھنے کے لیے نبابات کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح معاشرے کا ذہنی سطح بلند کرنے کے لیے اس طرح کے مراکز سماج کے لیے آکسیجن فراہم کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں اظہار پر پابندی ہے اور سرکاری جگہیں بھی مخصوص افراد کے پاس ہیں ۔ ایسے میں ان ڈھابوں میں منعقد ہونے والی مجالس ہی فکری غذا فراہم کرتی ہیں ۔

دوسری جانب ڈھابے لگانے والوں کا کہنا ہے کہ ان ڈھابوں کے لیے سی ڈی اے نے باقاعدہ اجازت دی تھی اور نقشے منظور کر کے دیے تھے ۔ داؤد عباسی ماشاٗ اللہ فوڈز نامی اس ڈھابے کے مالک ہیں ۔ وہ چالیس برس سے اس کاروبار سے منسلک ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ چالیس سال سے اس کام سے منسلک ہیں ۔ ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے ۔ان ڈھابوں سے پانچ ہزار سے زائد لوگوں کا روزگار منسلک ہے ۔ سی ڈی اے ان ورکرز کو خود کشی پر مجبور کر رہا ہے ۔

اسلام آباد کے بارے میں یہ رائے ہے کہ یہ بیورو کریسی کا شہر ہے ۔ یہاں کی زندگی مصنوعی اور نمائشی ہے ۔ یہاں زندگی کی رمق ان ڈھابوں اور کھوکھوں پر جمنے پر عوامی نشستوں سے ہوتی تھی لیکن سی ڈی اے اب انہیں بھی ختم کر رہا ہے۔

ڈھابہ بند ہونے کے باوجود بھی شعرا کی بیٹھک جاری ہے تاہم آج وہ صرف گفتگو کر رہے ہیں ۔ آج ان کی گفتگو میں دھابے پر تیار ہونے والی خاص چائے کی چسکیاں شامل نہیں ہیں ۔ اس ڈھابے سے ان کی پرانی یادیں وابستہ ہیں ۔ وہ سی ڈی اے کے اس فیصلے سے پریشان بھی ہیں اور مایوس بھی ۔ ان کا مطالبہ ہے کہ سی ڈی اے اپنا فیصلہ واپس لے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے